اکثر فلموں یا ٹی وی ڈراموں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے ملزمان سے ایک کمرے میں تفتیش کی جا رہی ہوتی ہے اور ملحقہ کمرے میں افسران لگ بھگ تاریک کمرے میں اس کا مشاہدہ شیشے کے ذریعے کر رہے ہوتے ہیں۔

ان کمروں کے درمیان اس مقصد کے لیے ٹو وے مرر لگا ہوتا ہے جس کے ایک جانب تو ملزم کو صرف آئینہ نظر آتا ہے جس میں وہ اپنا اور کمرے موجود اشیا کا عکس دیکھتا ہے مگر دوسرے کمرے میں وہ ایک عام شیشہ ہوتا ہے جس کے آر پار دیکھنا ممکن ہوتا ہے اور دوسرے کمرے میں لوگوں کی موجودگی کا ملزم کو علم نہیں ہوتا۔

مگر آخر ایسا ممکن کیسے ہوتا ہے؟

روایتی آئینہ اور ٹو وے مرر یا دو طرفہ آئینہ
روایتی آئینے کو سلورنگ نامی طریقہ کار سے تیار کیا جاتا ہے جس کے دوران اس پر پہلے Tin اور پھر ریفلیکٹیو میٹریل (سلور یا ایلونیم)کی کوٹنگ شیشے کے پچھلے حصے میں کی جاتی ہے۔اس کے بعد کاپر کی ایک تہہ اور پینٹ کی 2 کوٹنگز کی جاتی ہیں جس سے ریفلیکٹیو کوٹنگ کو تحفظ ملتا ہے اور یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ آئینے پر پڑنے والی روشنی اسے دیکھنے والے فرد کی جانب منعکس ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ واش روم یا ڈریسنگ ٹیبل پر موجود آئینوں کے آر پار دیکھنا ناممکن ہوتا ہے۔اس کے مقابلے میں ٹو وے مرر کی تیاری کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔

اس طرح کے آئینے تیار کرنے کے لیے میٹل کی ایک پتلی تہہ کو گلاس کے فرنٹ والے حصے میں لگایا جاتا ہے، یہ تہہ اتنی پتلی ہوتی ہے کہ محض 50 فیصد روشنی اس میں واپس منعکس ہوتی ہے، جبکہ باقی روشنی آر پار ہو جاتی ہے۔تو اس آئینے کو درست طریقے سے کام کرنے کے لیے ایک جانب (مثال کے طور پر تفتیشی کمرے) میں بہت زیادہ روشنی کی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب (مشاہدے والے کمرے) میں تاریکی ہوتی ہے۔تفتیشی روم کی تیز روشنی آئینے کی سطح سے واپس منعکس ہوتی ہے اور وہاں موجود فرد کو صرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔

اس کے مقابلے میں دوسرے کمرے میں نہ ہونے کے برابر روشنی ہوتی ہے اور وہاں تفتتیشی کمرے کی ہی روشنی ہوتی ہے جس سے وہاں موجود افراد کو دوسرے کمرے کا مشاہدہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔اگر دونوں کمروں میں ایک جیسی روشنی یا تاریکی ہو تو پھر دونوں کمروں میں موجود افراد آسانی سے ایک دوسرے کو دیکھ پاتے ہیں۔ٹو وے مرر کو تفتیشی کمروں سے ہٹ کر سائنسی اور مارکیٹنگ تحقیق کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

تو کسی جگہ ٹو وے آئینے کو کیسے چیک کریں؟

تصور کریں آپ کسی تفتیشی کمرے میں نہیں بلکہ ہوٹل کے کمرے یا کسی اسٹور کے ڈریسنگ روم میں موجود ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ وہاں لگا آئینہ ٹو وے مرر ہے یا روایتی آئینہ تو کیا کریں گے؟اس کا ایک آسان حل ہے اپنی انگلی کے سرے یا کسی بھی چیز کے سرے کو شیشے کی سطح پر لگائیں۔

اگر آپ کو دونوں عکس کے درمیان فاصلہ نظر آرہا ہے تو وہ روایتی آئینہ ہے اور اگر فاصلہ نہیں ہے اور انگلیاں آپس میں جڑی نظر آرہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹو وے مرر ہے۔ٹو وے مرر کو شناخت کرنے کا ایک اور آسان حل یہ ہے کہ کمرے کی تمام روشنیوں کو بند کریں اور اپنے فون کی لائٹ ٹرن آن کرکے آئینے پر ڈالیں۔اگر وہ ٹو وے مرر ہوگا تو آپ اس کے آرپار دیکھ سکیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: روایتی ا ئینہ ہوتی ہے ہوتا ہے ا ہے جس ہے اور کے لیے

پڑھیں:

واچ ڈاگ کی جانب سے پاکستان کی پیٹرولیم انڈسٹری کو جاری کیا جانے والا ’وائٹ پیپر‘کیا ہے؟ اور اس کا کتنا اثر ہوتا ہے؟

عالمی ادارے ’ Fake News Watchdog ‘ نے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق ایک تفصیلی وائٹ پیپر جاری کیا ہے، جس میں حکومت پر شفافیت کی کمی اور ناقص پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

رپورٹ کی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا اور پاکستانی میڈیا میں اس پر بحث جاری ہے، اور کئی افراد اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر وائٹ پیپر ہوتا کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

وائٹ پیپر کیا ہوتا ہے؟

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق وائٹ پیپر ایک جامع اور تحقیقی دستاویز ہوتی ہے، جس میں کسی اہم مسئلے کا غیر جانب دار تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس کے حل کے لیے تجاویز دی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مخصوص وائٹ پیپر میں پیٹرولیم شعبے سے متعلق متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں شامل ہیں:

۔  پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا غیر شفاف تعین

۔ سبسڈی کا غلط استعمال

۔  ذخیرہ اندوزی

۔ درآمدی انحصار

وائٹ پیپر کی تاریخی اہمیت

ماہر معاشیات عابد سلہری کے مطابق ’ وائٹ پیپر ‘کی اصطلاح کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ سے ہوا، جب سرکاری رپورٹس سفید کاغذ پر شائع کی جاتی تھیں تاکہ وہ دوسری دستاویزات سے ممتاز رہیں۔

مثال کے طور پر 1922 کا ’ چرچل وائٹ پیپر ‘ برائے فلسطین، ایک اہم پالیسی دستاویز تھی جس کا مقصد عوام اور قانون سازوں کو معلومات فراہم کرنا تھا۔

وقت کے ساتھ، وائٹ پیپر صرف حکومتی سطح پر محدود نہ رہا بلکہ اب یہ کاروباری، تعلیمی اور ٹیکنالوجی سے متعلق شعبوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

وائٹ پیپر کا اثر:

عابد سلہری کے مطابق، کسی وائٹ پیپر کا اثر مکمل طور پر اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اسے کس نے تیار کیا ہے، اور کس مقصد کے تحت پیش کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رات کے اندھیرے میں پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا عوام کی جیبوں پر ڈاکا ہے، نواز شریف کی ویڈیو وائرل

کبھی ایک وائٹ پیپر ملکی پالیسی بدل دیتا ہے، اور کبھی فائلوں میں دفن ہو کر رہ جاتا ہے۔

وائٹ پیپر کے اہم نکات:

’ Fake News Watchdog ‘کی جانب سے جاری کردہ 38 صفحات پر مشتمل اس وائٹ پیپر میں کئی اہم انکشافات کیے گئے ہیں:

۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 69 ڈالر فی بیرل رہی، لیکن پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 272 روپے فی لیٹر تک مقرر کی گئی، جو عالمی رجحانات سے مطابقت نہیں رکھتی۔

۔ ہر لیٹر پیٹرول پر 103 روپے مختلف ٹیکسز اور لیوی کی مد میں وصول کیے گئے۔

۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال میں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1.02 کھرب روپے کا ریونیو حاصل کیا۔

حکومت پر تنقید:

وائٹ پیپر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فیصلہ خود کرتی ہے، جبکہ اوگرا (OGRA) محض ایک علامتی ادارہ بن چکا ہے۔

۔  قیمتوں کے تعین کا مکمل فارمولہ عوام سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔

۔ قیمتوں میں اضافے کا جواز عموماً عالمی منڈی یا آئی ایم ایف پروگرام کو بنایا جاتا ہے۔

۔  روپے کی قدر میں کمی اور کرنسی مینجمنٹ کی ناکامی بھی قیمتوں کے اضافے کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔

سفارشات:

وائٹ پیپر میں حکومت کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی گئی ہیں:

۔  پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اختیار ایک خود مختار اور شفاف ادارے کو دیا جائے۔

۔ اوگرا کو مکمل خود مختاری کے ساتھ فیصلے کرنے کی اجازت دی جائے۔

۔  عوام کے لیے قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار واضح کیا جائے۔

۔ ہر قیمت کے پیچھے موجود اجزاء کی تفصیلات شائع کی جائیں تاکہ عوام اصل قیمت اور ٹیکسز میں فرق جان سکیں۔

عالمی مثالیں: کہاں وائٹ پیپر نے پالیسی بدلی؟ برطانیہ:

1981 میں جاری کردہ ٹیلی کمیونیکیشنز وائٹ پیپر نے British Telecom (BT) کی نجکاری کی بنیاد رکھی۔ اس اقدام سے مقابلہ بڑھا، خدمات کا معیار بہتر ہوا اور صنعت میں انقلابی تبدیلی آئی۔

چین:

’ Made in China 2025 ‘ایک صنعتی وائٹ پیپر تھا، جس میں چین نے کم اجرت والے کام سے ہٹ کر ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کی جانب رخ کیا۔

اس پالیسی سے چین نے ٹیکنالوجی میں خود کفالت حاصل کی اور عالمی منڈی میں مقام بنایا۔

سنگاپور:

2013 میں سنگاپور نے ’ A Sustainable Population for a Dynamic Singapore ‘ کے عنوان سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا، جس کے بعد امیگریشن پالیسی میں تبدیلیاں آئیں، ورک فورس کی قلت کم ہوئی اور معیشت کو سہارا ملا۔

بھارت:

بھارت کی ’ National Education Policy 2020 ‘ ایک وائٹ پیپر کی بنیاد پر تیار کی گئی اصلاحاتی پالیسی ہے، جس نے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ اس کا مقصد تعلیم کو عملی، ہنرمند اور روزگار سے جوڑنا ہے، جس پر ابھی کام جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Fake News Watchdog برطانیہ بھارت چین پیٹرول چین راجہ کامران سنگاپور عابد سلہری عوام

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، اسحاق ڈار
  • سیز فائر نہ کراتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہوتی،ٹرمپ
  • سیز فائر نہ کراتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہوتی، ٹرمپ
  • سیز فائر نہ کراتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہوتی؛ ٹرمپ
  • ہم پاکستان کو فارما، لیدر، پلاسٹک، کیمیکلز، چائے برآمد کرسکتے ہیں، بنگلہ دیشی ڈپٹی ہائی کمشنر
  • کیا آپ جانتے ہیں پرانے ٹی وی میں رنگ برنگی لکیریں کیوں آتی تھیں؟
  • واچ ڈاگ کی جانب سے پاکستان کی پیٹرولیم انڈسٹری کو جاری کیا جانے والا ’وائٹ پیپر‘کیا ہے؟ اور اس کا کتنا اثر ہوتا ہے؟
  • اربعین زائرین پر حکومتی وار، نامنظور
  • گائے، بکرے یا گدھے کا گوشت؟ پہچان کیسے کریں؟
  • انسانی دماغ کے ایک حیرت انگیز راز کا انکشاف