عام آدمی ریلیف سے محروم کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھتے ہوئے لیوی میں 10 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اضافی لیوی سے 180 ارب روپے سالانہ حاصل ہوں گے، جو بجلی کی قیمت میں 1.50 روپے فی یونٹ کم کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔
عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود حکومت نے عوام کو اس کا فائدہ نہیں دیا، بلکہ لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کردی ہے۔ حالانکہ پٹرول پر 15 روپے تک کمی کی گنجائش موجود تھی، تاہم لیوی میں اضافے کے باعث عوام کو براہ راست ریلیف نہیں مل سکا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھنے اور بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کرنے کے لیے حکومت ایک جامع پیکیج تیارکر رہی ہے، جس کا اعلان آیندہ چند ہفتوں میں کیا جائے گا۔
گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران میں پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا۔ پٹرولیم مصنوعات ، بجلی ، گیس اور کوئلے کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء کی مہنگائی نے عام آدمی کا جو حشر کیا، وہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف تھا۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عالمی معیشت کا زیادہ تر انحصار پٹرولیم مصنوعات اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی کے بیش بہا وسائل سے ہے، جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا، مگر ہماری معیشت کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ اسے عدم شفافیت کے باعث پیدا شدہ قیاس آرائیوں، الزامات اور تضادات کا سامنا ہے۔ ادھر ملک میں تشدد، لاقانونیت اور انتہا پسندی کے عفریت نے سیاسی و معاشی استحکام کے حصول کو اقتصادی صحرا کے طویل اور اعصاب شکن مسافت کا روپ دے دیا ہے۔
سرکاری اور نجی شعبے کے معروف اسپتالوں کے ماہرین صحت کی طرف سے مرتب کی گئی مختلف ادویات کی فہرست اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ کئی گولیاں، شربت، انجکشن اور مرہم یا قطرے اب دستیاب نہیں ہیں۔ یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ مقامی مینوفیکچررز نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خام مال کی درآمد روک رکھی ہے۔
ادویہ ساز کمپنیوں پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام نہ ہونے کے باعث عام آدمی مہنگائی ادویات خریدنے پر مجبور ہے۔ جان بچانے والی ادویات اکثر دستیاب نہیں ہوتی، سرکاری اسپتال بھی مریض کے لیے دوران علاج جو ادویات تجویزکرتے ہیں، وہ مہنگے داموں بازار سے خریدنی پڑتی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی ادویات ہمیں مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کے مقابلے میں کئی گنا کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، لیکن انھیں درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی تو ایک طرف رہا، اپر اور مڈل کلاس کے گھرانے بھی اپنے بیمار عزیز واقارب کے علاج معالجے اور ادویات خریدنے کی سکت سے محروم ہوچکے ہیں۔ حکومت ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کے حل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
مفت کا سرکاری پٹرول استعمال کرنے والے سرکاری افسروں کو کیا پتا کہ مسافر ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں کس طرح لٹ رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار بھی یہی افسرشاہی اور وزراء وغیرہ کے شاہانہ اخراجات ہیں ۔ مہنگائی اورکرایوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تناسب سے کمی کے بغیر عوام کو حقیقی ریلیف نہیں مل سکتا۔ دراصل ہم سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔
میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ حق دار ناامید ہوچکے ہیں، تعلق داروں کو کھلے عام عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ جب کہ ہم ہرگزرتے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ گنوا رہے ہیں، قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے؟ عام آدمی کی غربت دور کرنے کے لیے مفید، مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ خطِ افلاس کے نیچے بدترین حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اشرافیہ کی قربانی بھی بہت ضروری ہے۔ حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کی متحمل نہیں ہوتی، لہٰذا حکمرانوں کو پلاٹوں کی تقسیم، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا اور مراعات کی بندر بانٹ کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا اور اپنے اخراجات کو ملکی آمدنی کے مطابق رکھنا ہوگا۔
کسی ایک شعبے پر وقتی طور پر توجہ دینا معاشی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ بیک وقت ان سب مسائل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، حکومت جو پیسہ فضول خرچیوں میں ضایع کردیتی ہے اسے ریاستی اداروں کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اس عمل کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ عوام مہنگائی کی جس چکی میں پس رہے ہیں اُس کے پیش نظر یہ پیسہ اُن پر لگانا زیادہ ضروری ہے لیکن اُس کے لیے وقتی ریلیف نہیں بلکہ مستقل ریلیف کو ترجیح دینا ہوگا۔ اس ضمن میں عوام کی توقعات بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سیاسی قیمت ضرور چکانا پڑے گی لیکن اب سیاست بچانے کے لیے ریاست کو مستقل خسارے کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔
عوام یہ چاہتے ہیں کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں جو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، وہ کم ہوں تاکہ انھیں ریلیف ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہوں اور ادویات مناسب نرخوں پر میسر ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقعے فراہم ہوں۔ انھیں نوکریاں ملیں اور وہ آسانی سے کاروبار کرنے کے قابل ہوں۔ عوام چاہتے ہیں کہ امن عامہ کے حالات بہتر ہوں تاکہ وہ چین سے زندگی بسر کر سکیں۔
ادھر رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ایک ہفتے میں چینی مزید 20 روپے مہنگی ہوگئی، جس کے بعد اس کی قیمت 180 روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے۔
چینی کی ایکسپورٹ سے قبل شوگر ملز انڈسٹریز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ملکی کھپت کے لیے مقامی اسٹاک موجود ہے مگر اب چینی کی قیمت 180 روپے فی کلو ہوگئی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شوگر ملز نے چند مقامات پر اپنے اسٹالز لگا کر شناختی کارڈ پر ایک سو تیس روپے فی کلو چینی دینے کا اعلان کیا ہے، جو صرف اشک شوئی کے سوا کچھ نہ ہے۔
ہم کب تک ان سستے بازاروں اور سبسڈی کے چکر میں پھنسے رہیں گے۔ کیا ہماری بیوروکریسی کو عوام کو لائنوں میں کھڑا کرا کر اشیائے ضروریہ فروخت کرانے میں دلی تسکین حاصل ہو تی ہے؟ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ریوینو اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے بھی شہریوں کو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شہریوں کے ٹیکسوں پر پلنے والی بیورو کریسی ان شہریوں کے لیے سہولت کیوں نہیں پیدا کرتی۔
اس مہنگائی نے نہ صرف شہریوں سے قوت خرید چھین لی ہے بلکہ ان کا جینا بھی دوبھر ہوچکا ہے اس پر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے ساتھ گرانی کو ساڑھے نو سال کی کم ترین سطح پر لانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جو کسی طور بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
مہنگائی کو قابو کرنا خالصتاً ایڈمنسٹریشن کا معاملہ ہے جس میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ کا تدارک کیا جاتا ہے۔ یہ تمام معاملات گڈ گورننس میں آتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا میکانزم موجود ہی نہیں ہے۔ نہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو دیکھا جاتا ہے اور نہ گزشتہ ماہ کی قیمتوں کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامی صلاحیتوں کا ہونا بہت ضروری ہے، اگر حکومتی دعوؤں میں اقتصادی اشاریے بہتر ہونے کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پارہے تو اس بہتری کا کیا فائدہ۔ عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور حکومت اقتصادی اشاریے بہتر ہونے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول اور معاشی بہتری کے اعلانات کررہی ہے۔ معاشی اشاریے اگر بہتر بھی ہیں تو وہ غریب کا پیٹ بھرنے کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ ملک میں غربت اور مہنگائی کم کرنے کے لیے غیرترقیاتی اخراجات کم پڑیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پٹرولیم مصنوعات کی چاہتے ہیں کہ کرنے کے لیے کی قیمتیں کی قیمتوں ضروری ہے کی قیمت رہے ہیں روپے فی کے ساتھ عوام کو چینی کی کیا جا رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن