Express News:
2025-06-15@05:26:04 GMT

الیکٹرانک میڈیا پر شاعری اور افسانے

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

بہت دن سے یہ بازگشت سننے کو مل رہی ہے کہ سوشل میڈیا سے دلچسپی کے باعث اب علم و ادب اور شعر و سخن کے متوالے کم ہوتے جا رہے ہیں کچھ دانا و بینا نے تو اس بات کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ آیندہ بیس، پچیس برسوں میں پرنٹ میڈیا زوال کی حدوں کو چھونے لگے گا۔

کتابیں اور اخبارات و رسائل کی اشاعت محدود ہو جائے گی یا پھر بالکل ختم ہو جائے گی لیکن تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے آج بھی جونیئر و سینئر لکھاریوں کی کتب کی اشاعت باقاعدگی سے ہو رہی ہے، ہر موضوع پر کتابیں شایع ہوتی ہیں اور قاری اپنے ذوق و فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب خریدتا ہے۔

حال ہی میں حامد علی سید کا شعری مجموعہ ’’ریگزار میں دریا‘‘ اور زویا حسن کے افسانوں کا مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب ‘‘منظر عام پر آیا۔ کچھ تخلیقات نے پرنٹ میڈیا کی جگہ اپنا جلوہ دکھایا، اظہار کے ذرایع میں آج جدید کتاب کا نام ’’فیس بک‘‘ ہے گویا آپ کا چہرہ کھلی کتاب کی مانند ہے جہاں پر دل کی باتیں اور ذہانت و فطانت کے خزانے پائے جاتے ہیں۔

کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر قدغن ہو، اب بات یہ ہے کہ ہر باصلاحیت شخص اپنے مزاج اور فکر کے مطابق علم و ہنر کے دریا بہاتا ہے انھی فنکاروں میں ایک اہم ترین نام زیب اذکار حسین کا بھی جو صحافت و افسانہ نگاری اور شعر و سخن کے حوالے سے ممتاز بھی ہے اور معتبر بھی کافی طویل عرصے سے آپ شاعری کر رہے ہیں، غزلیات ان کی پسندیدہ صنف ہے ان کی غزلیں حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم پر تو سننے کو ملتی ہی ہیں جس کے وہ سیکریٹری ہیں، ہم انھیں فیس بک پر بھی پڑھتے ہیں ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ منفرد ہے لفظوں کا انتخاب قابل ستائش ہے نمونہ کلام پیش خدمت ہے، غزل مماثل سے چند اشعار:

ہمارے پاس خوشی کا جواز ہی کم ہے

تمہارے پاس شکستہ دلی کا مرہم ہے

نہ کوئی طرفہ تعلق، نہ ربطِ باہم ہے

جو دکھ اسے نہیں لاحق ہمیں وہی غم ہے

جو شعر تم نے کیا قامت غزل میں شمار

اسی کے بطن میں پوشیدہ پہلوئے دم ہے

ایک اور غزل مماثل:

دکھ کی بے چینیوں کو سر کرنا

وحشت متن سے مفر کرنا

بے خودی میں کبھی سفر کرنا

خود کو خود ہی سے در بدر کرنا

ہار دینا یوں اپنے ہونے کو

 اپنے ہونے کو یوں بسر کرنا

 دیکھیے غزل کے اشعار اور معنویت کو برتا گیا ہے خیال کی چاشنی اور معنویت کا حسن ان کی شاعری کا خاصا ہے۔

ہم اپنے وہم سے کوئی گماں بتا نہ سکے

وہ بے دھیانی تھی، کوئی دھیان بنا نہ سکے

سنا تو یہ تھا کہ دل کا جہاں بھی ہوتا ہے

تھے ایسے دل بھی کہ اپنے جہان بنا نہ سکے

ہر ایک چیز بنا لیتی ہے جگہ اپنی

وہ لوگ بھی تھے کہ اپنا مکاں بنا نہ سکے

تھی آگ ایسی کہ جنگل پہ ہو گئی تھی محیط

پرندے وہ تھے کہ پھر آشیاں بنا نہ سکے

 جناب زیب اذکار حسین ایک ایسے قلم کار ہیں جو اپنی بصیرت و بصارت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہیں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دور اذکار افسانے‘‘ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز انوکھا ہے، اسی فکر کے نتیجے میں ان کے افسانے بھی نرالے ہیں، فن افسانہ نگاری میں زیب اذکار نے بہترین تجربات کیے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں۔

اگر تنقید کے بارے میں بات کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے نقاد کے طور پر سامنے آئے ہیں جو بہت سی صلاحیتوں کے مالک اور ادب کے ہر شعبے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور ان کی ایک خوبی یہ بھی کہ ان کی گفتگو میں توازن برقرار رہتا ہے اسی وجہ سے شرکا محفل کو سیکھنے کو ملتا ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا قلم کار ہوگا جو ان سے ناراض ہو، سچی بات ہے اچھا اخلاق ہی انسان کو بڑا بناتا ہے اور پھر اس کے کام جو اس نے محنت و لگن کے ساتھ انجام دیے ہیں۔ اب آتے ہیں زویا حسن کے افسانوی مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب‘‘ کی طرف۔

ان کے افسانے پڑھ کر میں یہ رائے قائم کر سکی ہوں کہ زویا حسن ایک ایسی افسانہ نگار ہیں جنھیں اپنے فن پر عبور حاصل ہے وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں نہایت سلیقے کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچاتی ہیں، ان کی فکر کے زاویے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ زویا کے افسانوں میں معاشرتی جبر و قہر کی تصویریں جداگانہ انداز میں نظر آتی ہیں، ان کے افسانوں میں مرد کے ظلم و ستم سہنے والی مظلوم عورتوں کا ذکر ہے جوکہ جسمانی تشدد اور مارپیٹ برداشت کرتی ہیں، مرد سے نجات کے لیے راہ فرار تلاش نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی محرومیوں سے بچنے کے لیے تخیل کی دنیا میں آباد ہو جاتی ہیں اور اس وقت تک زندگی کی خوشیاں کشید کرتی ہیں جب تک ان کی نظروں اور دل کا فریب سامنے نہیں آ جاتا۔

ایسی ہی حقیقت ’’کھڑکی میں اگا وجود‘‘ میں نظر آتی ہے۔ ایک اور افسانہ ’’آسمان پر آخری دستک‘‘ نے دلخراش واقعات کو افسانے کا پیکر عطا کیا ہے۔ ’’کلاؤن اسٹیج سے اتر آیا‘‘ یہ افسانہ بھی فکر کے در وا کرتا ہے اور مذہب انسانیت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جو بنی نوع انسان کی خدمت کو بلا ذات و نسل کی تفریق کو نمایاں کرنے کا سبب ہے۔

ان کے زیادہ تر افسانے جو میں نے پڑھے ہیں زندگی کی تلخیوں اور سچائیوں کے گرد گھومتے ہیں، ان کا اسلوب بیان اور انداز تحریر ان کی شناخت ہے۔’’ریگزار میں دریا‘‘ سینئر صحافی حامد علی سید کا پانچواں شعری مجموعہ ہے اس سے قبل ان کے چار شعری مجموعے نقاد و قارئین سے داد حاصل کر چکے ہیں میں خود بھی ان کی شاعری کی قاری رہی ہوں، حامد علی سید نے کل سے آج تک جتنا بھی کلام لکھا ہے وہ سب حالات زندگی، سماجی اور معاشرتی اقدار اور رویوں کا نچوڑ ہے، جسے انھوں نے فنی باریکیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تخلیقی سانچے میں ڈھالا ہے۔ کتاب کے بیک کور پر ان کا خوبصورت کلام درج ہے۔

کل بھی خوش گمانی تھی آج بھی فسانے ہیں

میری رائیگانی کے سلسلے پرانے ہیں

ساتھ لے کے چلنا ہے ریگزار میں دریا

اور اس خرابے میں پھول بھی کھلانے ہیں

یہ اشعار ان کی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں کہ انھوں نے حیات جہد مسلسل میں بسر کی ہے۔ حامد علی کو یاسیت اور ناکامی کے دکھ نے اپنے حصار میں لے لیا اور ناکام خواہشات کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:

ہوا سے دوستانہ چاہتے تھے

چراغوں کو جلانا چاہتے تھے

لہو رسنے لگا ہے انگلیوں سے

ترا پیکر بنانا چاہتے تھے

اپنی سوچ و فکر کی رونمائی اس طرح کی ہے کہ ان پر گزرنے والے غموں نے شعر و سخن میں اپنی جگہ بنالی ہے۔

میں وحشت میں اگر دھندلا رہا ہوں

تمہیں تو روشنی دکھلا رہا ہوں

تمنا سبز ہوتی جا رہی ہے

مگر میں دن بہ دن مرجھا رہا ہوں

256 صفحات پر مشتمل کتاب دیدہ زیب سرورق اور دلکش و بامعنی شاعری سے مرصع ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے افسانوں بنا نہ سکے حامد علی ہیں اور فکر کے

پڑھیں:

حیدرآباد میں نصب اپنے مجسمے کو دیکھ کر وسیم اکرم خاموش نہ رہ سکے، سوشل میڈیا پر کیا کہا؟

پاکستان کے لیجنڈری فاسٹ بولر اور سوئنگ کے سلطان کہلائے جانے والے وسیم اکرم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حال ہی میں نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں ان کا مجسمہ نصب کیا گیا۔ مجسمے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو صارفین کی جانب سے اس پر اظہار برہمی کیا گیا۔

کئی صارفین نے مجسمے کی شکل و شباہت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’ٹیمو‘ سے آڈر کیا گیا وسیم اکرم کا مجسمہ قرار دیا۔ کئی صارفین نے کہا کہ یہ مجسمہ شکل سے کسی صورت بھی وسیم اکرم جیسا نہیں لگتا تاہم اس میں وسیم اکرم کے بائیں ہاتھ کے بولنگ ایکشن کو کاپی کیا گیا ہے اور مجسمے کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا 1999 کے ورلڈ کپ کا لباس پہنایا گیا۔

 اس پر ردعمل دیتے ہوئے اب وسیم اکرم نے سوشل میڈیا پر اپنے مجسمے کے ساتھ ایک شیر کے مجسمے کی تصویر شیئر کی ہے اور ساتھ لکھا ہے کہ میرے نیاز اسٹیڈیم، حیدرآباد میں نصب ہونے والے مجسمے پر کافی بات ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’میرا مجسمہ تو یقینی طور پر شیر سے بہتر ہے‘۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ویسے اصل چیز تو خیال ہوتا ہے۔ اس کے تخلیق کاروں کو کریڈٹ جاتا ہے ان کی محنت کو مکمل نمبر ملنے چاہئیں۔ اور تمام شامل افراد کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔

Lots of talk about my sculpture being erected at Naiz stadium Hyderabad “Mine is definitely better than the tiger”, btw it’s the idea that matters credit to the creators & full marks for the effort and thanks to everyone involved… pic.twitter.com/Eb6aOmpWH5

— Wasim Akram (@wasimakramlive) June 12, 2025

 عبداللہ سلطان نے وسیم اکرم کی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسے لیجنڈز کو پرفیکٹ مجسموں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

Legends like Wasim don’t need perfect statues; they live forever in the hearts of their fans. https://t.co/X2wnc6VM7U

— ???????????????????????????????? ????????????????????????⁵⁶ (@Abdullahs_56) June 12, 2025

ذیشان بیگ نے وسیم اکرم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ دل جیتنا تو آپ کو آتا ہے۔

Waseem uncle Dil jeetna tu aap ko aata ha.

— Zeeshan BaiG (@MZA_BaiG) June 12, 2025

جبین رضوی لکھتی ہیں کہ یہ مجسمہ ظاہر کرتا ہے کہ وسیم اکرم کو صرف ایک بار ہی بنایا جا سکتا ہے۔ حمید خان نے کہا کہ کام کو بجٹ کے حساب سے ہی مکمل کیا گیا ہے۔ جبکہ ایک صارف کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم ہر چیز کو اچھی طرح کور کر لیتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹیمو وسیم اکرم وسیم اکرم مجسمہ

متعلقہ مضامین

  • نوح دستگیر بٹ کا عالمی اسٹرونگ مین ٹائٹل کا کامیاب دفاع، 2 گولڈ میڈلز اپنے نام کرلیے
  • ‘دعا کے پاپا’ نے سوشل میڈیا سے آمدنی کی حیران کُن تفصیلات بتادیں
  • گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، علی امین گنڈاپور
  • گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، گنڈاپور
  • شہرِ قائد میں الیکٹرانک بسوں کے 3 نئے روٹس کا اعلان
  • اسرائیل نے اپنی تلخ اور دردناک تقدیر کی بنیاد رکھ دی ہے، آیت اللہ خامنہ ای
  • بھارتی میڈیا بے نقاب
  • بھارت میں 250 مسافروں سے بھرا ائیر انڈیا کا طیارہ تباہ
  • حیدرآباد میں نصب اپنے مجسمے کو دیکھ کر وسیم اکرم خاموش نہ رہ سکے، سوشل میڈیا پر کیا کہا؟
  • ہانیہ عامر کے حج ادائیگی کے بعد سعودی عرب کے مختلف مقامات کے سیر سپاٹے، تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر