Express News:
2025-04-25@02:30:52 GMT

عام آدمی ریلیف سے محروم کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھتے ہوئے لیوی میں 10  روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اضافی لیوی سے 180 ارب روپے سالانہ حاصل ہوں گے، جو بجلی کی قیمت میں 1.50 روپے فی یونٹ کم کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔

 عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود حکومت نے عوام کو اس کا فائدہ نہیں دیا، بلکہ لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کردی ہے۔ حالانکہ پٹرول پر 15 روپے تک کمی کی گنجائش موجود تھی، تاہم لیوی میں اضافے کے باعث عوام کو براہ راست ریلیف نہیں مل سکا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھنے اور بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کرنے کے لیے حکومت ایک جامع پیکیج تیارکر رہی ہے، جس کا اعلان آیندہ چند ہفتوں میں کیا جائے گا۔

گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران میں پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا۔ پٹرولیم مصنوعات ، بجلی ، گیس اور کوئلے کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء کی مہنگائی نے عام آدمی کا جو حشر کیا، وہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف تھا۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عالمی معیشت کا زیادہ تر انحصار پٹرولیم مصنوعات اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی کے بیش بہا وسائل سے ہے، جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا، مگر ہماری معیشت کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ اسے عدم شفافیت کے باعث پیدا شدہ قیاس آرائیوں، الزامات اور تضادات کا سامنا ہے۔ ادھر ملک میں تشدد، لاقانونیت اور انتہا پسندی کے عفریت نے سیاسی و معاشی استحکام کے حصول کو اقتصادی صحرا کے طویل اور اعصاب شکن مسافت کا روپ دے دیا ہے۔

 سرکاری اور نجی شعبے کے معروف اسپتالوں کے ماہرین صحت کی طرف سے مرتب کی گئی مختلف ادویات کی فہرست اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ کئی گولیاں، شربت، انجکشن اور مرہم یا قطرے اب دستیاب نہیں ہیں۔ یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ مقامی مینوفیکچررز نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خام مال کی درآمد روک رکھی ہے۔

ادویہ ساز کمپنیوں پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام نہ ہونے کے باعث عام آدمی مہنگائی ادویات خریدنے پر مجبور ہے۔ جان بچانے والی ادویات اکثر دستیاب نہیں ہوتی، سرکاری اسپتال بھی مریض کے لیے دوران علاج جو ادویات تجویزکرتے ہیں، وہ مہنگے داموں بازار سے خریدنی پڑتی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی ادویات ہمیں مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کے مقابلے میں کئی گنا کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، لیکن انھیں درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی تو ایک طرف رہا، اپر اور مڈل کلاس کے گھرانے بھی اپنے بیمار عزیز واقارب کے علاج معالجے اور ادویات خریدنے کی سکت سے محروم ہوچکے ہیں۔ حکومت ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کے حل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

 مفت کا سرکاری پٹرول استعمال کرنے والے سرکاری افسروں کو کیا پتا کہ مسافر ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں کس طرح لٹ رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار بھی یہی افسرشاہی اور وزراء وغیرہ کے شاہانہ اخراجات ہیں ۔ مہنگائی اورکرایوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تناسب سے کمی کے بغیر عوام کو حقیقی ریلیف نہیں مل سکتا۔ دراصل ہم سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔

میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ حق دار ناامید ہوچکے ہیں، تعلق داروں کو کھلے عام عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ جب کہ ہم ہرگزرتے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ گنوا رہے ہیں، قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے؟ عام آدمی کی غربت دور کرنے کے لیے مفید، مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ خطِ افلاس کے نیچے بدترین حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اشرافیہ کی قربانی بھی بہت ضروری ہے۔ حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کی متحمل نہیں ہوتی، لہٰذا حکمرانوں کو پلاٹوں کی تقسیم، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا اور مراعات کی بندر بانٹ کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا اور اپنے اخراجات کو ملکی آمدنی کے مطابق رکھنا ہوگا۔

 کسی ایک شعبے پر وقتی طور پر توجہ دینا معاشی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ بیک وقت ان سب مسائل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، حکومت جو پیسہ فضول خرچیوں میں ضایع کردیتی ہے اسے ریاستی اداروں کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اس عمل کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ عوام مہنگائی کی جس چکی میں پس رہے ہیں اُس کے پیش نظر یہ پیسہ اُن پر لگانا زیادہ ضروری ہے لیکن اُس کے لیے وقتی ریلیف نہیں بلکہ مستقل ریلیف کو ترجیح دینا ہوگا۔ اس ضمن میں عوام کی توقعات بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سیاسی قیمت ضرور چکانا پڑے گی لیکن اب سیاست بچانے کے لیے ریاست کو مستقل خسارے کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔

عوام یہ چاہتے ہیں کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں جو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، وہ کم ہوں تاکہ انھیں ریلیف ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہوں اور ادویات مناسب نرخوں پر میسر ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقعے فراہم ہوں۔ انھیں نوکریاں ملیں اور وہ آسانی سے کاروبار کرنے کے قابل ہوں۔ عوام چاہتے ہیں کہ امن عامہ کے حالات بہتر ہوں تاکہ وہ چین سے زندگی بسر کر سکیں۔

 ادھر رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ایک ہفتے میں چینی مزید 20 روپے مہنگی ہوگئی، جس کے بعد اس کی قیمت 180 روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے۔

چینی کی ایکسپورٹ سے قبل شوگر ملز انڈسٹریز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ملکی کھپت کے لیے مقامی اسٹاک موجود ہے مگر اب چینی کی قیمت 180 روپے فی کلو ہوگئی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شوگر ملز نے چند مقامات پر اپنے اسٹالز لگا کر شناختی کارڈ پر ایک سو تیس روپے فی کلو چینی دینے کا اعلان کیا ہے، جو صرف اشک شوئی کے سوا کچھ نہ ہے۔

ہم کب تک ان سستے بازاروں اور سبسڈی کے چکر میں پھنسے رہیں گے۔ کیا ہماری بیوروکریسی کو عوام کو لائنوں میں کھڑا کرا کر اشیائے ضروریہ فروخت کرانے میں دلی تسکین حاصل ہو تی ہے؟ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ریوینو اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے بھی شہریوں کو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شہریوں کے ٹیکسوں پر پلنے والی بیورو کریسی ان شہریوں کے لیے سہولت کیوں نہیں پیدا کرتی۔

 اس مہنگائی نے نہ صرف شہریوں سے قوت خرید چھین لی ہے بلکہ ان کا جینا بھی دوبھر ہوچکا ہے اس پر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے ساتھ گرانی کو ساڑھے نو سال کی کم ترین سطح پر لانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جو کسی طور بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔

مہنگائی کو قابو کرنا خالصتاً ایڈمنسٹریشن کا معاملہ ہے جس میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ کا تدارک کیا جاتا ہے۔ یہ تمام معاملات گڈ گورننس میں آتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا میکانزم موجود ہی نہیں ہے۔ نہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو دیکھا جاتا ہے اور نہ گزشتہ ماہ کی قیمتوں کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامی صلاحیتوں کا ہونا بہت ضروری ہے، اگر حکومتی دعوؤں میں اقتصادی اشاریے بہتر ہونے کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پارہے تو اس بہتری کا کیا فائدہ۔ عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور حکومت اقتصادی اشاریے بہتر ہونے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول اور معاشی بہتری کے اعلانات کررہی ہے۔ معاشی اشاریے اگر بہتر بھی ہیں تو وہ غریب کا پیٹ بھرنے کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کم کرنے کے لیے غیرترقیاتی اخراجات کم پڑیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پٹرولیم مصنوعات کی چاہتے ہیں کہ کرنے کے لیے کی قیمتیں کی قیمتوں ضروری ہے کی قیمت رہے ہیں روپے فی کے ساتھ عوام کو چینی کی کیا جا رہا ہے

پڑھیں:

پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) پاکستان سے غیر ملکی باشندوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران ستمبر 2024ء سے لے کر اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھیجا جا چکا ہے۔ ان افغان شہریوں میں تقریباﹰ نصف تعداد خواتین اور مختلف عمر کی لڑکیوں کی تھی۔

اہم بات تاہم یہ ہے کہ انہی افغان باشندوں میں تقریباﹰ 40 ہزار ایسی کم عمر طالبات بھی شامل تھیں، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں، مگر اب ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد واپس اپنے وطن میں ان کے لیے طالبان حکومت کی سخت پالیسیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

ان ہزارہا افغان لڑکیوں کو ان کی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان سے ملک بدری کے سبب اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک ایسے وقت پر روکنا پڑا، جب ان کے امتحانات بھی شروع ہونے والے تھے۔

(جاری ہے)

خاص طور پر یکم اپریل سے شروع کی گئی بے دخلی مہم کے دوران ایسے زیادہ تر افغان شہریوں کو پاکستانی صوبوں پنجاب اور سندھ سےلا کر صوبے خیبر پختونخوا میں طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کے راستے واپس افغانستان بھیجا گیا۔

پنجاب اور سندھ سے افغان باشندوں کی بے دخلی

پنجاب اور سندھ میں رہائش پذیر افغان مہاجر خاندانوں کی زیادہ تر بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں۔ صوبے خیبر پختونخوا میں بے دخلی مہم کی سست روی کی وجہ سے تاحال صرف رضاکارانہ طور پر ہی کچھ افغان کنبے واپس گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کے مطابق پشاور سے واپس افغانستان جانے والی طالبات کی تعداد تقریباﹰ دو فیصد بنتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں جہاں ایک طرف افغان بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں، وہیں پر بعض افغان ماہرین نے اپنے تعلیمی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔

عالمی برادری افغان باشندوں کی دوبارہ آبادکاری کے عمل کو تیز رفتار بنائے، اسلام آباد کا مطالبہ

پشاور میں اسی نوعیت کے ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ، ڈاکٹر نور افغان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''خیبر پختونخوا میں 50 فیصد افغان بچیاں نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔

لیکن اب چونکہ نیا تعلیمی سیشن شروع ہو رہا ہے، تو ان طالبات کے والدین غیر یقینی صورتحال کے باعث اگلے تعلیمی سال کے لیے ان کے داخلے نہیں کروا رہے، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان بچیوں کی تعلیم کے لیے والدین بھاری فیسیں تو ادا کر دیں مگر پھر انہیں مجبوراﹰ پاکستان سے رخصت ہونا پڑ جائے۔‘‘ پاکستان میں ’پچاس فیصد افغان طالبات کے نئے تعلیمی داخلے نہ ہو سکے‘

ڈاکٹر نور افغان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے افغان باشندے اپنے اہل خانہ کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے سبب پاکستان میں رہتے ہیں، وہ سہولیات جو افغانستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ڈاکٹر نور افغان، جو خود بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اسکولوں میں داخلہ مہم کے دوران 50 فیصد افغان طالبات کے داخلے نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بدری کی موجودہ مہم سے افغان طالبات 100 فیصد متاثر ہوئی ہیں۔ ہزارہا لڑکیاں واپس افغانستان جا چکی ہیں، جبکہ جو ابھی تک پاکستان میں ہیں، وہ موجودہ غیر یقینی صورت حال کی بنا پر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔

مزید یہ کہ پاکستان میں مثلاﹰ نجی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم افغان لڑکیاں اگر اپنی مائیگریشن بھی کرا لیں، تو یہ امکان بہت کم ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

ڈاکٹڑ نور افغان کے بقول، '' پاکستانی پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم افغان طالبات بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔

ایسی لڑکیوں کے والدین یا کچھ اہل خانہ زیادہ تر یورپی ممالک یا امریکہ میں رہتے ہیں اور وہیں سے وہ انہیں ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقوم بھیجتے ہیں۔ ایسے بعض والدین تو بیرون پاکستان سے براہ راست ہی متعلقہ میڈیکل، انجینئرنگ یا آئی ٹی کالجوں میں ان بچیوں کی فیسیں جمع کرا دیتے ہیں۔‘‘ خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں افغان مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں

پشاور میں صوبائی حکومت نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ سے اس وقت خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کے اعداد و شمارکےمطابق صوبے کے پرائمری اور ہائی اسکولوں میں مجموعی طور پر تین لاکھ افغان طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام کالجوں میں بھی افغان طلبا و طالبات کے لیے دو دو نشستیں مختص کی تھیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کےمطابق اس وقت سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 760 نوجوان افغان شہری بطور طلبہ رجسٹرڈ ہیں۔ وفاقی حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے روانگی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل ہی پشاور حکومت سے صوبے میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا وطالبات کی مکمل تفصیلات طلب کر لی تھیں۔

خیبر پختونخوا کے تعلیمی محکمے کی پالیسی

پاکستان سے اب تک زیادہ تر افغان باشندوں کو پنجاب اور سندھ سے بے دخل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تاحال حکومتی پالیسی غیر واضح ہے۔ اس پس منظر میں صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پورے صوبے میں داخلہ مہم جاری ہے۔ لیکن ابھی تک ہمیں صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کے حوالے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔

افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم کے دوران صرف پشاور سے تقریباﹰ 200 طالبات واپس جا چکی ہیں، تاہم پورے صوبے کی سطح پر یہ ڈیٹا ابھی تک مکمل نہیں۔‘‘ افغان طالبات کی پریشانی میں اضافہ

پاکستان سے افغان شہریوں کی ملک بدری سے خواتین بالخصوص طالبات شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسی لڑکیاں ہیں، جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ایسی طالبات کے میل ملاپ والے سماجی حلقے بھی مقامی ہی ہیں۔

پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی افغان طالبہ مسکا احمدزئی (نام دانستہ طور پر فرضی لکھا جا رہا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری پیدائش پشاور ہی کی ہے۔ میں یہیں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی افغانستان نہیں گئی۔ نہ ہی جانے کا ارادہ تھا یا ہے۔ لیکن اب دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔

‘‘

پاکستان سے افغان باشندوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع

اس افغان طالبہ نے کہا، ''مجھے اپنے والدین کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے میں اپنی تعلیم کی قربانی دوں گی۔ اس لیے کہ جو کچھ میں خیبر پختونخوا میں پڑھ رہی ہوں، اس کا سلسلہ افغانستان میں جاری رکھنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔‘‘

مسکا احمدزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری ایک بہن میڈیکل کی طالبہ ہے، جو ابھی تھرڈ ایئر میں ہے۔

جب وہ افغانستان جائے گی، تو اپنی ڈگری وہاں بھلا کیسے مکمل کر سکے گی۔ ہم سب کو یہ پریشانی اس وقت سے لگی ہے، جب سے پاکستان نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بڑی عجیب اور بے یقینی کی صورت حال ہے اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ یہ چند ایک کا نہیں بلکہ لاکھوں افغان لڑکیوں اور بچیوں کا مسئلہ ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی حکومت سے ملک میں زیر تعلیم افغان طالبات کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ کہتے ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور ان طالبات کو ان کے اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

دوسری جانب افغان حکومت کے بعض حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں ایسے بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کابل میں طالبان حکومت کی پالیسی کے مطابق افغانستان میں بچیاں صرف چھٹی کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اس سے آگے ان کی تعلیم پر پابندی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ فیصل رحمان نے دلچسپ وجہ بتادی
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • خیبر پختونخوا مری کو 129 سال سے جاری مفت پانی کی فراہمی کیوں بند کرنے جا رہا ہے؟
  • 67 ہزار پاکستانی حج سے کیوں محروم رہیں گے؟ وجہ سامنے آگئی
  • پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
  • پولیس کو دھمکیاں دینے کا کیس؛ عالیہ حمزہ کو عدالت سے ریلیف مل گیا
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں، کہاں بھاگ کر جائیں گے: سپریم کورٹ
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں بھاگ کر کہاں جائیں گے، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ریمارکس
  • بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا صارفین کو بلوں میں اربوں روپے کاریلیف دینے کافیصلہ 
  • پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری