اداکار عامر خان اپنی نئی گرل فرینڈ گوری سے شادی کا ارادہ کیوں نہیں رکھتے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
بالی وڈ مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے حال ہی میں اپنی 60 ویں سالگرہ کے موقع نئی گرل فرینڈ گوری پریٹ سے تعلقات کا انکشاف کیا۔
اپنی سالگرہ پر منعقدہ ایک پارٹی میں عامر خان نے بتایا تھا کہ وہ ایک رومانوی تعلق میں ہیں۔عامر اور گوری کی ملاقات 25 سال پہلے ہوئی تھی، لیکن اپنی مصروف زندگیوں کے باعث ان کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ تاہم، 2 سال پہلے ان کی دوبارہ ملاقات ہوئی اور ان کا رشتہ آگے بڑھنے لگا۔
عامر خان نے گوری کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’میں کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ میں سکون محسوس کروں، جو مجھے سکون دے سکے۔ اور پھر گوری سامنے آ گئیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: 60 سال کی عمر میں رومانس کا اعلان، عامر خان کی نئی گرل فرینڈ کون ہے؟
جب عامر خان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے رشتہ کو عوامی سطح پر کیوں پیش کیا، تو عامر نے جواب دیا، ’ہم اب ساتھ ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایک دوسرے پر اتنا بھروسہ رکھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو بتا سکیں۔ اب میں اسے چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کل اگر میں گوری کے ساتھ کافی کے لیے جاؤں، تو آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ آ سکتے ہیں‘۔
عامر خان کی پہلی شادی فلم پروڈیوسر رینا دتہ اور دوسری شادی کرن راؤ سے ہوئی تھی، اور ان کے ان شادیوں سے3 بچے ہیں۔ جب ان سے گوری کے ساتھ شادی کے ارادے کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا، ’میری 2 شادیاں ہو چکی ہیں۔ لیکن اب 60 سال کی عمر میں شادی شاید مجھے زیب نہیں دیتی۔ لیکن دیکھتے ہیں‘۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق گوری بنگلور سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک 6 سالہ بچے کی ماں ہیں۔ ان کی لنکڈ ان پروفائلز کے مطابق، وہ 2007 سے ایک مشہور سیلون میں پارٹنر اور ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں اور انہوں نے یونیورسٹی آف آرٹس لندن سے فیشن، اسٹائلنگ اور فوٹوگرافی میں ڈگری حاصل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عامر خان نے شاہ رخ خان کا دیا ہوا لیپ ٹاپ برسوں تک کیوں نہ کھولا؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق عامر خان سے تعلق کے باوجود، گوری اپنی ذاتی زندگی کو ذاتی رکھنا پسند کرتی ہیں، اسی لیے عامر نے فوٹوگرافروں سے درخواست کی کہ وہ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر نہ کریں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، گوری نے عامر خان کی صرف 2 فلمیں دیکھی ہیں جس میں’دل چاہتا ہے‘ اور ’لگان‘ شامل ہیں۔ اس پر عامر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ گوری بنگلور میں پلی بڑھی ہیں جہاں ان کی توجہ مختلف قسم کے فنون سے تھی اور یہی وجہ ہے کہ گوری بالی وڈ کی فلمیں نہیں دیکھتیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بالی ووڈ عامر خان عامر خان شادی گوری خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بالی ووڈ گوری خان کے مطابق
پڑھیں:
بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس کہنے کو اور کچھ ہے نہیں، بس وہ سیاسی ڈائیلاگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ انھوں نیکراچی میں ساؤتھ ایشیا کے بدلتے حالات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہیں اور ہم نے مسلم لیگ (ن) اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بدل لیا تھا۔
شاہد خاقان اور ان کے والد خاقان عباسی شروع ہی سے مسلم لیگ (ن) میں رہے اور مری کے حلقے سے الیکشن بھی لڑتے رہے۔ ان کے والد مرحوم اپنے حلقے میں اپنا ووٹ بینک اس لیے بنانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ حلقے کی بہتری پر اپنا پیسہ خرچ کرتے تھے بلکہ جیب سے خرچہ کر کے مسئلہ حل کرا کر لوگوں کے پاس جاتے تھے ۔ شاہد خاقان کئی بار وفاقی وزیر بنے اور پھر وزیر اعظم بنے۔
ملک میں اس وقت صرف 5 وزرائے اعظم حیات ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ان میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں اور مسلسل ان سے مذاکرات چاہتے ہیں کہ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت نہیں دیتے اور انھی کے ذریعے رہائی بھی چاہتے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم کی اپنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی پارٹیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنی پارٹی سے وفاداری بھی نبھا رہے ہیں اور اقتدار میں بھی ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی واحد سابق وزیر اعظم ہیں جن کی اپنی نئی پارٹی بنانے کے باوجود کوئی سیاسی اہمیت نہیں اور پی ٹی آئی حکومت دور کے جھوٹے مقدمات بھی بھگت رہے ہیں۔
ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کی بات بھی وہی کررہے ہے جب کہ انھیں معلوم ہے کہ کسی حکومت اور سزا یافتہ قیدی کے درمیان ڈائیلاگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہوئے بھی تھے جو پی ٹی آئی نے اپنی شرائط پیش کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیے تھے جب کہ حکومت نے ان کے مطالبے طلب بھی کیے تھے مگر بانی کسی صورت مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہی نہیں تھے اور ان کا زور اب بھی بالاتروں سے سیاسی مذاکرات پر ہے مگر بالاتر غیر آئینی ڈائیلاگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
اسٹیبلشمنٹ واضع کر چکی ہے کہ سیاستدانوں کو سیاسی حکومت سے سیاسی مذاکرات کرنے چاہئیں۔ صدر مملکت آصف زرداری اور موجودہ وزیر اعظم بھی سیاسی قوتوں کے مابین سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی متعدد بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں مگر جیل میں بانی کی انا ختم ہونے میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہے بلکہ بضد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو مجھ سے مذاکرات کرلے میں صرف انھی سے بات کر سکتا ہوں جب کہ بالاتروں کی کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی ضرورت کہ وہ سزا یافتہ سے ڈائیلاگ کریں۔
شاہد خاقان عباسی سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں جس پر جیل والا فریق تیار ہی نہیں تو پھر بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ پر زور کیوں؟ جب کہ وہ خود اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ بانی کو ڈائیلاگ پر راضی کر سکیں ۔موجودہ حکومت جسے پی ٹی آئی جعلی اور بے اختیار قرار دیتی آ رہی ہے، اس نے سوا سال میں پی ٹی آئی سے متعدد بار ڈائیلاگ کی آفر دی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی کوشش سے مذاکرات کا دور ہوا بھی جو ادھورا چھوڑ کر پی ٹی آئی اپنے بانی کے کہنے پر چھوڑ گئی تھی۔
اب پھر پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف فیصلے کر سکتے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ماضی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے جو مذاکرات کرائے تھے ،وہ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کی رضامندی سے کرائے تھے مگر پی ٹی آئی نے وہاں حکومت کے طلب کرنے پر بھی شرائط پیش نہیں کی تھیں اور مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا تو اب یہ کہنا کہ ’’اگر شہباز شریف فیصلہ کر سکیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کے سزا یافتہ بانی کو رہا کرا دیں تو ہی ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملکی معاملات پر ہم کسی سے بھی مذاکرات کرسکتے ہیں۔
وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقتدار میں موجود جماعتوں کے ہاتھوں میں کچھ نہیں اور وزیر اعظم خود فیصلہ نہیں کر سکتے تو جس عدلیہ کے پاس فیصلے کا اختیار ہے تو اسی عدلیہ پر بانی کی رہائی کے لیے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ وہ لوگ جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید رکھتے ہیں، یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا معاملہ ہو یا دیگر اسیران کی رہائی، یہ کام عدلیہ ہی کر سکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے اور وہ فیصلہ بھی مانا جائے تو ممکن ہے کہ عدالتی فیصلہ سیاسی استحکام لے آئے ۔