اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے فضائل
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے متعلق فضائل اتنی کثرت سے سامنے آتے ہیں کہ ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مال و دولت پاس رکھنے کی شئے ہی نہیں ، بلکہ یہ پیدا کر کے انسان کو دیا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرے ، جتنی کثرت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل وارد ہوئے ہیں ان سب کا اگر احاطہ کیا جائے تو اس کے لئے تو ایک عظیم دفتر کی ضرورت ہے، اس مختصر مضمون میں تو ان سب کا احاطہ ممکن نہیں بطور نمونہ چند آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ہدیہ قارئین ہیں۔قرآن کریم میں سورہ البقرہ کے بالکل آغاز میں جہاں قرآن کریم اپنے امام رشد و ہدایت ہونے کا اعلان کرتا ہے وہیں ان خوش نصیب لوگوں کا بھی تذکرہ کرتا ہے جن کو قرآن کریم سے کما حقہ فائدہ ہوتا ہے، اور وہ متقین ہیں، اور متقین کی جو صفات قرآن مجید نے ذکر فرمائی ہیں ان میں تیسرے نمبر پر انفاق فی سبیل اللہ کو ذکر فرمایا گویا قرآنی ہدایت سے استفادہ کرنے والی متقین کی جماعت کی شان امتیازی یہ ہے کہ من جملہ دیگر صفات مذکورہ کے وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں اور اس خرچ میں وہ کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیتے، سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے۔ترجمہ اور تم لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کیا کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں نہ ڈالو اور (خرچ وغیرہ) اچھی طرح کیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں اچھی طرح کام کرنے والوں کو۔اس آیت کی تفسیر مشہور صحابی حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو کا مطلب یہ ہے کہ فقر کے ڈر سے اللہ کے راستے میں خرچ کا چھوڑ دینا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اللہ کے راستے میں قتل ہو جائے، بلکہ یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے رک جانا ہے، سورہ البقرہ میں ہی ایک اور جگہ ارشاد ہے: یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ خیرات میں کتنا خرچ کریں، آپ فرما دیجئے کہ جتنا (ضرورت سے)زائد ہو۔اس آیت کی تشریح میں حضرت ابو امامہؓ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں اے انسان جو تجھ سے زائد ہے اس کو تو خرچ کر دے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے، اور تو ا س کو روک کر رکھے تو یہ تیرے لئے برا ہے، اور بقدر ضرورت پر کوئی ملامت نہیں اور خرچ کرنے میں ان لوگوں سے ابتدا کر کہ جو تیرے عیال میں ہیں اور اونچا ہاتھ یعنی دینے والا بہتر ہے اس ہاتھ سے جو نیچے ہے یعنی لینے والا، سورہ البقرہ میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ایک اور عجیب انداز میں دی گئی ہے ارشاد ہے۔من۔ترجمہ : کون ہے ایسا شخص جو اللہ جل شانہ کو قرض دے اچھی طرح قرض دینا پھر اللہ اس کو بڑھا کر بہت زیادہ کرے (اور خرچ کرنے سے تنگی کا خوف نہ کرو)کیونکہ اللہ جل شانہ ہی تنگی اور فراخی کرتے ہیں(اسی کے قبضے میں ہے) اور اس کی طرف لوٹائے جاگے۔اس آیت کریمہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر کیا گیا اس لئے کہ جس طرح قرض کی واپسی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا اجر و ثواب اور بدلہ ضرورملتا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوالاحداح انصاری ؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ جل شانہ ہم سے قرض مانگتے ہیں ۔ حضور اقدسﷺ نے فرمایا بے شک وہ عرض کرنے لگے اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجئے تاکہ میں آپ کے دست مبارک پر ایک عہد کروں حضور ﷺ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا تو انہوں نے معاہدے کے طور پر آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا ان کے باغ میں چھ سو درخت کھجور کے تھے اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے بھی رہتے تھے۔ گویا معاش کا دارومدار ہی اس باغ پر تھا یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے اور اپنی بیوی ام دحداح کو کہا کہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دے دیا ہے، آنحضرت ﷺ نے اس باغ کو چند یتیموں پر تقسیم فرما دیا۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ من جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس گنا ثواب ملے گا، تو حضورﷺ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری امت کا ثواب اس سے بھی زیادہ کر دے پھر یہ آیت اتری من ذالذی یقرض اللہ ، حضورﷺ نے پھر دعا فرمائی کہ یا اللہ میری امت کا ثواب اور بھی زیادہ کر، تو پھر مثل الذین ینفقون اموالھم، جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک دانہ ہو جس میں سات بالیں اگی ہوں اور ہر بال میں سو دانے ہوں، تو ایک دانے سے سات سو دانے مل گئے، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں زیادہ عطا فرمائیں۔حضورﷺ نے پھر دعا فرمائی کہ اللہ میری امت کا ثواب اور بھی زیادہ کر دے اس پر یہ آیت اتری انما یو فی الصابرون اجرھم بغیر حساب۔ کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا دیا جائیگا جو بے حدو حساب ہو گا ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کون ہے جو آج قرض دے اور کل پورا پورا بدلہ لے لے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندے سے فرماتے ہیں کہ اے آدم کے بیٹے اپنا خزانہ میرے پاس امانت رکھ دے نہ اس میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے نہ غرق ہونے کا نہ چوری کا، میں ایسے وقت میں وہ تجھ کو پورا پورا واپس کروں گا جس وقت تجھے اس کی انتہائی ضرورت ہوگی۔اور وہ قیامت کا دن ہو گا جس دن نہ خریدو فروخت ہو سکتی ہے اور نہ مال کام آ سکتا ہے اور نہ دوستی اور نہ ہی عزیز و رشتہ دار۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا جب تک کہ حساب کا فیصلہ یعنی قیامت کے دن جب آفتاب سوا نیزہ پر ہو گا اور کسی چیز کا سایہ بھی نہ ہو گا تو ایسے سخت وقت میں ہر شخص اپنے صدقات کی مقدار سے سایہ میں ہو گا جتنا زیادہ صدقہ دنیا میں کیا ہو گا اتنا ہی زیادہ سایہ ہو گا ایک حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ قبر کی گرمی کو دور کرتا ہے اور ہر شخص قیامت کے دن اپنے صدقہ سے سایہ حاصل کرے گا ایک حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ اللہ جل شانہ کے غصہ کو دور کرتا ہے اور بری موت سے حفاظت کرتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ عمرکو بڑھاتا ہے، اور بری موت کو دور کرتا ہے اور تکبر اور فخر کو مٹاتا ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ ایک روٹی کے لقمہ سے یا ایک مٹھی کھجور یا کوئی ایسی ہی معمولی چیز جس سے مسکین کی ضرورت پوری ہوتی ہو تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں ایک صاحب خانہ جس نے صدقہ کا حکم دیا دوسرے گھر کی بیوی جس نے روٹی وغیرہ پکائی، تیسرے وہ خادم جس نے فقیر تک روٹی پہنچائی، یہ حدیث بیان فرما کر ارشاد فرمایا ساری تعریفیں اس اللہ ہی کے واسطے ہیں کہ جس نے ہماری خادموں کو بھی ثواب سے فراموش نہیں کیا ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ جانتے ہو کہ بہادر کون ہے لوگوں نے عرض کیا جو مقابلہ میں دوسروں کو پچھاڑ دے آپﷺ نے فرمایا بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے پھر فرمایا کہ جانتے ہو بانجھ کون ہے؟ عرض کیا گیا جس کی اولاد نہ ہو آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اصل بانجھ وہ ہے جس نے کوئی اولاد آگے نہ بھیجی ہو پھر فرمایا جانتے ہو فقیر کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جس کے پاس مال نہ ہو آپﷺ نے فرمایا نہیں پورا فقیر وہ ہے جس کے پاس مال ہو لیکن اس نے آگے یعنی آخرت میں کچھ نہ بھیجا ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ہے کہ صدقہ نے فرمایا زیادہ کر عرض کیا کہ اللہ کرتا ہے کون ہے یہ آیت ہیں ان ہے اور
پڑھیں:
کرایہ
میں نے پانی دیا اور انھوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ پھیرا‘ ان کی آنکھوں میں پدرانہ شفقت تھی‘ وہ مجھے اس وقت پورے جنگل کے والد لگ رہے تھے‘ ایک ایسا والد جو شام کے وقت اپنے پورے کنبے کو دیکھتا ہے تو اس کی گردن فخر سے تن جاتی ہے۔
ان کے چہرے پر بھی تفاخر تھا‘ وہ تمکنت سے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے اور میں ہاتھ میں بالٹی اٹھا کر انھیں تک رہا تھا‘ جنگل بہار کی پہلی بارش سے مہک رہا تھا‘ میں نے بالٹی نیچے رکھی اور ایک لمبی سانس لی‘ وہ مجھے سانس لیتے دیکھ کر خوش ہو گئے‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ’’زبردست‘ شاباش‘ جب بھی خوش ہو‘ جب بھی اداس ہو‘ ایک لمبی‘ جی بھر کر سانس لو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘ یہ سانس اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے‘ میں آج تمہیں دعا کی قبولیت کی دو گھڑیاں بتاتا ہوں‘ آپ جی بھر کر لمبی سانس کھینچو‘ اتنی لمبی کہ مزید سانس کی گنجائش نہ رہے‘ اس کے بعد سانس کو ہولڈ کرو اور سانس خارج کرنے سے پہلے دعا کرو‘ یہ دعا ضرور قبول ہو گی‘ آپ نے اکثر سنا ہو گا‘ انسان کو مظلوم اور بلی کی بددعا سے بچنا چاہیے‘ یہ بات درست ہے کیوںکہ مظلوم انسان اور بلی ہمیشہ ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بددعا دیتے ہیں۔
یہ سانس کھینچتے ہیں اور بددعا دیتے ہیں‘ ہندو جوگی اکثر اپنے بالکوں سے کہتے ہیں‘ تم روتے ہوئے بچے اور بین کرتی عورت سے بچو‘ یہ ہمیشہ تیز تیز سانس کے درمیان بددعائیں دیتے ہیں اور یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور دوسرا جب بچہ پہلی چیخ مارتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کا لمحہ ہوتا ہے‘ ہم کیسے ہیں‘ ہم اچھے ہیں یا برے اس کا فیصلہ عموماً ہماری ماؤں کی وہ دعائیں کرتی ہیں جو اس وقت ان کے دل‘ ان کی زبان پر آتی ہیں‘ جب ہم دنیا میں آ کر پہلی چیخ مارتے ہیں‘ یہ ہماری زندگی کا حساس ترین وقت ہوتا ہے‘ ہماری ماں اس وقت ہمارے بارے میں جو سوچتی ہے‘ ہم زندگی میں وہ بن جاتے ہیں چناںچہ ماؤں کو زچگی کے دوران اپنے بچے کے بارے میں ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے اور منہ سے اچھے الفاظ نکالنے چاہییں‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر الحمد للہ کہا اور آہستہ آواز میں بولے ’’میں جب بچہ تھا اور اپنے شیخ کی خدمت میں مصروف رہتا تھا تو میرے شیخ اکثر اوقات اپنے ان مریدوں کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتے تھے۔
جہاں بچے کی امید ہوتی تھی‘ وہ عموماً زچگی کی راتوں میں ساری رات نوافل پڑھتے تھے‘ میں اکثر دیکھتا تھا‘ ہمیں جب زنان خانے سے نومولود کے چیخنے کی آواز آتی تھی تو میرے شیخ پر وجد طاری ہو جاتا تھا اور وہ زور زور سے فرماتے تھے‘ یا اللہ مجھے روحوں کا علم دے دے‘ یا اللہ مجھے روحوں کے علم سے نواز دے‘ وہ یہ دعا اس وقت تک کرتے رہتے تھے جب تک بچے کی چیخیں بند نہیں ہو جاتی تھیں‘ وہ اپنی مریدنیوں سے بھی فرماتے تھے‘ بیٹا تمہارے بچوں کا مقدر تمہاری زبان پر لکھا ہے‘ تم جب انھیں جنم دیتی ہو تو اس وقت تم ان کے لیے جو مانگتی ہو‘ اللہ وہ ان کے نصیب میں لکھ دیتا ہے‘ ‘ وہ سانس لینے کے لیے رکے اور پھر فرمایا ’’آپ نے اکثر بزرگوں سے سنا ہو گا۔
انسان اللہ تعالیٰ سے رو کر جو کچھ مانگتا ہے اللہ اسے دے دیتا ہے‘ یہ بات درست ہے‘ اللہ تعالیٰ واقعی روتے ہوئے انسان کی دعا سنتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی وجہ تلاش کی؟ نہیں تلاش کی‘ اس کی وجہ بہت سیدھی سادی ہے‘ ہم انسان روتے وقت تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ ان سانسوں کے درمیان ہمیں ’’ہوکا‘‘ لگ جاتا ہے اور اس ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بولے ہوئے لفظ دعا یا بددعا بن جاتے ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ میرا مشورہ ہے‘ دن میں کم از کم دس پندرہ مرتبہ پیٹ بھر کر سانس لیا کرو اور اس دوران توبہ اور شکر ادا کیا کرو‘ یہ دونوں افضل ترین عبادتیں بھی ہیں اور شان دار دعائیں بھی‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور آگے چل پڑے۔
ہماری اگلی منزل پانی کی چھوٹی سی نالی تھی‘ وہ نالی کے کنارے بیٹھے‘تھیلے سے کھرپہ نکالا اور نالی کو بڑا کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہم نالی کو پانی کے بہاؤ کے رخ کھلا کرتے رہے‘ نالی چیڑھ کے درختوں کے قریب پہنچ کر ختم ہو گئی‘ وہ وہاں رکے‘ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ چیڑھ کے بڑے درخت کے قریب سے پانی کی ایک چھوٹی سی خشک لکیر جھاڑیوں کی طرف جا رہی تھی‘ وہ اس لکیر پر چلنے لگے‘ لکیر جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر رک گئی‘ وہ نیچے بیٹھے‘ کھرپے سے جنگلی گھاس کو دائیں بائیں کیا اور قہقہہ لگا کر بولے ’’اوئے تم یہاں چھپے بیٹھے ہو‘‘ میں نے نیچے جھک کر دیکھا‘ وہاں ایک چھوٹا سا پودا تھا‘ وہ مسکرا کر بولے ’’جنگلوں میں چیڑھوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی‘ پانی کی یہ نالیاں ان ننھے اور کمزور پودوں کے لیے بنتی ہیں۔
میں نے نالی کو چیڑھوں پر ختم ہوتے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا‘ پانی کا یہ عمل صرف یہاں ختم نہیں ہو سکتا‘ کوئی اور بھی ہے جسے بہار کے اس موسم میں پانی کی ضرورت ہے اور ہم نے اس بے چارے کو تلاش کر لیا‘ آؤ ہم اب اس کے مقدر کے پانی کا بندوبست کرتے ہیں‘‘ وہ اس کے بعد اٹھے اور کھرپے سے پانی کی خشک لکیر گہری کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہمیں اس کام میں بیس منٹ لگ گئے‘ ہم اٹھے تو گھاس میں دبے اس پودے کے لیے پانی کی باقاعدہ نالی بن چکی تھی‘ ہم نے اپنے تھیلے اٹھائے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ میں نے راستے میں ان سے پوچھا ’’ہم پچھلے پندرہ دنوں سے یہ مشقت کر رہے ہیں۔
ہم نے دو کنوئیں صاف کیے‘ ہم مٹی نکالنے کے لیے خود کنوئیں میں اترے‘ ہم نے مارگلہ کے کرشنگ یونٹس کے خلاف درخواست بھی دی‘ ہم نے تین ملزموں کی ضمانت بھی دی‘ ہم نے ایک گاؤں میں پانی کی پائپ لائن بچھائی‘ ہم نے ایک اسکول میں استاد کا بندوبست کیا‘ ہم نے پندرہ دنوں میں چار سو پودے لگائے‘ یہ کام اچھے ہیں‘ یہ چیریٹی ہیں اور چیریٹی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا روحانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ روح کا کھیل تو مختلف ہوتا ہے اوریہ چیریٹی ورک اس میں کسی جگہ ’’فٹ‘‘ نہیں ہوتا‘ وہ مسکرائے‘ رکے اور ایک چٹان پر بیٹھ گئے‘ ہمارے درمیان چند لمحے خاموشی رہی اور پھر وہ آہستہ آہستہ بولے ’’آپ فرض کرو‘ آپ کسی مکان میں کرایہ دار ہیں‘ آپ مکان کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں‘ آپ یہ بھی چاہتے ہیں‘ آپ ٹونٹی کھولیں تو پانی آ جائے‘ آپ چولہے کی ناب گھمائیں تو گیس آ جائے‘ آپ بٹن دبائیں تو بجلی آن ہو جائے اور آپ چٹکی گھمائیں تو پنکھا چلنے لگے اور آپ جب چاہیں آپ کو گرم پانی مل جائے اور جب خواہش کریں‘ آپ ٹھنڈا پانی لے لیں تو آپ کو کیا کرنا ہو گا؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے چند لمحے سوچا اور جواب دیا ’’مجھے ادائیگی کرنا پڑے گی‘‘ انھوں نے ہاں میں سر ہلایا اور بولے ’’بالکل درست‘ آپ کو پے کرنا پڑے گا‘ ہم دنیا کی تمام سہولتیں رینٹ پر لیتے ہیں‘ ہمیں بجلی‘ پانی اور گیس رینٹ پر ملتی ہیں‘ ہمارے پاس اگر گھر نہیں تو ہم یہ بھی رینٹ پر حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں ان سب کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ ہم جس دن یہ رینٹ ادا نہیں کرتے ہیں‘ ہمیں اس مہینے‘ اس دن یہ سہولتیں نہیں ملتیں‘ ہمیں اس زمین پر صرف ان سہولتوں کا رینٹ ادا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہم اپنی زندگی کا رینٹ بھی ادا کرتے ہیں‘ ہم اس زمین پر کرائے دار ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی رینٹ پر دی ہے‘ ہم اگر زندگی کی تمام نعمتوں کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کا کرایہ ادا کرنا ہو گا‘ سورج ہماری زمین کی سب سے بڑی نعمت ہے‘ یہ نہ ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی‘ آکسیجن دوسری بڑی نعمت ہے۔
پانی تیسری نعمت ہے‘ زمین پر بکھرا سبزہ‘ کروٹ کروٹ بدلتی زمین اور چرند پرند اور آبی مخلوقات چوتھی‘ پانچویں اور چھٹی نعمتیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ہماری زندگی‘ یہ رب العزت کا سب سے بڑا تحفہ ہے‘ انسانی وجود 3800 نعمتوں کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ہر نعمت اتنی ہی اہم ہے جتنی اہم ہماری بینائی‘ ہماری قوت سماعت اور ہماری چکھنے کی صلاحیت ہے‘ قدرت نے یہ تمام چیزیں‘ یہ ساری نعمتیں ہمیں کرائے پر دے رکھی ہیں‘ ہم اگر ان نعمتوں کا رینٹ ادا نہیں کریں گے تو کیا ہو گا؟ ہمیں ان نعمتوں کی سپلائی بند ہو جائے گی یا پھر ان کی راشننگ ہو جائے گی اور اگر یہ ہو جائے گا تو پھر ہمارا اطمینان قلب کم ہو جائے گا۔
وہ ذرا سا رک کر بولے ’’روحانیت اطمینان قلب کا نام ہے‘ یہ مضطرب دلوں میں بھڑکی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنا رینٹ وقت پر ادا کرتے ہیں‘ جو قدرت کی دی نعمتوں کا کرایہ بروقت دیتے ہیں‘‘ میں نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور عرض کیا ’’جناب یہ کرایہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ’’زبان پر شکر اور ہاتھ سے فلاح‘‘ وہ ہنسے اور بولے ’’ہم کوشش کریں‘ ہم دوسروں کی دھوپ کے راستے میں کھڑی رکاوٹیں ہٹائیں‘ ہم آکسیجن میں اضافہ کریں‘ پانی کے راستے بنائیں اور اپنے ہاتھوں سے درخت لگا کر زندگی کے سر پر پیار کریں‘ یہ زندگی کا ہمارے ذمے کرایہ ہے‘ ہم جوں جوں یہ کرایہ ادا کرتے جائیں گے‘ ہمارے اطمینان قلب میں اضافہ ہو تا جائے گا اور یہ اطمینان قلب ہمیں روحانیت کے دروازے تک لے آئے گا‘‘۔
وہ اٹھے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر ادا کیا اور فرمایا ’’چلو ہم اپنے ذمے کا رینٹ ادا کریں‘ زبان سے اللہ کا شکر ادا کریں اور ہاتھوں سے دوسروں کے راستے کی رکاوٹیں دورکریں‘‘ میں اٹھا اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔