جھارکھنڈ کے وزیر نے اس معاملے میں پولیس کیطرف سے درج کئے گئے مقدمے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے لیڈروں کے کہنے کے مطابق کیس درج کیا گیا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گریڈیہ میں ہولی کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے بعد جاری سیاست کا اثر جھارکھنڈ اسمبلی میں بھی نظر آیا۔ منگل کو ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے وزیر عرفان انصاری کو اسمبلی احاطے میں بی جے پی کے لیڈروں پر گرجتے ہوئے دیکھا گیا۔ انہوں نے جھارکھنڈ کے سابق وزیراعلٰی رگھوور داس کے دورہ پر بھی سوالات اٹھائے اور بی جے پی کے لوگوں پر گریڈیہ فرقہ وارانہ فساد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ رگھوور داس وہاں جا کر لوگوں کو مشتعل کر رہے ہیں جو بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ عرفان انصاری نے بی جے پی کے لیڈروں کو خبردار کیا کہ وہ جھارکھنڈ کا ماحول خراب کرنے کی کوشش نہ کریں، یہاں ہیمنت سورین کی حکومت ہے، ماحول کو کسی بھی حال میں خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اسمبلی احاطے میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ریاستی وزیر عرفان انصاری نے کہا کہ بی جے پی کے لیڈروں کا تکبر ختم نہیں ہوا ہے۔ جس طرح سے گرڈیہ میں ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے بعد دونوں پارٹیوں کے درمیان امن قائم ہوا، بابولال مرانڈی تین دن کے بعد وہاں پہنچے اور سیاست کرنے لگے، یہ بابولال مرانڈی کا علاقہ ہے، انہیں اپنے علاقے کا خیال رکھنا چاہیئے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ڈاکٹر عرفان انصاری نے اس معاملے میں پولیس کی طرف سے درج کئے گئے مقدمے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے لیڈروں کے کہنے کے مطابق کیس درج کیا گیا ہے، جو کہ مناسب نہیں ہے۔

جھارکھنڈ اسمبلی کے وزیر نے کہا کہ اس معاملے میں جو بھی قصوروار ہوگا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، بھائی چارے کو کسی صورت میں خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گریڈیہ میں ماحول بدل رہا ہے اور پولس انتظامیہ اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر عرفان انصاری نے کہا "میں آج وہاں سے واپس آیا ہوں اور دونوں طرف کے لوگ امن چاہتے ہیں، اسی لئے کسی کو ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی"۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بی جے پی کے لیڈروں عرفان انصاری نے نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟

ہم اتنا کیوں سخت دل ہو گئے ہیں کہ رحم دلانہ رویوں سے ہی ناطہ توڑ لیا ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے طرزِ سیاست اور ان کی غیر جمہوری سوچ کا ناقد ہوں مگر میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی غلط کہتا ہوں۔

کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں اﷲ نے ہمیں جو فتح نصیب کی ہے، اسے پوری قوم کو اکٹھا کرنے، اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کی تمام خواتین کو رہا کر دینا چاہیے۔

 اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ جیل میں زیادہ بیمار ہو گئی ہیں تو میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خاتون بھی ہیں، عمر رسیدہ بھی ہیں اور علیل بھی ہیں لہٰذا انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کے لوگ بھی اس تجویز سے اتفاق کریں گے، مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین نے میری تجویز پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس معمّر خاتون کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی، جو افسوسناک ہے۔

کچھ لوگوں نے ان کے 9 مئی کے جرم کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کو جب پی ٹی آئی کے ورکر لاہور میں جناح ہاوس جلارہے تھے اور ہمارے شہداء کی شبیہوں اور یادگاروں کو تباہ کررہے تھے تو میرا خون کھول رہا تھا، اُس وقت میں نے فوری طور پر لکھا تھا کہ جناح ہاؤس کی سیکیوریٹی کے ذمّے داروں کو فوری طور پر برخاست کردینا چاہیے۔

اگر میں موقعہ پر سیکیوریٹی کا ذمّے دار ہوتا تو شرپسندوں کے خلاف ہر قسم کی فورس استعمال کرکے انھیں منتشر ہونے پر مجبور کرتا۔ بہرحال جو شرپسند موقعہ پر موجود تھے ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ مگر اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، مجرموں کے درمیان ان کے اثرورسوخ اور contacts کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔

کون نہیں جانتا کہ موقعۂ واردات پر موجودگی بڑا جرم قرار پاتی ہے، پی ٹی آئی ہی کی دو اہم خواتین تو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر موجود تھیں۔مگر وہ دونوں اِس وقت آزاد ہیں۔ اور ایک تو پھر سے سیاست میں پوری طرح متحرّک ہے، مگر ڈاکٹر یاسمین راشد معمّر بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اس کے باوجود جیل میں ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ کیا فراخدلی اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی عمر اور بیماری کے پیشِ نظر رہا کردیا جاتا۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جارہا۔ کیا سیاست میں انسانی ہمدردی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟

اس ملک میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے امیر مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مگر جب دشمن ملک کے خلاف جنگ میں اُسی ایوب خان نے سیاسی قیادت کا تعاون مانگا تو مولانا مودودی ؒنے ایک لمحے کے لیے بھی ذاتی رنجش کو آڑے نہ آنے دیا۔ اور فوری طور پر اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ایوب خان کے ساتھ ملاقات کی اور مکمل تعاون فراہم کیا۔

اگر پچھلی نصف صدی میں کسی کو بابائے جمہوریت یا سیاست کا استاد مانا جاتا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے نوابزادہ صاحب کو پانچ سال گھر میں نظر بند رکھّا مگر انھوں نے جب بھی ضیاء الحق کا نام لیا، جمع کا صیغہ استعمال کیا اور نام کے ساتھ ہمیشہ صاحب بھی لگایا۔ وہ سیاست کے نوواردوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاست میں آپ کا حریف دشمن نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفت کبھی مستقل نہیں ہوتی، اور اس میں کل کا مخالف آج کا اتحادی بھی بن سکتا ہے۔

نوابزادہ صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں کبھی اوئے توئے نہیں کرتے اور نہ کبھی توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے، وہ اپنے کٹڑ مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی شائستہ اور شُستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے اگر نوابزادہ صاحب سے سیاست کی اعلیٰ اقدار کسی نے سیکھی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنا نقطۂ نظربڑے عمدہ دلائل اور جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر الفاظ کا بہترین چناؤ کرتے ہیں اور ہمیشہ شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔

ابھی چند سال پہلے جب ایک انتخابی مہم کے دوران عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال میں داخل ہوگئے تو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم معطل کردی اور وہ عمران خان صاحب کی تیمارداری کے لیے خود اسپتال پہنچ گئے تھے۔

2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی زیرِ عتاب تھی۔ نہ جانے ’کس کی‘ ہدایات پر پولیس اُن کے امیدواروں کے گھروں پر ریڈ کررہی تھی اور امیدواروں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔ میرے آبائی شہر وزیرآباد میں میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ ان کے مخالف امیدوار کو پولیس جب ہراساں کررہی تھی تو ڈاکٹر نثار چیمہ نے میڈیا کے ذریعے اور میں نے کالموں کے ذریعے مخالف امیدوار کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیوں کی سخت مذمّت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے تو واضح طور پر کہا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خطرہ ہوتو وہ اپنے انتخابی کاغذات (Nomination papers) مجھے بھجوادیں، میں خود ان کے کاغذات منظور کراؤں گا۔ اسی طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے جعلی کامیابی حاصل کرنے سے انکار کردیا اور اپنے سیاسی حریف محترم حامد ناصر چٹھہ کو کامیابی کی مبارکباد دی۔

 سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مذکورہ بالا واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لانی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن ہرگز نہ سمجھیں، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوا کریں اور ان کے ساتھ اچھے سماجی مراسم قائم رکھیں۔ ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب انتخابی مہم کے دوران پولیس افسروں کو جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تنگ کرنے، اور ان کے خلاف کیس درج کرنے یا ان کے گھروں پر ریڈ کرنے سے منع کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ہمیں اوپر سے ہدایات ہیں‘‘ اوپر سے اگر غیر قانونی ہدایات ملیں تو سول سرونٹس کا فرض ہے کہ اوپر والوں کو عزّت اور احترام کے ساتھ بتائیں کہ یہ غیر قانونی ہدایات ہیں، ان پر ہم عمل نہیں کرسکیں گے۔ کسی کی بھی ہدایات ہوں مگر کسی سیاسی کارکن کے گھر میں گھس کر ان کا فرنیچر توڑ دینا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔جس پولیس افسر کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا، وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا اور سینئر افسروںسے ملکر اپنا تبادلہ کرالیتا ہے مگر شہریوں کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جس سے اس کی یونیفارم پر داغ لگے اور اس کا پورا محکمہ بدنام ہو۔

ایک بار لاہور پولیس نے ایسی ہی مہم کے دوران ریڈ لائن کراس کردی اور مفکّرِ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کے گھر گھس گئی۔ جس پر ہمارے عظیم محسن علّامہ اقبالؒ کی بہو ڈاکٹر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے شدید احتجاج کیا۔ اس پر میں نے اس وقت کے آئی جی کو بڑا سخت میسج بھیجا کہ ’’تمہیں اور پوری پنجاب پولیس کو شرم آنی چاہیے۔ جانتے ہو تم نے اُس گھر کی چاردیواری کی حرمت پامال کی ہے کہ یہ ملک پاکستان جن کے خواب کی تعبیر ہے۔ اگر آزادی نہ ملتی تو زیادہ تر پولیس افسرآر ایس ایس کے گھروں میں نوکر ہوتے یا ہندو پولیس افسروں کے اردلی ہوتے‘‘ اُس وقت کے آئی جی کوفوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے جسٹس صاحبہ سے معافی مانگ لی۔

 بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقّع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی پرانی وضعداری اور رواداری کے باعث اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو رہا کروائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ حیران کن ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کے حامی اور ورکر بھی مریم نواز صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، جس پر انھیں شرم آنی چاہیے۔

عدم برداشت، تنگدلی، بیہودگی ، غیراخلاقی اور غیرشائستہ زبان نے پاکستانی سیاست کا چہرہ مکروہ اور بدصورت بنادیا ہے۔ سیاست کا حُسن، وقار اور اعتبار بحال کرنے کے لیے سیاسی قائدین اور ورکروں کو اس کا چہرہ ، برداشت، تحمّل، رواداری، فراخدلی، باہمی احترام اور انسانی ہمدردی کے پھولوں سے کشید کیے گئے پانی سے دھونا ہوگا۔ سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کی صحیح تربیّت کریں۔

آج کے حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ ذہن میں رکھّیں کہ ہم اس عظیم ترین راہبر و راہنماؐ کے پیروکار ہیں جس نے اپنے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے بدلے نہیں لیے۔انھیں معاف کردیا تھا۔ اﷲ اور رسولؐ اﷲ نے معاف کردینے کو زیادہ پسند فرمایا ہے، کیا ہم بیمار اور معمّر خواتین کے معاملے میں بھی اﷲ اور رسولؐ کے احکامات ماننے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں؟

متعلقہ مضامین

  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • یو ای ٹی لاہور ، عالمی رینکنگ میں شاندار کارکردگی دکھانے پرمختلف شعبہ جات اور فیکلٹی ممبران کو ایوارڈز سے نوازنے کیلئے تقریب
  • ’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
  • روس کا مسافر طیارہ خراب موسم کی وجہ سے پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ، 49 افراد کی ہلاکت کا خدشہ
  • دیامر سیلاب: ڈاکٹر مشعال کے 3 سالہ بیٹے کی لاش 3 دن بعد مل گئی
  • شام: فرقہ وارانہ تشدد کا شکار سویدا میں انسانی امداد کی آمد
  • دیامر : بابوسر ریلے میں جاں بحق ڈاکٹر مشال اور دیور کی میتیں لودھراں روانہ کردی گئیں
  • ماحول دوست توانائی کی طرف سفر سے واپسی ناممکن، یو این چیف
  •  سی پیک دوسرے مر حلے ‘ چینی بھائیوں کیلئے محفوط ‘ کاروبار دوست ماحول بناہیں رہے ہیں : وزیراعظم 
  • کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟