Express News:
2025-08-01@11:52:59 GMT

الیکٹرانک میڈیا پر شاعری اور افسانے

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

بہت دن سے یہ بازگشت سننے کو مل رہی ہے کہ سوشل میڈیا سے دلچسپی کے باعث اب علم و ادب اور شعر و سخن کے متوالے کم ہوتے جا رہے ہیں کچھ دانا و بینا نے تو اس بات کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ آیندہ بیس، پچیس برسوں میں پرنٹ میڈیا زوال کی حدوں کو چھونے لگے گا۔

کتابیں اور اخبارات و رسائل کی اشاعت محدود ہو جائے گی یا پھر بالکل ختم ہو جائے گی لیکن تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے آج بھی جونیئر و سینئر لکھاریوں کی کتب کی اشاعت باقاعدگی سے ہو رہی ہے، ہر موضوع پر کتابیں شایع ہوتی ہیں اور قاری اپنے ذوق و فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب خریدتا ہے۔

حال ہی میں حامد علی سید کا شعری مجموعہ ’’ریگزار میں دریا‘‘ اور زویا حسن کے افسانوں کا مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب ‘‘منظر عام پر آیا۔ کچھ تخلیقات نے پرنٹ میڈیا کی جگہ اپنا جلوہ دکھایا، اظہار کے ذرایع میں آج جدید کتاب کا نام ’’فیس بک‘‘ ہے گویا آپ کا چہرہ کھلی کتاب کی مانند ہے جہاں پر دل کی باتیں اور ذہانت و فطانت کے خزانے پائے جاتے ہیں۔

کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر قدغن ہو، اب بات یہ ہے کہ ہر باصلاحیت شخص اپنے مزاج اور فکر کے مطابق علم و ہنر کے دریا بہاتا ہے انھی فنکاروں میں ایک اہم ترین نام زیب اذکار حسین کا بھی جو صحافت و افسانہ نگاری اور شعر و سخن کے حوالے سے ممتاز بھی ہے اور معتبر بھی کافی طویل عرصے سے آپ شاعری کر رہے ہیں، غزلیات ان کی پسندیدہ صنف ہے ان کی غزلیں حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم پر تو سننے کو ملتی ہی ہیں جس کے وہ سیکریٹری ہیں، ہم انھیں فیس بک پر بھی پڑھتے ہیں ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ منفرد ہے لفظوں کا انتخاب قابل ستائش ہے نمونہ کلام پیش خدمت ہے، غزل مماثل سے چند اشعار:

ہمارے پاس خوشی کا جواز ہی کم ہے

تمہارے پاس شکستہ دلی کا مرہم ہے

نہ کوئی طرفہ تعلق، نہ ربطِ باہم ہے

جو دکھ اسے نہیں لاحق ہمیں وہی غم ہے

جو شعر تم نے کیا قامت غزل میں شمار

اسی کے بطن میں پوشیدہ پہلوئے دم ہے

ایک اور غزل مماثل:

دکھ کی بے چینیوں کو سر کرنا

وحشت متن سے مفر کرنا

بے خودی میں کبھی سفر کرنا

خود کو خود ہی سے در بدر کرنا

ہار دینا یوں اپنے ہونے کو

 اپنے ہونے کو یوں بسر کرنا

 دیکھیے غزل کے اشعار اور معنویت کو برتا گیا ہے خیال کی چاشنی اور معنویت کا حسن ان کی شاعری کا خاصا ہے۔

ہم اپنے وہم سے کوئی گماں بتا نہ سکے

وہ بے دھیانی تھی، کوئی دھیان بنا نہ سکے

سنا تو یہ تھا کہ دل کا جہاں بھی ہوتا ہے

تھے ایسے دل بھی کہ اپنے جہان بنا نہ سکے

ہر ایک چیز بنا لیتی ہے جگہ اپنی

وہ لوگ بھی تھے کہ اپنا مکاں بنا نہ سکے

تھی آگ ایسی کہ جنگل پہ ہو گئی تھی محیط

پرندے وہ تھے کہ پھر آشیاں بنا نہ سکے

 جناب زیب اذکار حسین ایک ایسے قلم کار ہیں جو اپنی بصیرت و بصارت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہیں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دور اذکار افسانے‘‘ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز انوکھا ہے، اسی فکر کے نتیجے میں ان کے افسانے بھی نرالے ہیں، فن افسانہ نگاری میں زیب اذکار نے بہترین تجربات کیے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں۔

اگر تنقید کے بارے میں بات کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے نقاد کے طور پر سامنے آئے ہیں جو بہت سی صلاحیتوں کے مالک اور ادب کے ہر شعبے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور ان کی ایک خوبی یہ بھی کہ ان کی گفتگو میں توازن برقرار رہتا ہے اسی وجہ سے شرکا محفل کو سیکھنے کو ملتا ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا قلم کار ہوگا جو ان سے ناراض ہو، سچی بات ہے اچھا اخلاق ہی انسان کو بڑا بناتا ہے اور پھر اس کے کام جو اس نے محنت و لگن کے ساتھ انجام دیے ہیں۔ اب آتے ہیں زویا حسن کے افسانوی مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب‘‘ کی طرف۔

ان کے افسانے پڑھ کر میں یہ رائے قائم کر سکی ہوں کہ زویا حسن ایک ایسی افسانہ نگار ہیں جنھیں اپنے فن پر عبور حاصل ہے وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں نہایت سلیقے کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچاتی ہیں، ان کی فکر کے زاویے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ زویا کے افسانوں میں معاشرتی جبر و قہر کی تصویریں جداگانہ انداز میں نظر آتی ہیں، ان کے افسانوں میں مرد کے ظلم و ستم سہنے والی مظلوم عورتوں کا ذکر ہے جوکہ جسمانی تشدد اور مارپیٹ برداشت کرتی ہیں، مرد سے نجات کے لیے راہ فرار تلاش نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی محرومیوں سے بچنے کے لیے تخیل کی دنیا میں آباد ہو جاتی ہیں اور اس وقت تک زندگی کی خوشیاں کشید کرتی ہیں جب تک ان کی نظروں اور دل کا فریب سامنے نہیں آ جاتا۔

ایسی ہی حقیقت ’’کھڑکی میں اگا وجود‘‘ میں نظر آتی ہے۔ ایک اور افسانہ ’’آسمان پر آخری دستک‘‘ نے دلخراش واقعات کو افسانے کا پیکر عطا کیا ہے۔ ’’کلاؤن اسٹیج سے اتر آیا‘‘ یہ افسانہ بھی فکر کے در وا کرتا ہے اور مذہب انسانیت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جو بنی نوع انسان کی خدمت کو بلا ذات و نسل کی تفریق کو نمایاں کرنے کا سبب ہے۔

ان کے زیادہ تر افسانے جو میں نے پڑھے ہیں زندگی کی تلخیوں اور سچائیوں کے گرد گھومتے ہیں، ان کا اسلوب بیان اور انداز تحریر ان کی شناخت ہے۔’’ریگزار میں دریا‘‘ سینئر صحافی حامد علی سید کا پانچواں شعری مجموعہ ہے اس سے قبل ان کے چار شعری مجموعے نقاد و قارئین سے داد حاصل کر چکے ہیں میں خود بھی ان کی شاعری کی قاری رہی ہوں، حامد علی سید نے کل سے آج تک جتنا بھی کلام لکھا ہے وہ سب حالات زندگی، سماجی اور معاشرتی اقدار اور رویوں کا نچوڑ ہے، جسے انھوں نے فنی باریکیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تخلیقی سانچے میں ڈھالا ہے۔ کتاب کے بیک کور پر ان کا خوبصورت کلام درج ہے۔

کل بھی خوش گمانی تھی آج بھی فسانے ہیں

میری رائیگانی کے سلسلے پرانے ہیں

ساتھ لے کے چلنا ہے ریگزار میں دریا

اور اس خرابے میں پھول بھی کھلانے ہیں

یہ اشعار ان کی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں کہ انھوں نے حیات جہد مسلسل میں بسر کی ہے۔ حامد علی کو یاسیت اور ناکامی کے دکھ نے اپنے حصار میں لے لیا اور ناکام خواہشات کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:

ہوا سے دوستانہ چاہتے تھے

چراغوں کو جلانا چاہتے تھے

لہو رسنے لگا ہے انگلیوں سے

ترا پیکر بنانا چاہتے تھے

اپنی سوچ و فکر کی رونمائی اس طرح کی ہے کہ ان پر گزرنے والے غموں نے شعر و سخن میں اپنی جگہ بنالی ہے۔

میں وحشت میں اگر دھندلا رہا ہوں

تمہیں تو روشنی دکھلا رہا ہوں

تمنا سبز ہوتی جا رہی ہے

مگر میں دن بہ دن مرجھا رہا ہوں

256 صفحات پر مشتمل کتاب دیدہ زیب سرورق اور دلکش و بامعنی شاعری سے مرصع ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے افسانوں بنا نہ سکے حامد علی ہیں اور فکر کے

پڑھیں:

’’ قسط ادا کرو اور اپنی بیوی کو ساتھ لے جاؤ‘‘

کانپور (نیوز ڈیسک)ریاست اترپردیش کے جھانسی ضلع کا ایک عجیب و غریب معاملہ سامنے آیا ہے، جھانسی کے رہنے والے رویندر ورما نامی نوجوان نے بینک سے 40,000 روپے کا قرض لیا تھا۔

انہوں نے 11 قسطیں ادا کیں لیکن بینک ریکارڈ میں صرف 8 قسطیں دکھائی گئیں۔

قسط ادا نہ کرنے پر بینک ملازمین وریندر ورما کے گھر پہنچے اور بیوی پوجا ورما کو لے گئے۔

رویندرا اور پوجا کے مطابق بینک ملازمین نے پوجا کو 5 گھنٹے تک بینک میں یرغمال بنایا۔

جب رویندر بینک پہنچا تو ملازمین نے کہا، “قسط ادا کرو اور اپنی بیوی کو لے جاؤ۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • ’’ قسط ادا کرو اور اپنی بیوی کو ساتھ لے جاؤ‘‘
  • عائزہ خان نے شوبز سے ریٹائرمنٹ کا پلان بتا دیا؛ مداح حیران رہ گئے
  • پولیس افسر کو اپنی شادی پر قیدیوں سے کام کرانا مہنگا پڑگیا
  • امریکی گلوکارہ کیساتھ کینیڈا کے سابق وزیراعظم کا معاشقہ؛ سچ کیا ہے؟
  • کومل میر کو کون اپنی بہو بنانا چاہتا ہے؟ یشما گل کا انکشاف
  • میڈیا اداروں کو ادائیگی اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں دینے سے مشروط ہوگی، پنجاب حکومت کا فیصلہ
  • کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
  • پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ہم سب کے سنجو بابا 66 سال کے ہوگئے