ایمیزون کی خواتین جنگجوؤں کی 3 نسلیں روس کے ایک قدیم مقبرے سے برآمد
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
روس میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایک ہی مقبرے میں دفن مختلف عمر کی 4 ایمیزون خواتین کی باقیات دریافت کی ہیں۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کی دریافت کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایمیزون جنگل سے 18 دن بعد زندہ مل جانے والے بچے: کیا نیٹ فلیکس کو لکھاری کی ضرورت ہے؟
روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی کی جانب سے شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ایک لڑکی کی موت کے وقت اس کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان تھی۔ دوسری کی 20 سے 29 سال، تیسری کی 25 سے 35 سال اور چوتھی کی عمر 45 سے 50 سال تھی۔ مقبرہ مٹی اور اوک کے بلاکس سے تعمیر کیا گیا تھا۔
تدفین کے مقام سے ملنے والی اشیا میں لوہے کے تیر، لوہے سے بنی پرندوں کی شکل کا ہک، گھوڑوں کے ہارنس، لوہے کے چاقو، جانوروں کی ہڈیاں، مختلف برتن اور ٹوٹا ہوا ایک ٹوٹا ہوا ہک، گھوڑوں کے ہارنس، لوہے کے چاقو، جانوروں کی ہڈیاں، مختلف برتن اور ایک ٹوٹا ہوا، سیاہ گلدان شامل ہیں۔ یہ سب محققین کو چوتھی صدی قبل مسیح میں تدفین کا اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہیں۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ جنگجو خواتین سیتھیائی تھیں، جو 200 اور 900 قبل مسیح کے درمیان سائبیریا بھر میں رہنے والے قدیم جنگجو تھے ۔
زیادہ جادوئی عناصر ، یقینا ، ابھی تک دریافت نہیں ہوئے ہیں۔
یہ حیرت انگیز دریافت روس کے علاقے ورونز کے ایک قبرستان میں ہوئی جسے ڈیوٹسا پنجم کہا جاتا ہے۔ یہ مقام 19 قبرستانوں پر مشتمل ہے اور 2010 سے اس کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، آر اے ایس کی ڈان آرکیالوجیکل سوسائٹی کو ان مخصوص باقیات کی کھدائی کرنے میں پوری دہائی لگ گئی۔
مزید پڑھیے: سائنسدانوں نے 27 کے قریب جنگلی اور آبی حیات کی نئی اقسام دریافت کر لیں
ان کا کہنا تھا کہ ایمازون ایک عام سیتھیائی رجحان ہے اور گزشتہ دہائی کے دوران ہماری مہم کے دوران نوجوان مسلح خواتین کی تقریبا ً 11 تدفین دریافت ہوئی ہیں۔
ایک نوجوان عورت کو گھڑ سوار کے طور پر دفن کیا گیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے جسم کو ایک پیچیدہ روایت سے گزرنا پڑا جس میں ٹانگوں میں ٹینڈن کاٹنا بھی شامل تھا۔
اس کے بائیں کندھے کے نیچے کانسی کا آئینہ، 2 نیزے اور اس کے بائیں طرف اور ہاتھ کے ساتھ شیشے کی موتی کا بریسلیٹ تھا۔ اس کی ٹانگوں پر ایک مسلح پینے کا پیالہ اور کالے لاکھ کے ڈیزائن سے سجی ہوئی ڈش رکھی ہوئی تھی۔
سیتھیئن خاتون کی اوسط عمر 30 سے 35 سال کے درمیان تھی جس کی وجہ سے موت کے وقت معمر ترین خاتون کی عمر کافی متاثر کن تھی۔ تاہم پھولوں کی زینت والی پلیٹوں اور پینڈنٹس سے سجا ہوا کالاتھو یا رسمی لباس بھی اتنا ہی حیران کن تھا۔ جس زیورات کے ساتھ اسے دفن کیا گیا تھا وہ 65 سے 70 فیصد سونا تھا، جس میں تانبا، چاندی اور لوہا شامل تھے۔ اسے ایک لوہے کے چاقو کے ساتھ بھی دفن کیا گیا تھا جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اور ایک لوہے کا تیر جس کے سرے پر کانٹا لگا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: دنیا کی 10 امیر ترین خواتین اربوں ڈالر دولت کی مالک کیسے بنیں؟
سائبیریا کے وسط میں پائی جانے والی دلچسپ قدیم اشیا کے علاوہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے کسی نے ایمیزون کو اسی قبر میں دفن نہیں پایا تھا۔ یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ محققین دیوٹسا پنجم کے بقیہ ٹیلوں میں کیا پائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایمیزون جنگجو خواتین جنگجو خواتین کی باقیات روسی اکیڈمی آف سائنسز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایمیزون جنگجو خواتین جنگجو خواتین کی باقیات روسی اکیڈمی آف سائنسز کیا گیا تھا
پڑھیں:
مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔
گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔
اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔
سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تنخواہوں کی حدڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔
بنیادی سطح پر تبدیلیگلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔
‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیںڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘
خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتیجسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔
خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازیخواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔
یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔ادارت: عدنان اسحاق