ٹرمپ انتظامیہ کا بڑا فیصلہ: وائس آف امریکا میں بڑے پیمانے پر برطرفیاں شروع
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وائس آف امریکہ (VOA) اور دیگر امریکی فنڈڈ میڈیا اداروں میں بڑے پیمانے پر برطرفیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
اتوار کے روز سینکڑوں ملازمین کو ای میل کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ ان کی ملازمتیں 31 مارچ سے ختم کر دی جائیں گی۔
یہ برطرفیاں اس وقت سامنے آئیں جب ٹرمپ انتظامیہ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) کو شدید بجٹ کٹوتیوں کا نشانہ بنایا۔
یہ ادارہ وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو فری ایشیا، ریڈیو فردا اور الحرة جیسے نشریاتی اداروں کو چلاتا ہے، جو ایسے ممالک میں صحافتی خدمات فراہم کرتے ہیں جہاں آزاد میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں۔
ذرائع کے مطابق، زیادہ تر برطرف ملازمین VOA کی غیر انگریزی سروسز میں کام کر رہے تھے، جن میں کئی غیر امریکی شہری بھی شامل ہیں، جو اب ویزا مسائل کا سامنا کر سکتے ہیں۔
برطرفیوں کے بعد کئی نشریاتی سروسز معطل ہو چکی ہیں اور کچھ پر صرف موسیقی نشر کی جا رہی ہے، کیونکہ پروگرامنگ کے لیے عملہ دستیاب نہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق، یہ اقدامات امریکی حکومت کو چھوٹا اور مؤثر بنانے کی پالیسی کا حصہ ہیں، جس میں ٹیکس کٹوتیوں کے لیے سرکاری اخراجات کم کرنا شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ ٹیکس دہندگان کو مزید "بائیں بازو کے پروپیگنڈے" پر رقم خرچ نہیں کرنی پڑے گی، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام آزاد میڈیا پر حملے کے مترادف ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
واشنگٹن:امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان
ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔