اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے فضائل
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے متعلق فضائل اتنی کثرت سے سامنے آتے ہیں کہ ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مال و دولت پاس رکھنے کی شئے ہی نہیں ، بلکہ یہ پیدا کر کے انسان کو دیا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرے ، جتنی کثرت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل وارد ہوئے ہیں ان سب کا اگر احاطہ کیا جائے تو اس کے لئے تو ایک عظیم دفتر کی ضرورت ہے، اس مختصر مضمون میں تو ان سب کا احاطہ ممکن نہیں بطور نمونہ چند آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ہدیہ قارئین ہیں۔قرآن کریم میں سورہ البقرہ کے بالکل آغاز میں جہاں قرآن کریم اپنے امام رشد و ہدایت ہونے کا اعلان کرتا ہے وہیں ان خوش نصیب لوگوں کا بھی تذکرہ کرتا ہے جن کو قرآن کریم سے کما حقہ فائدہ ہوتا ہے، اور وہ متقین ہیں، اور متقین کی جو صفات قرآن مجید نے ذکر فرمائی ہیں ان میں تیسرے نمبر پر انفاق فی سبیل اللہ کو ذکر فرمایا گویا قرآنی ہدایت سے استفادہ کرنے والی متقین کی جماعت کی شان امتیازی یہ ہے کہ من جملہ دیگر صفات مذکورہ کے وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں اور اس خرچ میں وہ کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیتے، سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے۔ترجمہ اور تم لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کیا کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں نہ ڈالو اور (خرچ وغیرہ) اچھی طرح کیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں اچھی طرح کام کرنے والوں کو۔اس آیت کی تفسیر مشہور صحابی حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو کا مطلب یہ ہے کہ فقر کے ڈر سے اللہ کے راستے میں خرچ کا چھوڑ دینا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اللہ کے راستے میں قتل ہو جائے، بلکہ یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے رک جانا ہے، سورہ البقرہ میں ہی ایک اور جگہ ارشاد ہے: یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ خیرات میں کتنا خرچ کریں، آپ فرما دیجئے کہ جتنا (ضرورت سے)زائد ہو۔اس آیت کی تشریح میں حضرت ابو امامہؓ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں اے انسان جو تجھ سے زائد ہے اس کو تو خرچ کر دے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے، اور تو ا س کو روک کر رکھے تو یہ تیرے لئے برا ہے، اور بقدر ضرورت پر کوئی ملامت نہیں اور خرچ کرنے میں ان لوگوں سے ابتدا کر کہ جو تیرے عیال میں ہیں اور اونچا ہاتھ یعنی دینے والا بہتر ہے اس ہاتھ سے جو نیچے ہے یعنی لینے والا، سورہ البقرہ میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ایک اور عجیب انداز میں دی گئی ہے ارشاد ہے۔من۔ترجمہ : کون ہے ایسا شخص جو اللہ جل شانہ کو قرض دے اچھی طرح قرض دینا پھر اللہ اس کو بڑھا کر بہت زیادہ کرے (اور خرچ کرنے سے تنگی کا خوف نہ کرو)کیونکہ اللہ جل شانہ ہی تنگی اور فراخی کرتے ہیں(اسی کے قبضے میں ہے) اور اس کی طرف لوٹائے جاگے۔اس آیت کریمہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر کیا گیا اس لئے کہ جس طرح قرض کی واپسی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا اجر و ثواب اور بدلہ ضرورملتا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوالاحداح انصاری ؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ جل شانہ ہم سے قرض مانگتے ہیں ۔ حضور اقدسﷺ نے فرمایا بے شک وہ عرض کرنے لگے اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجئے تاکہ میں آپ کے دست مبارک پر ایک عہد کروں حضور ﷺ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا تو انہوں نے معاہدے کے طور پر آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا ان کے باغ میں چھ سو درخت کھجور کے تھے اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے بھی رہتے تھے۔ گویا معاش کا دارومدار ہی اس باغ پر تھا یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے اور اپنی بیوی ام دحداح کو کہا کہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دے دیا ہے، آنحضرت ﷺ نے اس باغ کو چند یتیموں پر تقسیم فرما دیا۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ من جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس گنا ثواب ملے گا، تو حضورﷺ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری امت کا ثواب اس سے بھی زیادہ کر دے پھر یہ آیت اتری من ذالذی یقرض اللہ ، حضورﷺ نے پھر دعا فرمائی کہ یا اللہ میری امت کا ثواب اور بھی زیادہ کر، تو پھر مثل الذین ینفقون اموالھم، جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک دانہ ہو جس میں سات بالیں اگی ہوں اور ہر بال میں سو دانے ہوں، تو ایک دانے سے سات سو دانے مل گئے، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں زیادہ عطا فرمائیں۔حضورﷺ نے پھر دعا فرمائی کہ اللہ میری امت کا ثواب اور بھی زیادہ کر دے اس پر یہ آیت اتری انما یو فی الصابرون اجرھم بغیر حساب۔ کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا دیا جائیگا جو بے حدو حساب ہو گا ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کون ہے جو آج قرض دے اور کل پورا پورا بدلہ لے لے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندے سے فرماتے ہیں کہ اے آدم کے بیٹے اپنا خزانہ میرے پاس امانت رکھ دے نہ اس میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے نہ غرق ہونے کا نہ چوری کا، میں ایسے وقت میں وہ تجھ کو پورا پورا واپس کروں گا جس وقت تجھے اس کی انتہائی ضرورت ہوگی۔اور وہ قیامت کا دن ہو گا جس دن نہ خریدو فروخت ہو سکتی ہے اور نہ مال کام آ سکتا ہے اور نہ دوستی اور نہ ہی عزیز و رشتہ دار۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا جب تک کہ حساب کا فیصلہ یعنی قیامت کے دن جب آفتاب سوا نیزہ پر ہو گا اور کسی چیز کا سایہ بھی نہ ہو گا تو ایسے سخت وقت میں ہر شخص اپنے صدقات کی مقدار سے سایہ میں ہو گا جتنا زیادہ صدقہ دنیا میں کیا ہو گا اتنا ہی زیادہ سایہ ہو گا ایک حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ قبر کی گرمی کو دور کرتا ہے اور ہر شخص قیامت کے دن اپنے صدقہ سے سایہ حاصل کرے گا ایک حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ اللہ جل شانہ کے غصہ کو دور کرتا ہے اور بری موت سے حفاظت کرتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ عمرکو بڑھاتا ہے، اور بری موت کو دور کرتا ہے اور تکبر اور فخر کو مٹاتا ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ ایک روٹی کے لقمہ سے یا ایک مٹھی کھجور یا کوئی ایسی ہی معمولی چیز جس سے مسکین کی ضرورت پوری ہوتی ہو تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں ایک صاحب خانہ جس نے صدقہ کا حکم دیا دوسرے گھر کی بیوی جس نے روٹی وغیرہ پکائی، تیسرے وہ خادم جس نے فقیر تک روٹی پہنچائی، یہ حدیث بیان فرما کر ارشاد فرمایا ساری تعریفیں اس اللہ ہی کے واسطے ہیں کہ جس نے ہماری خادموں کو بھی ثواب سے فراموش نہیں کیا ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ جانتے ہو کہ بہادر کون ہے لوگوں نے عرض کیا جو مقابلہ میں دوسروں کو پچھاڑ دے آپﷺ نے فرمایا بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے پھر فرمایا کہ جانتے ہو بانجھ کون ہے؟ عرض کیا گیا جس کی اولاد نہ ہو آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اصل بانجھ وہ ہے جس نے کوئی اولاد آگے نہ بھیجی ہو پھر فرمایا جانتے ہو فقیر کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جس کے پاس مال نہ ہو آپﷺ نے فرمایا نہیں پورا فقیر وہ ہے جس کے پاس مال ہو لیکن اس نے آگے یعنی آخرت میں کچھ نہ بھیجا ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ہے کہ صدقہ نے فرمایا زیادہ کر عرض کیا کہ اللہ کرتا ہے کون ہے یہ آیت ہیں ان ہے اور
پڑھیں:
جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ہی پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا بڑا اتحاد قائم کرنا اس پر ہماری کونسل آمادہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں، اس حوالے سے مذہبی جماعتوں سے مل کر اشتراک عمل ہوسکتا ہے، پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ بھی اشتراک عمل کیلئے حکمت عملی ہماری شوریٰ اور عاملہ کرے گی۔
فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، باضابطہ طور پر اب تک اپوزیشن کا اتحاد موجود نہیں ہے، اپوزیشن کا بڑا اتحاد قائم کرنے پر ہماری کونسل آمادہ نہیں ہے، اپوزیشن کا کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں لیکن ایشو ٹو ایشو ساتھ چلنے کے امکان موجود ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جو آئین اور قانون کا راستہ ہے وہی پاکستان کے علماء کا بیانیہ ہے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر کے پی، بلوچستان، سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، حکومت اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مکمل ناکام نظر آرہے ہیں، کسی قسم کا ریلیف نہیں دے رہی۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے انتخابات کے بارے میں بھی ہمارا وہی مؤقف ہے، عوام کی رائے کو نہیں مانا جاتا، سلیکٹڈ حکومتیں مسلط کی جاتی ہیں، صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، عوام کو اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کرنے دیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو جے یو آئی کی کونسل نے مسترد کردیا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ میں خود کو قبائل کا حصہ سمجھتا ہوں، جب بھی قبائل کا مسئلہ آتا ہے ہمارے اندر ایک تحریک جنم لے لیتی ہے، ہم ہمیشہ قبائلوں کے حق کے لیے بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی بھرپور حمایت جاری رکھے گی، اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے، اس کی حیثیت ایک قابض کی ہے، یہ جنگی مجرم ہے، عالمی عدالت انصاف نے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہوا ہے، امریکا اور یورپی ممالک عالمی عدالت کے فیصلے کا احترام نہیں کر رہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، دیگر سب جنگی جرائم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہماری رائے میں آئینی عدالت کی تشکیل تھی، آئینی بینچ کا بننا بُرا آغاز نہیں، آئینی بینچ کو چلنے دیا جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل اگر سمجھتا ہے کہ ہم دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں تو شہریوں پر بمباری کیوں، کبھی دنیا میں دفاعی طور پر عام شہریوں پر بمباریاں ہوئی ہیں؟ کیا دفاع میں کوئی ملک خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر بمباریاں کرتا ہے؟
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ 11 مئی کو پشاور، 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا، ہم پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچائیں گے، یہ امت مسلمہ کی آواز بن چکی ہے۔