لاہور پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو رہنا چاہیے لیکن اس کا دہشتگرد ونگ نہیں رہنا چاہیے، جو پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں وہ قومی سلامتی کی کمیٹی میں ہیں، جو سلامتی نہیں چاہتے وہ باہر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی وزیر اطلاعات عظمی زاہد بخاری نے لاہور پریس کلب کا دورہ کیا۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری، سیکرٹری زاہد عابد، جوائنٹ سیکرٹری عمران شیخ، فنانس سیکرٹری سالک نواز، اراکین گورننگ باڈی مدثر حسین، سید بدر سعید، رانا شہزاد احمد، محبوب احمد چوہدری اور الفت حسین مغل نے معزز مہمان کو کلب آمد پر خوش آمدید کہا۔ عظمی زاہد بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب میں وزیر نہیں تھی یہ پریس کلب تب بھی میرا گھر تھا، اب بھی میرا گھر ہے، ارشد انصاری کو ہر وقت اپنے صحافیوں کی فکر رہتی ہے، تنخواہوں کا مسئلہ چل رہا ہے اس کو حل کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے، جبکہ ایک تحریک بائیکاٹ ہے، جس کا کام ہی بائیکاٹ کرنا ہے، جب وہ وزیراعظم تھے کووڈ آیا تکلیف دہ دن تھے، لیکن وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی وہ شخص سب کیساتھ نہیں بیٹھا تھا، انڈیا نے حملہ کیا سب سیاسی پارٹیاں اکھٹی ہوئیں موصوف تب بھی نہیں بیٹھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی اکڑ ہے شاید وہ خود کو پاکستان سے اوپر سمجھتے ہیں، میں نے کل ہی کہا تھا یہ نہیں بیٹھے گے، ان کا ایجنڈا ملک میں عدم استحکام لانا، پاکستان کیخلاف کام کرنیوالی فورسز کو سپورٹ کرنا ہے، بانی پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھے تب بھی کہتے تھے، طالبان ہمارے بھائی ہیں، اے پی ایس کا جب تکلیف دہ واقعہ ہوا جس سے دل دہل جاتا ہے، ان کو کمیٹی میں بیٹھنا پڑا اور نیشنل ایکشن پلان بنا، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے دہشتگردی کو ختم کر دیا گیا، اپنے دور حکومت میں انھوں نے ان کو لا کر بسایا، جو لوگ پکڑے گئے تھے ان کو صدارتی معافی دلوائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ زمان پارک کے باہر وہ بانی پی ٹی آئی کی سکیورٹی کرتے پوری دنیا نے دیکھا، ان کو طالبان خان کہا جاتا رہا، آج دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے بلکہ سر اٹھا چکی ہے، ہمارے سکیورٹی جوان شہادت کے جذبے سے یونیفارم پہنتے ہیں، ان کو کمزور نہیں کیا جا سکتا، باہر بیٹھے بانی پی ٹی آئی کے بھگوڑے یہاں سے چندہ لے کر جاتے ہیں، انٹرنیشنل فرمز کو لاکھوں ڈالرز کون ادا کرتا ہے، یہ بڑا سوال ہے، تمام سیاسی پارٹیاں ہماری عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے سر جوڑ کر بیٹھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک تحریک بائیکاٹ ہے، ان کو بانی پی ٹی آئی کی سیاست سب سے اوپر لگتی ہے، دوسری وجہ لگتی ہے ان کو پاکستان کے جان ومال کی فکر نہیں، کے پی کے کو دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کیلئے چھ سو ارب روپے دیئے گئے، وہ پیسے کہاں گئے، نہیں پتہ، بانی پی ٹی آئی کو مٹن ملا ہے یا نہیں یہ مسئلہ ہے، تھانے پر حملہ ہوا یہ مسئلہ نہیں، میاں نواز شریف ہر طرح کا رول ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ عظمی بخاری نے کہا 9 مئی پر کہتے ہیں شہدا کی توہین نہیں کی یہ روز کرتے ہیں، جعفر ایکسپریس پر جو سوشل میڈیا کمپین کی گئی سب کے سامنے ہے، محرومیوں کے نام پر کب تک ملک میں دہشتگردی ہوتی رہے گی، دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے اس کو کسی صورت معافی نہیں مل سکتی، تحریک انصاف کو رہنا چاہیے لیکن اس کا دہشتگرد ونگ نہیں رہنا چاہیے، جو پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں وہ قومی سلامتی کی کمیٹی میں ہیں، جو سلامتی نہیں چاہتے وہ باہر ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی انہوں نے کہا رہنا چاہیے پریس کلب

پڑھیں:

تلاش

’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔

غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔

انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔

دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔

دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔

مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔

ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔

کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔

انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔

خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔

تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔

انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔

تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • میرا لاہور شہربے مثال کے کچھ خوب صورت نظارے (دوسرا حصہ)
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • ہر کیس کا فیصلہ 90 روز میں، قبضہ مافیا کا مستقل خاتمہ کر دیا: عظمیٰ بخاری
  • تلاش
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس کی منظوری سے مریم نواز نے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا ہے: عظمیٰ بخاری
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس سے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا: عظمیٰ بخاری
  • ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، کسی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے: اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • پنجاب میں اب کسی غریب اور کمزور کی زمین پرقبضہ نہیں ہوگا، وزیر اطلاعات پنجاب