گہرے سمندر میں دھاتوں سے بھرپور چٹانوں کے بارے میں ایک حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے کہ یہ سورج کی روشنی کے بغیر آکسیجن پیدا کر سکتی ہیں۔ تاہم، سائنسدانوں کے درمیان اس دعوے پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔

گزشتہ جولائی میں نیچر جیو سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، سمندری فرش پر پائی جانے والی پولی میٹالک نوڈلز نامی چٹانیں اتنی برقی توانائی پیدا کر سکتی ہیں کہ وہ پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کر سکیں، جسے الیکٹرولیسس کا عمل کہا جاتا ہے۔ 

اگر یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ اس نظریے کو چیلنج کرتا ہے کہ زمین پر زندگی صرف سورج کی روشنی اور فوٹوسنتھیس کے ذریعے ممکن ہوئی تھی۔

یہ تحقیق خاص طور پر میکسیکو اور ہوائی کے درمیان کلیرین-کلپپرٹن زون میں کی گئی، جو کہ گہرے سمندر میں ایک وسیع علاقہ ہے۔ 

یہاں نکل، مینگنیز اور کوبالٹ جیسی قیمتی دھاتوں کی موجودگی نے مائننگ کمپنیوں کی دلچسپی بڑھا دی ہے، کیونکہ یہ دھاتیں الیکٹرک گاڑیوں اور کم کاربن ٹیکنالوجیز میں استعمال ہوتی ہیں۔

ماحولیاتی تنظیم گرین پیس نے اس دریافت کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گہرے سمندری ماحولیاتی نظام کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم ہونا باقی ہے۔ تنظیم نے بحرالکاہل میں گہرے سمندر کی کان کنی پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ نایاب سمندری حیات کو نقصان نہ پہنچے۔

یہ تحقیق جہاں زندگی کی ابتدا کے حوالے سے نئے سوالات اٹھا رہی ہے، وہیں گہرے سمندر کے وسائل پر انسانی دسترس اور ماحولیاتی خدشات کو بھی اجاگر کر رہی ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گہرے سمندر

پڑھیں:

پختونخوا‘ سوات سے ٹیکسلا تک مزید 8 تاریخی مقامات دریافت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251104-01-11

 

پشاور(مانیٹر نگ ڈ یسک ) خیبر پختونخوا میں آثار قدیمہ کی تلاش کے دوران سوات سے ٹیکسلا تک مزید 8 تاریخی مقامات دریافت کیے گئے ہیں تفصیلات کے مطابق بریکوٹ میں 1200 سال پرانے چھوٹے مندر کے آثار بھی سامنے آئے ہیں، جو اس خطے کی تہذیبی تسلسل کا نایاب ثبوت ہیں۔ اطالوی ماہرین نے صوبائی محکمہ آثارقدیمہ کے اشتراک سے یہ دریافتیں کی ہیں اورمزید کھدائی جاری ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ علاقے قدیم ترین ادوار سے لے کر مسلم دور تک آباد رہے ہیں اور ان مقامات میں غزنوی دور کا ایک قلعہ بھی شامل ہے۔اطالوی آرکیالوجیکل مشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوکا کے مطابق بریکوٹ بازیرہ میں کھدائی کے دوران چھوٹے مندر کے آثار دریافت ہوئے ہیں جبکہ موجودہ کھدائی کے دوران مندر کے اردگرد دریائے سوات کی سمت ایک وسیع محافظ علاقہ (بفر زون) قائم کرنے کے لیے کھدائی کا دائرہ بڑھایا گیا۔اس 3 سالہ منصوبے کے تحت 400 سے زائد مقامی افراد کو روزگار فراہم کیا جائے گا اور انہیں آثار کی تلاش، کھدائی اور ان کے محفوظ رکھنے کی تربیت دی جائے گی۔یہ منصوبہ خیبر پاتھ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یکم جون 2025ء کو شروع ہوا تھا، جس کا مقصد علاقے کی ترقی، پیشہ ورانہ تربیت اور سیاحت کے شعبے کو فروغ دینا ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • پرتعیش شہر لاس ویگاس کے قریب صحرا سے 300 انسانوں کی باقیات دریافت
  • پختونخوا‘ سوات سے ٹیکسلا تک مزید 8 تاریخی مقامات دریافت
  • کراچی: سمندر کے راستے ڈیزل اسمگل کرنے کی کوشش ناکام، ایف بی آر
  • ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • اسٹاک مارکیٹ ہفتہ بھار دباؤ میں رہی، سرمایہ کاروں پر خدشات کے سائے گہرے