اسلام آباد(نیوز ڈیسک )وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحد تک گیس پائپ لائن پہنچانے کا بیان درست نہیں، پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک نہیں آئی۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کا سیشن ہوا جس میں مختلف وزارت نے سوالات کے تحریری جوابات پیش کیے۔ وقاقی وزیر تجارت نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے سلسلے میں اہم پالیسی بیان دیا اور کہا کہ ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحد تک گیس پائپ لائن پہنچانے کا بیان درست نہیں، ایران نے پاکستان کی طرف گیس پائپ لائن اپنے ایک خاص علاقے تک ضروربچھائی ہے لیکن پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ ایران پر عالمی پابندیوں سے سب آگاہ ہیں، امریکا یک طرفہ طور پر پابندیاں لگاتا ہے، یہ پابندیاں عالمی قوانین کے مطابق نہیں لگائی جاتیں مگر ہماری عالمی تجارت میں 65 فیصد صرف امریکا و یورپ کے ساتھ ہے، ہمیں اپنی تجارت کو عالمی تجارت کے تناسب سے دیکھنا ہوتا ہے۔

وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ نے کہا کہ امریکی امداد کی معطلی سے پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی پر کافی اثرات مرتب ہونگے، فنڈز بند ہونے سے اہم شعبوں میں ہونے والی پیش رفت میں خلل کا خطرہ ہے، ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول میں تاخیر ہو سکتی ہے، امریکا نے یہ امداد صرف پاکستان کے لیے بند نہیں کی، وہ اپنی غیر ملکی امداد کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے،امریکی حکام سے بات چیت جاری ہے تاکہ 20 اپریل 2025 تک فنڈز کی بحالی ممکن ہوسکے۔ وزیر تجارت جام کمال خان نے موجودہ حکومت کے پہلے سال سے متعلق درآمدی چینی کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں جس میں بھارت سے 50 ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

وزیر تجارت نے بتایا کہ مارچ 2024 سے جنوری 2025 تک 3 ہزار 140 میٹرک ٹن چینی درآمد کی گئی، چینی کی درآمد پر 3 ملین ڈالرز سے زائد رقم خرچ ہوئی، چینی ملائشیا جرمنی، تھائی لینڈ، یو اے ای، امریکا، برطانیہ، ڈنمارک، چین فرانس، سوئٹزرلینڈ اور جنوبی کوریا سے درآمد کی گئی جب کہ پاکستان نے بھارت سے بھی 50 ہزار ٹن چینی درآمد کی۔ وزارت تجارت نے گزشتہ 5 سال کے تجارتی خسارے کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دیں جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران 1سو 54 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا، 1سو 36 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں، 2 سو 91 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں، درآمدات میں اضافے کی بنیادی وجہ معاشی نموع ہے۔وزارت تجارت کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2020 میں تجارتی خسارہ 23 ارب 16 کروڑ ڈالر ہوا، مالی سال 2021 میں تجارتی خسارہ 31 ارب 8 کروڑ ڈالر ہوا، مالی سال 2022 میں تجارتی خسارہ 48 ارب 35 کروڑ ڈالر ہوا، مالی سال 2023 میں تجارتی خسارہ 27 ارب 47 کروڑ ڈالر ہوا، گزشتہ مالی سال 2024 میں تجارتی خسارہ 24 ارب 11 کروڑ ڈالر ہوا۔
بتایا گیا کہ مالی سال 2025 میں سولر پینل، ٹرانسفارمرز اور بجلی کے ترسیلی آلات میں 60 فیصد اضافہ ہوا، بجلی کے ترسیلی آلات کی درآمدات 31 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی، صنعتی مشینری کے آلات میں 20 فیصد، ٹیکسٹائل مشینری میں 40 فیصد، آٹو پارٹس کی درآمدات میں 58 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران غیر ملکی قرضوں اور اور واجبات کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردی گئیں جو کہ وزارت خزانہ کی جانب سے پیش کی گئیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ جون 2023 تک پاکستان کے غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی کل رقم 126141 ملین ڈالرز تھی، یہ غیر ملکی قرضہ جی ڈی پی کا 43 اعشاریہ صفر تین فیصد ہے، مالی سال 2024 میں پاکستان نے 11 ہزار 475 ملین ڈالرز غیر ملکی قرضہ واپس کیا۔
مزیدپڑھیں:سیما حیدر اور سچن مینا کے ہاں بیٹی کی پیدائش

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کی سرحد تک میں تجارتی خسارہ کروڑ ڈالر ہوا گیس پائپ لائن قومی اسمبلی غیر ملکی کی درآمد مالی سال

پڑھیں:

زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد

حکومت کے دعوے کے مطابق 14 سال کے وقفے کے بعد مالی سال کا اختتام جاری کھاتے (Current Account) کے سرپلس کے ساتھ ہوا، جس سے اسٹیٹ بینک (SBP) کو بیرونی کھاتہ منظم رکھنے میں مدد ملی، کیونکہ ملک مالی سال 2025-26 (FY26) میں داخل ہو چکا ہے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں جاری کھاتے کا سرپلس 2.105 ارب ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ سال یہ 2.072 ارب ڈالر خسارے میں تھا۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے بیرونی کھاتے کو دانشمندی سے سنبھالا، جس سے سرپلس برقرار رکھنے میں مدد ملی، اور اس نے زر مبادلہ کی شرح میں استحکام کو سہارا دیا۔ اس سرپلس سے اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملی۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک نے انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے، لیکن بینکرز اور کرنسی ڈیلرز کا اندازہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال FY25 کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالر خریدے۔بیشترماہرینِ مالیات اس بات پر متفق ہیں کہ نیا مالی سال FY26 مثبت پیش رفت کے ساتھ شروع ہوا ہے، جن میں جاری کھاتے کا سرپلس، مستحکم زرِمبادلہ کی شرح اور اسٹیٹ بینک کے پاس موجود 14 ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ ذخائر شامل ہیں، نیز IMF پروگرام کا تسلسل بھی۔اس کے علاوہ، دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، جنہوں نے FY25 کے دوران تقریباً 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کیے۔ بیرونی کھاتے کی بہتر حالت کے پیشِ نظر FY26 میں مزید امداد کا امکان ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یقینا ایک بڑی کامیابی ہے جو14 سال کے وقفے کے بعدحاصل ہوسکی ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود زمینی حقائق اور صورت حال ملکی معیشت کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہبظاہر پاکستان ایک تضاد کا سامنا کر رہا ہے: کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، ترسیلات زر کی بلند ترین سطح، اور پھر بھی ڈالرز ناپید۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ملک نے جون میں 2.1 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا، جس نے سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو 14 سال بعد پہلی بار مثبت بنا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات بھی 38.3 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ مستحکم ہے، لیکن یہ استحکام صرف کاغذات تک محدود ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طلبہ، مسافر، اور مریض، سبھی کو بینکوں سے زرمبادلہ حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔یہ تضاد ایک گہرے ساختی مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ چاہے ڈالرز ملک میں آ بھی رہے ہوں، وہ رسمی نظام کے ذریعے گردش نہیں کر رہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ غیر رسمی مارکیٹ ایک بار پھر پھلنے پھولنے لگی ہے۔ اوپن مارکیٹ اور سرکاری ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق (کرِب پریمیم) دوبارہ ابھر آیا ہے، جس کی وجہ سے ترسیلات زر رسمی ذرائع کے بجائے غیر رسمی چینلز کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔ بینکوں کو ڈالر کی قلت طلب کی زیادتی کی وجہ سے نہیں، بلکہ رسمی نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے درپیش ہے۔ ایسے حالات میں برآمد کنندگان کی طرف سے آمدنی واپس نہ لانا اور تاجروں کی طرف سے کرنسی کی تبدیلی میں تاخیر فطری بات ہے۔ ایکسچینج ریٹ اگرچہ مستحکم ہے، لیکن اس پر یقین رکھنے والے کم ہی ہیں۔یہ اعتماد کی کمی کی علامت ہے، نہ کہ سرمایہ کی۔ حکومت کی انتظامی کنٹرول کی حکمتِ عملی جیسے درآمدات پر پابندیاں، غیر رسمی ایکسچینج ریٹ گائیڈنس، اور وقتی مراعات نے وقتی طور پر کچھ مہلت تو دی، مگر اعتماد بحال نہیں کر سکی۔ اب ان پالیسیوں میں دراڑیں نمایاں ہونے لگی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور گہرا تضاد موجود ہے۔ یہ سرپلس نہ تو برآمدات میں اضافے کی وجہ سے آیا ہے، نہ ہی عالمی مسابقت میں بہتری کی بدولت۔ بظاہر یہ صورتحال مصنوعی طور پر کم کی گئی درآمدات اور وقتی طور پر چھپائی گئی سرمایہ گری کی پیداوار ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری اکثر ”دباؤ سے” آتی ہے نہ کہ ”پیداوار سے”۔ یعنی اگر درآمدات بند کر دی جائیں، مشینری نہ منگوائی جائے، صنعتی خام مال محدود ہو، تو بظاہر سرپلس تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن معیشت کی نمو رک جاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس معاشی بہتری کو صنعتی پیداوار، برآمدات اور روزگار میں اضافے کا ذریعہ بنائے، ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان اپنا زاویہِ نظر تبدیل نہیں کرتا، اُس کی بقا کی بحث سہ ماہی بنیادوں پر مالی خلا پورا کرنے تک محدود رہے گی۔ ملک کو مالی، مانیٹری، اور ادارہ جاتی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ نہ ہو، ہر سرپلس ایک سراب ہوگا، اور ہر بہتری عارضی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب مسلسل اقتصادی ڈھانچے کی دل خوش کن تصویر پیش کرتے رہتے ہیں مگر ان تمام حکومتی دعووں اور اپنی کامرانیوں کے ڈنکے بجانے کے باوجود عوام کے چہروں پر ان کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل میں ریلیف کے حوالے سے خوشی کی کوئی رمق امڈتی نظر نہیں آتی اور اپنے اقتصادی مسائل کے معاملہ میں ان کا اضطراب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔بجلی پانی اور جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں بیجا اضافہ کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کیا جا چکا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،عوامی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ عوام میں کسی سطح پر بھی،کسی طبقے میں بھی اطمینان نہیں پایا جاتا۔ قومی معیشت کی بہتری اپنی جگہ ہوگی۔ اعدادوشمار کچھ بھی بولتے ہوں لیکن جو کچھ صارف مارکیٹوں میں نظر آ رہا ہے اور یہی زمینی حقائق ہیں، وہ خوفناک نہیں، پریشان کن ہیں، اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اس لئے اہل اقتدار کی جانب سے زمینی حقائق سے قطعی برعکس عوام کو غربت میں کمی اور خوشحالی کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو وہ ایسے حکومتی دعووں کو اپنے زخموں پر نمک پاشی سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ترسیلات میں اضافہ خوش آئند ضرور ہے، لیکن ایک ایسی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا جس کی بنیادیں کمزور ہوں۔ وقتی سہولتیں صرف زوال کو مؤخر کرتی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے عارضی اقدامات کافی نہیں۔ کرِب پریمیم کو ختم کرنے کے لیے شفاف اور قابلِ اعتماد ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، مارکیٹ پر مبنی شرحِ سود ہونی چاہیے جو ڈالرز رکھنے کی ترغیب دے، اور ایسی سرمایہ اکاؤنٹ پالیسی ہونی چاہیے جو گھبراہٹ کا تاثر نہ دے۔ حکومت کو عوام کا مکمل اعتماد اس وقت ہی حاصل ہوپائے گا جب وہ اپنے روزمرہ کے مسائل بالخصوص مہنگائی کے مسائل میں عملی طور پر ریلیف ملتا ہوا محسوس کریں گے۔ جب حکمران طبقات کی جانب سے عوام پر مہنگائی در مہنگائی کا بوجھ لاد کر اپنی سہولتوں اور مراعات میں بے انتہاء اضافے کے منتخب ایوانوں میں قوانین منظور کرائے جاتے ہیں تو عوام کو اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے حکومتی اعلانات مذاق ہی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے گذشتہ روز کے دل خوش کن اعلانات کے ساتھ ہی گذشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں جولائی کے تیسرے ہفتے میں بھی مہنگائی کے جھکڑ چلنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے مطابق رواں ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پھر مہنگائی میں ریلیف اور اقتصادی استحکام کے دل خوش کن حکومتی دعووں پر عوام کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ بے شک حکمران اقتصادی ترقی کیلئے اٹھائے گئے اپنے اقدامات کا کریڈٹ لیں مگر عوام کو بھی ان کے مسائل کے حل کے معاملہ میں ضرور مطمئن کریں۔ اگر عوام بجلی گیس کے ناروا اضافی بلوں کی اذیت سے ہی خود کو باہر نہیں نکال پائیں گے تو ان سے حکومتی گورننس کے لیئے رطب اللسان ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے اور ارباب اختیار بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات 23 سے 26 ارب ڈالر کے درمیان ہوں گی۔جون 2025 میں جاری کھاتے کا سرپلس 328 ملین ڈالر رہا، جو مئی کے 84 ملین ڈالر خسارے سے خاصی بہتری ظاہر کرتا ہے۔ مالی سال کے بیشتر حصے میں جاری کھاتہ سرپلس میں رہا۔ چار میں سے صرف پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر ) میں 474 ملین ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔دوسری سہ ماہی میں 1.492 ارب ڈالر کا سرپلس رہا، تیسری میں 820 ملین ڈالر اور چوتھی میں 262 ملین ڈالر۔ تاہم، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دوسری سہ ماہی کے بعد سرپلس میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔کئی سال کی بلند ترین سطح پر ذخائر اور زبردست جاری کھاتہ سرپلس بڑی کامیابی ہے، لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ فارن ایکسچینج کی لیکویڈیٹی کم ہے، اور درآمد کنندگان بروقت ادائیگیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں مالی سال 25 کے دوران معمولی اضافہ ہوا، جو حکومتی کوششوں کے برعکس ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، 25 میں FDI 4.7 فیصد بڑھ کر 2.457 ارب ڈالر رہی۔ جون میں FDI کا حجم 206.6 ملین ڈالر رہا، جو کہ جون 2024 میں 205 ملین ڈالر تھا۔حکومت کی سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششوں کے باوجود اندرونی اور علاقائی حالات سرمایہ کاروں کے لیے سازگار نہیں رہے۔مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جارحیت اور مسلسل مخاصمانہ رویے نے پاکستان میں سرمایہ کاری کو پرخطر بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی سیاسی حالات بھی غیر یقینی کا شکار ہیں، جس سے غیر ملکی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے نے بھی پاکستان کو متاثر کیا، اور ایران کے ساتھ تجارت اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان دونوں تنازعات نے پورے خطے کو سرمایہ کاری کے لیے غیر پرکشش بنا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صنعتی شعبے میں ملکی سرمایہ کاری بھی کم ہوئی ہے، جس کی وجہ غیر موزوں معاشی پالیسیاں اور پالیسی سازوں کے ساتھ کاروباری طبقے کے بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔اس سرپلس کی سب سے بڑی وجہ 38.3 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر تھیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ تھیں اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر کے لیے بنیادی سہارا بنی رہیں۔ اگرچہ حکومت کو امید ہے کہ اس سال پی آئی اے اور دیگر اثاثوں کی فروخت سے غیر ملکی سرمایہ آئے گا، لیکن قومی ایئر لائن کو ایک مقامی کمپنی کے حاصل کرنے کا امکان ہے لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود حقیقت یہی ہے جسے ارباب حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ مالی سال 25 میں نجکاری پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس دوران، اسٹیٹ بینک نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حقیقی مؤثر شرح تبادلہ (REER) انڈیکس پر روپیہ 21 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ مئی میں 97.79 پوائنٹس کے مقابلے میں جون 2025 میں REER 1.22 فیصد کم ہو کر 96.61 پوائنٹس پر آ گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیاہے کہ حکومت کاروباری اور سرمایہ کار دوست ماحول کو مزید بہتر بنانے کے لیے ترجیحی اقدامات کر رہی ہیلیکن اب تک ایسی کوششیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ ملک میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے صنعتوں میں توسیع انھیں اپ گریڈ کرنے کے کم وبیش تمام منصوبے التوا میں ڈال دیے ہیں اور غالباً دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کی کارکردگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے اور ہماری برآمدات میں اب تک ہونے والا اضافہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے سوا زیادہ تر غیررسمی اور زرعی شعبے کا مرہون منت رہا ہے ،اور ظاہر ہے کہ موسم جس طرح کروٹ بدل رہاہے ہم زرعی شعبے کی برآمدات پر زیادہ انحصار نہیں کرسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • آن لائن سسٹم تاخیر کا شکار، پراپرٹی ٹیکس وصولی شروع نہ ہو سکی
  • پاک یو اے ای تجارتی تعاون معاشی تعلقات کی  بحالی کی علامت بن گیا
  • سعودی عرب کا شام میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم جلد ایک ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا، بنگلادیشی ڈپٹی ہائی کمشنر
  • پاکستان کا 9 ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 12.297 ارب ڈالر تک پہنچ گیا
  • چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات سویڈن میں ہوں گے، ترجمان چینی وزارت تجارت
  • پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
  • کے پی سینیٹ انتخابات میں عملے کے نشان لگا بیلٹ پیپر دینے کی خبروں میں حقیقت نہیں: الیکشن کمیشن
  • پاکستان کوگزشتہ مالی سال میں 22 ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنڈنگ موصول
  • زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد