UrduPoint:
2025-07-26@09:32:11 GMT

ہراسمنٹ کمیٹیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

ہراسمنٹ کمیٹیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مارچ 2025ء) یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف تھا کہ انٹرمیڈیٹ کی ایک طالبہ کی جانب سے ہراساں کرنے کی درخواست جمع کروائی گئی تھی جس پر ہراسمنٹ کمیٹی نے کاروائی کرتے ہوئے کلرک کو معطل کر دیا۔ بد قسمتی سے یہ معطلی طالبات کے سڑکوں پر احتجاج کے بعد ہوئی جو واضح طور پر انتظامیہ اور ہراسمنٹ کمیٹی کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

پاکستانمیں کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے پہلا قانون 2010 ء میں منظور کیا گیا تھا۔ مگر قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس قانون میں کچھ سقم موجود ہیں اور کام کی جگہ، ہراسانی، ملازم اور ملازمت کی قانونی تعریف بھی مبہم اور محدود ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہراسانی کی تعریف میں صرف جنسی ہراسانی کو شامل کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

پھر 2022 ء میں وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ایک ترمیمی مسودہ پیش کیا گیا اور اسے منظور بھی کر لیا گیا تھا۔ اس مسودے میں شامل بہت سے اور قابل ذکر نکات کے ساتھ سب سے اہم ہراسانی کی تعریف تھی۔ پہلے قانون میں ہراسانی سے مراد صرف جنسی ہراسانی تھی جبکہ اس نئے قانونی مسودے کے مطابق جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ کوئی بھی ایسا اشارہ، عمل یا فقرہ جو کام کی جگہ پر کسی کے لیے باعث ہتک یا زحمت بنے، ذومعنی الفاظ یا فقرے، کسی کو گھورنا یا سائبر سٹاکنگ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے کسی کی نگرانی کرنا بھی اب ہراسانی کے زمرے میں آئے گا۔

کوئی بھی ایسا عمل یا حرکت جو کسی کے لیے کام کی جگہ پر کام میں رکاوٹ بنے یا کام کرنے والی کی کارکردگی کو متاثر کرے ہراسانی تصور کیا جا سکے گا۔

ایچ ای سی کی جانب سے بھی 2020 ء میں اسی قانون کے تحت تمام یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل کو لازمی قرار دیا گیا اور ان کمیٹیوں میں کم از کم ایک خاتون رکن کی موجودگی بھی لازمی قرار دی گئی۔

لیکن کیا ان ہراسمنٹ کمیٹیوں نے طالبات اور خواتین اسٹاف کے لیے ماحول کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا؟

حال ہی میں فیصل آباد جی سی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ہراسمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کے خلاف اپنی ہراسمنٹ کی درخواست کے حوالے سے وائس چانسلر کی جانب سے بنائی گئی ہراسمنٹ کمیٹی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جانبداری کا اعتراض اٹھایا اور اپنی درخواست وزیراعلٰی مریم نوازکو بھیج دی۔

یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ کیسز سننے والی کمیٹیوں پر جانبداری کا یہ پہلا الزام نہیں بلکہ آج تک کسی کمیٹی اور اس کی رپورٹ پر درخواست گزار کا اعتماد سامنے نہیں آیا۔

دی ریپورٹرز ادارے کی جانب سے یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کمیٹیوں کی کارکردگی اور ہراسگی کے واقعات کی تفصیلات جاننے کے حوالے سے 2024 ء میں ایک رپورٹ پبلش کی گئ ۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر اقتدار کی صرف سات یونیورسٹیز نے اس حوالے سے معلومات دیں اور وہ بھی ایک لمبی قانونی جنگ کے بعد جبکہ پنجاب اور شہر اقتدار کی بہت سی یونیورسٹیز نے معلومات دینے سے مکمل انکار کیا جبکہ وہ قانونی طور پر یہ تمام معلومات دینے کی پابند ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی بڑی یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ کے واقعات تو ہوئے مگر ان کے خلاف کیا کاروائیاں کی گئیں یونیورسٹیز یہ بتانے سے کتراتی رہیں۔ کامسیٹس یونیورسٹی میں 41 ہراسمنٹ کے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے معلومات نا دینے کے لیے ہر حیلہ بہانہ استعمال کیا اور کامیاب رہی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایک فیصلے میں نشاندہی کی کہ کام کی جگہ پر ہراسانی ایک عالمی مسلہ ہے اور پاکستان 146 ممالک میں سے 145 نمبر پر ہے۔

یہ اعدادوشمار ملک میں صنفی عدم مساوات اور ہراسانی کے مسائل کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہاں قابل ذکر ہراسمنٹ کمیٹیوں کی کارکردگی ہے ، کیا ان کمیٹیوں نے کام کی جگہ یا یونیورسٹیز کو طالبات اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا؟ عموما اس کا جواب نہیں میں ملتا ہے ۔ اگر یہ کمیٹیاں غیرجانبدار اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہوتیں تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے۔

برٹش کونسل کی فنڈنگ سے لودھراں پائلٹ پراجیکٹ کے نام سے خواتین کے خلاف تشدد ، کم عمری کی شادی اور مذہبی ہم آہنگی پر کام کرنے والی اس تنظیم کے خلاف ایک خاتون کی جانب سے ان کے جونئیر ملازم کے ہتک آمیز رویے پر شکایت کی گئی جس کی تحقیق کے لیے جن دو خواتین کو ہراسمنٹ کمیٹی کے ممبران کے طور پر متاثرہ خاتون سے ملنے بھیجا گیا وہ ہراسمنٹ قوانین سے مکمل لاعلم تھیں ۔

متاثرہ خاتون نے ان دونوں خواتین کے خلاف بھی درخواست جمع کروائی کہ انہوں نے ناصرف اسے ذہنی اذیت پہنچائی بلکہ اپنے جونئیر مرد ملازم کے الفاظ کو مختلف رنگ دے کر متاثرہ خاتون کو یہ باور کرواتی رہیں کہ وہ غلط ہیں۔ اسی طرح تنزیلہ مظہر ایک قابل ذکر صحافی ہیں اور ان کی ہراسمنٹ کمپلین کے خلاف بھی انہیں سالوں پر محیط لمبی جنگ لڑنا پڑی ۔

پاکستان میں خواتین کی یونیورسٹیز تک پہنچنے کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے جبکہ ملازمتوں میں بھی خواتین مردوں سے کافی پیچھے ہیں اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ خواتین کو محفوظ ماحول کا نا ملنا ہے۔

جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں لاہور نجی کالج ہراسمنٹ کیس کی فل بینچ سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سکریٹری پنجاب کو تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے معاملات کی مکمل انکوائری کا حکم دیا ہے۔ قوانین بھی موجود ہیں، ادارے بھی مگر سوال پھر بھی یہی ہے کہ خواتین کے لیے ماحول کو محفوظ کیوں نہیں بنایا جا سکا۔

ہراسمنٹ کمیٹیوں کو اداروں کے اثرورسوخ سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ ان پر لگے جانبداری کے الزامات ختم ہو سکیں ۔ کمیٹیوں کے ممبران کا تربیت یافتہ ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی بچی ہراسمنٹ کی شکایت کرنے پر مزید ہراساں نا ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہراسمنٹ کمیٹیوں کی ہراسمنٹ کمیٹی کی کارکردگی ہراسانی کے ہراسمنٹ کی کی جانب سے کام کی جگہ خواتین کے حوالے سے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان میں غیرت کے نام پر سیکڑوں مرد و خواتین کو قتل کیے جانے کا انکشاف

کوئٹہ:

بلوچستان میں غیرت کے نام پر سیکڑوں مرد  اور خواتین کو قتل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ 6 برس کے دوران غیرت کے نام پر 232 افراد قتل کیے گئے۔

غیرت کے نام پر قتل کی تفصیلات میں تنظیم کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نصیرآباد میں 73،جعفرآبادمیں 23مردوخواتین غیرت کے نام پر قتل کیے گئے۔

علاوہ ازیں مستونگ 18،ضلع کچھی میں 17افراد سیاہ کاری کی بھینٹ چڑھے۔ جھل مگسی میں 18اور کوئٹہ میں 11مرد وخواتین کاروکاری کی نذر ہوئے جب کہ 2019 میں 52، 2020میں 51افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے۔

اسی طرح سال 2021میں 24،22میں 28افراد،2023میں 24افراد غیر ت کے نام پر قتل کیے گئے ۔ سال 2024میں 33افرادکو سیاہ کاری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

رواں سال اب تک 33افراد غیرت کے نام قتل ہوئے جن میں 19خواتین اور 14مرد شامل ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان میں غیرت کے نام پر سینکڑوں مرد اور خواتین کو قتل کیئے جانے کا انکشاف
  • بلوچستان میں غیرت کے نام پر سیکڑوں مرد و خواتین کو قتل کیے جانے کا انکشاف
  • سینیٹ اجلاس: قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی کیخلاف ہائیکورٹس کے حکم امتناع پر اظہار تشویش
  • فیصل آباد ، چینی کی سرکاری قیمتوں پرسختی سے عملدرآمد کرانے کا فیصلہ
  • سٹینڈرڈ اینڈ پورز گلوبل نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی: معاشی ٹیم کی کارکردگی قابل تعریف، وزیراعظم
  • یو ای ٹی لاہور ، عالمی رینکنگ میں شاندار کارکردگی دکھانے پرمختلف شعبہ جات اور فیکلٹی ممبران کو ایوارڈز سے نوازنے کیلئے تقریب
  • وزیراعلیٰ مریم نواز کی میٹرک میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلباء کو مبارکباد
  • غزہ: حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو تباہ کن حالات کا سامنا، یو این ادارہ
  • جماعت اسلامی کا خیبر پختونخوا میں عوامی کمیٹیوں کے قیام کا باقاعدہ آغاز
  • فیصل آباد: شہریوں کے فنگر پرنٹ چوری کرکے بینک اکاؤنٹ کھلوانے والا گروہ گرفتار