کیا سمندری چٹانیں خود آکسیجن بنا سکتی ہیں؟ گہرے سمندر میں حیران کن دریافت
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
گہرے سمندر میں دھاتوں سے بھرپور چٹانوں کے بارے میں ایک حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے کہ یہ سورج کی روشنی کے بغیر آکسیجن پیدا کر سکتی ہیں۔ تاہم، سائنسدانوں کے درمیان اس دعوے پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔
گزشتہ جولائی میں نیچر جیو سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، سمندری فرش پر پائی جانے والی پولی میٹالک نوڈلز نامی چٹانیں اتنی برقی توانائی پیدا کر سکتی ہیں کہ وہ پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کر سکیں، جسے الیکٹرولیسس کا عمل کہا جاتا ہے۔
اگر یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ اس نظریے کو چیلنج کرتا ہے کہ زمین پر زندگی صرف سورج کی روشنی اور فوٹوسنتھیس کے ذریعے ممکن ہوئی تھی۔
یہ تحقیق خاص طور پر میکسیکو اور ہوائی کے درمیان کلیرین-کلپپرٹن زون میں کی گئی، جو کہ گہرے سمندر میں ایک وسیع علاقہ ہے۔
یہاں نکل، مینگنیز اور کوبالٹ جیسی قیمتی دھاتوں کی موجودگی نے مائننگ کمپنیوں کی دلچسپی بڑھا دی ہے، کیونکہ یہ دھاتیں الیکٹرک گاڑیوں اور کم کاربن ٹیکنالوجیز میں استعمال ہوتی ہیں۔
ماحولیاتی تنظیم گرین پیس نے اس دریافت کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گہرے سمندری ماحولیاتی نظام کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم ہونا باقی ہے۔ تنظیم نے بحرالکاہل میں گہرے سمندر کی کان کنی پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ نایاب سمندری حیات کو نقصان نہ پہنچے۔
یہ تحقیق جہاں زندگی کی ابتدا کے حوالے سے نئے سوالات اٹھا رہی ہے، وہیں گہرے سمندر کے وسائل پر انسانی دسترس اور ماحولیاتی خدشات کو بھی اجاگر کر رہی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گہرے سمندر
پڑھیں:
پاکستانی ماہرین نے سالانہ 200 انڈے دینے والی مرغی تیار کرلی
فیصل آباد(نیوز ڈیسک)پاکستانی ماہرین نے پولٹری فارمنگ کے شعبے میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیہی علاقوں کے لیے موزوں نئی مرغی کی نسل متعارف کروا دی ہے، جو سال بھر میں 200 سے زائد انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین نے اس منفرد بریڈ کو ’’یونی گولڈ‘‘ کا نام دیا ہے، جو کم فیڈ پر پلتی ہے اور شدید موسم، خاص طور پر گرمی کو بخوبی برداشت کر سکتی ہے۔
نئی نسل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ عام دیسی مرغی کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ انڈے دیتی ہے، جبکہ خوراک کی طلب نسبتاً کم ہے، جو اسے چھوٹے کسانوں کے لیے ایک بہترین انتخاب بناتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یونی گولڈ بریڈ دیہی علاقوں میں پولٹری انڈسٹری کے فروغ کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے انڈوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ گوشت کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں گزشتہ 6 دہائیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے، جو ملکی زرعی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس نسل کو ملک بھر کے کسانوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر دیسی پولٹری کی پیداوار میں اضافہ ہو اور دیہی معیشت کو فروغ ملے۔
یہ مرغی نہ صرف ماحول کے لحاظ سے ہم آہنگ ہے بلکہ دیہی خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، کیونکہ اس کی دیکھ بھال آسان اور کم لاگت ہے۔
Post Views: 1