کسی جگہ روایتی آئینہ لگا ہے یا دو طرفہ آئینہ ؟ شناخت کیسے کریں ؟ جانیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اکثر فلموں یا ٹی وی ڈراموں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے ملزمان سے ایک کمرے میں تفتیش کی جا رہی ہوتی ہے اور ملحقہ کمرے میں افسران لگ بھگ تاریک کمرے میں اس کا مشاہدہ شیشے کے ذریعے کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کمروں کے درمیان اس مقصد کے لیے ٹو وے مرر لگا ہوتا ہے جس کے ایک جانب تو ملزم کو صرف آئینہ نظر آتا ہے جس میں وہ اپنا اور کمرے موجود اشیا کا عکس دیکھتا ہے مگر دوسرے کمرے میں وہ ایک عام شیشہ ہوتا ہے جس کے آر پار دیکھنا ممکن ہوتا ہے اور دوسرے کمرے میں لوگوں کی موجودگی کا ملزم کو علم نہیں ہوتا۔
مگر آخر ایسا ممکن کیسے ہوتا ہے؟
روایتی آئینہ اور ٹو وے مرر یا دو طرفہ آئینہ
روایتی آئینے کو سلورنگ نامی طریقہ کار سے تیار کیا جاتا ہے جس کے دوران اس پر پہلے Tin اور پھر ریفلیکٹیو میٹریل (سلور یا ایلونیم)کی کوٹنگ شیشے کے پچھلے حصے میں کی جاتی ہے۔اس کے بعد کاپر کی ایک تہہ اور پینٹ کی 2 کوٹنگز کی جاتی ہیں جس سے ریفلیکٹیو کوٹنگ کو تحفظ ملتا ہے اور یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ آئینے پر پڑنے والی روشنی اسے دیکھنے والے فرد کی جانب منعکس ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ واش روم یا ڈریسنگ ٹیبل پر موجود آئینوں کے آر پار دیکھنا ناممکن ہوتا ہے۔اس کے مقابلے میں ٹو وے مرر کی تیاری کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔
اس طرح کے آئینے تیار کرنے کے لیے میٹل کی ایک پتلی تہہ کو گلاس کے فرنٹ والے حصے میں لگایا جاتا ہے، یہ تہہ اتنی پتلی ہوتی ہے کہ محض 50 فیصد روشنی اس میں واپس منعکس ہوتی ہے، جبکہ باقی روشنی آر پار ہو جاتی ہے۔تو اس آئینے کو درست طریقے سے کام کرنے کے لیے ایک جانب (مثال کے طور پر تفتیشی کمرے) میں بہت زیادہ روشنی کی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب (مشاہدے والے کمرے) میں تاریکی ہوتی ہے۔تفتیشی روم کی تیز روشنی آئینے کی سطح سے واپس منعکس ہوتی ہے اور وہاں موجود فرد کو صرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔
اس کے مقابلے میں دوسرے کمرے میں نہ ہونے کے برابر روشنی ہوتی ہے اور وہاں تفتتیشی کمرے کی ہی روشنی ہوتی ہے جس سے وہاں موجود افراد کو دوسرے کمرے کا مشاہدہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔اگر دونوں کمروں میں ایک جیسی روشنی یا تاریکی ہو تو پھر دونوں کمروں میں موجود افراد آسانی سے ایک دوسرے کو دیکھ پاتے ہیں۔ٹو وے مرر کو تفتیشی کمروں سے ہٹ کر سائنسی اور مارکیٹنگ تحقیق کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تو کسی جگہ ٹو وے آئینے کو کیسے چیک کریں؟
تصور کریں آپ کسی تفتیشی کمرے میں نہیں بلکہ ہوٹل کے کمرے یا کسی اسٹور کے ڈریسنگ روم میں موجود ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ وہاں لگا آئینہ ٹو وے مرر ہے یا روایتی آئینہ تو کیا کریں گے؟اس کا ایک آسان حل ہے اپنی انگلی کے سرے یا کسی بھی چیز کے سرے کو شیشے کی سطح پر لگائیں۔
اگر آپ کو دونوں عکس کے درمیان فاصلہ نظر آرہا ہے تو وہ روایتی آئینہ ہے اور اگر فاصلہ نہیں ہے اور انگلیاں آپس میں جڑی نظر آرہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹو وے مرر ہے۔ٹو وے مرر کو شناخت کرنے کا ایک اور آسان حل یہ ہے کہ کمرے کی تمام روشنیوں کو بند کریں اور اپنے فون کی لائٹ ٹرن آن کرکے آئینے پر ڈالیں۔اگر وہ ٹو وے مرر ہوگا تو آپ اس کے آرپار دیکھ سکیں گے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: روایتی ا ئینہ ہوتی ہے ہوتا ہے ا ہے جس ہے اور کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(رپورٹ:حماد حسین)سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے، صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر اور ڈاکٹر رخشندہ منیر نے جسارت کے سوال پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟کے جواب میں کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ ایک بہت اہم اور حساس سوال ہے۔ پاکستان سرکاری سطح پر اکثر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے، خصوصاً کشمیر کے حوالے سے۔ ہر سال اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی جانب سے بیانات دیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات او آئی سی میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔تاہم، کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی آواز اکثر کمزور یا غیر مؤثر ہوتی ہے، یا پھر صرف سیاسی مفادات کے تحت بلند کی جاتی ہے۔ اس کی چند ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں.سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے۔پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمرکاکہنا تھا کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں رہتے ہوںوہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔بھارت ہو افغانستان یا کوئی اور ملک جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے پاکستان ا س کے لیے آواز اٹھاتا ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کہتا ہے کہ ہمارا جبکہ ہم کہتے وہ مقبوضہ ہے وہاں جو بھی کچھ ہورہاہے وہ کون کررہا ہے وہ بھارتی پولیس اور انڈین آرمی کررہی ہے،پاکستا ن مستقل اس کے خلا ف آواز اٹھاتا ہے.بھارت آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بڑا ملک ہے اور اس کے دیگر اسلامی ممالک سے بھی بڑے اچھے تعلقات ہیں،جبکہ امریکا،برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں اس کی اکانومی چھائی ہوئی ہے اسی لئے بھارت کے اکنامی ریلیشن پاکستان کے مقابلے میں زیادہ اچھے ہیں۔پاکستان میں مختلف حکومتی آتی ہیں جو اپنا اپنا ایجنڈا لے کر آتی ہیں۔اسی لیے پاکستان معاشی سطح پر دباؤ کا شکار ہے،پے در پے حکومتوں غیر ضروری طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے ہماری حکومت بہت سے چیزوں میں الجھ جاتی ہے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہاںکی حکومت نہیں پاکستان بننے کے بعد انہیں وہ قوت حاصل نہیں ہوئی جو کہ ہونا چاہیے جبکہ بھارت کئی مذہبی عناصربڑی تعداد میں موجود ہیںجو پاکستا ن کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔پاکستان تو اپنے ہی مسائل میں گھرا ہواہے۔مگر پھر بھی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔کلمہ کی بنیاد پر جہاںمسلمانو ں پر جبری تسلط قائم کیا جائے تو بحیثیت مسلمان ہم پاکستانیوں کو تکلیف تو ہوتی ہے ،شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہر تعلیم ڈاکٹر رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 1971ء سے پہلے Double Country کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1000 میل (1600 کلو میٹر) کا فاصلہ تھا۔ پاکستان کے دو حصوں کے بیچ میں بھارت کے کچھ علاقے موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ہمیشہ تناؤ برقرار رہا۔ اگر ہم دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنازعات دیکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے 78 سال کے عرصے میں چار بڑی جنگیں لڑیں۔1948، 1947 اور 1965 کشمیر کے معاملے پر 1947-48 میں بھارت کشمیر کا ایک حصہ پاکستان سے لینے میں کامیاب ہوا۔ 1970-71 میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل پذیر ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 1999ء میں بھارت اور پاکستان پھر آمنے سامنے آئے۔ اس بار کارگل نشانہ بنا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھارت نے کارگل پر قبضہ کیا۔ جس پر پہلے ہی پاک فوج قبضہ حاصل کرچکی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی موقعوں پر اختلافات پیدا ہوئے۔ ان سب اختلافات کے باوجود پاکستان نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری عوام کو جب سیکورٹی کونسل نے جنوری 1949ء میں حق خودارادیت دیا تو پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور دیگر کئی حکمرانوں نے کشمیر میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کوئی جارحانہ قدم اُٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ سب سے پہلے تو پاکستان کے اندرون حالات بہت نازک ہیں، ہر صوبہ ایک الگ کشمکش کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ہم معاشی بحران کا شکار ہیں، پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لیتا آرہا ہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے پاکستان اپنی معاشی کمزوری کو نظر انداز کرکے کوئی بڑا قدم اُٹھائے بھی تو تب اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ باقی مسلمان ممالک بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔