کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) نے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے سلسلے میں آج ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ 

عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ اے وی سی سی نے ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی۔

عدالت نے حکم نامے میں تحریر کیا کہ تفتیشی افسر نے بتایا اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی ملزم سے تفتیش کر رہی ہے، موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی فارنزک رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئیں۔ 

مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کا عدالت کے روبرو اعترافِ جرم کی خواہش کا اظہار

مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم ارمغان نے کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں اعترافِ جرم کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔

حکمنامہ میں کہا گیا کہ پراسیکیوٹر نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی حمایت کی، پراسیکیوٹر کے مطابق ملزم کے ریمانڈ میں توسیع سے مزید شواہد سامنے آسکتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکیل صفائی نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی مخالفت کی، ملزم ارمغان نے پولیس تشدد کی شکایت کی، تفتیشی افسر کسی بھی سرکاری اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے ملزم کا معائنہ کروائیں، تفتیشی افسر تین روز میں میڈیکل معائنے کی رپورٹ جمع کروائیں۔

عدالت نے حکم نامہ میں کہا کہ ملزم نے کہا کہ وہ اعتراف جرم کرنا چاہتا ہے، تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم ایس ایس پی کے روبرو اعترافی بیان ریکارڈ کرواچکا ہے۔ 

مصطفیٰ قتل کیس، ملزم ارمغان کے والد کی پراسیکیوٹر کو دھمکیاں

کراچی مصطفیٰ عامرقتل کیس میں اسپیشل پراسیکیوٹر.

..

عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا کہ ملزم ارمغان نے خرم عباس ایڈووکیٹ کو اپنا وکیل تسلیم کرنے سے انکار کیا، ملزم اور اسکے والد نے کمرہ عدالت میں ایک دوسرے پر چیخ و پکار کی۔

حکم نامہ میں یہ بھی کہا کہ ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 24 مارچ تک توسیع کی جاتی ہے، تفتیشی افسر مقررہ وقت میں تحقیقات مکمل کریں، وکیل صفائی درخواست کی نقول پراسیکیوٹر کو فراہم کریں۔

عدالت نے وکیل صفائی کی درخواست کی سماعت 25 مارچ تک ملتوی کردی۔ 

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع تفتیشی افسر عدالت نے توسیع کی میں کہا قتل کیس ملزم کے کہا کہ

پڑھیں:

ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات

اسلام آ باد:

این سی سی آئی اے  کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا  ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے  اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔

جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔

وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے  تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں  ہے۔ اگر  اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔

وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت  لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • این سی سی آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • کوہستان کرپشن اسکینڈل کے مرکزی ملزم قیصر اقبال اور انکی اہلیہ کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • لاہور: رشوت کے الزام میں گرفتار این سی سی آئی اے افسران کے جسمانی ریمانڈ کا حکمنامہ جاری
  • انسداد دہشتگردی عدالت نے ٹی ایل پی کے 114 ملزمان کو رہا کر دیا
  • سنگجانی جلسہ کیس، زین قریشی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • عمران خان کیخلاف 9 مئی کے 11 مقدمات کے ٹرائل کا نیا نوٹیفکیشن جاری
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات