قائد انتشار کی اصلیت اور حقیقت پر ہمیں تو کبھی کوئی شبہ نہیں رہا، روز اول سے یقین واثق ہے کہ یہ شخص پاکستان کادوست نہیں ، یہ کوئی جذباتی یا سیاسی موقف نہیں،معلومات ، شواہد اور موصوف کے اقدامات کی روشنی میں ایک سوچی سمجھی رائے ہے ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ریاست کی غلط پالیسیوں، سیاستدانوں کی مفاد پرستی ،کرپشن، بیوروکریسی کی اقرباء پروری اورلوٹ مار،اشرافیہ کی عیاشیوں اور ملکی وسائل سے کھلواڑ ، عدلیہ کی ناانصافیوں اورحکومتوں کے شاہانہ و متکبرانہ روئیوں کے سبب محروم رہ جانے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دجالی سوشل میڈیا کی یلغار کے زیر اثر زہر کو تریاق سمجھ بیٹھی ہے اور اس فتنے کو نجات دہندہ سمجھنے لگی ہے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت اس شعور سے عاری ہے کہ یہ فتنہ کس قدر ہمہ گیر، تباہ کن اور خطرناک ہے ،یہ کس حد تک سرایت کرچکا ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔ اس امر کا بھی ادراک کم ازکم سیاسی قیادت کو بالکل بھی نہیں کہ قائد انتشار تو صرف ایک مہرہ ہے ، ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں ۔ جب مرض کی شدت کا ہی اندازہ نہیں تو علاج کیسے موثر ہو سکتا ہے؟ جب سے یہ عارضہ ملک کو لاحق ہواہے، اس کا جائزہ لیں تو ایک ابلیسی چکر ہے ،جو عام آدمی کی سمجھ بوجھ سے بالاتر اور حساس اذہان وقلوب کو جکڑ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک شخص یا سیاسی اکائی نہیں بلکہ پورا نظام ہے ، جس نے ہشت پاء کی طرح معاشرے کو اپنے گرفت میں لے رکھا ہے ۔ پہلے عوامی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے، عالمی ماہرین کے تعاون سے حکمت عملی طے کی جاتی ہے پھر مقامی کارندوں کے ذریعے اسے نافذ کیا جاتا ہے اور بعینہِ اسی لمحے انہی کا دوسرا ونگ جو عوامی چہرہ رکھتا ہے ، اپنے ہی اس کرتوت کی مذمت کرتے ہوئے، اس کا الزام اپنے مخالفین پر تھوپنا شروع کردیتا ہے، جس طرح سوات میں کیا گیا، دہشت گردوں کو خود لے کر آئے پولیس پروٹوکول دیا، مراد سعیدالزام فورسز پر لگاتے ہوئے احتجاج کرتا رہا ۔یہ طریقہ واردات ایک طویل تحقیق کا موضوع ہے ، جس کا یہ محل نہیں ۔ البتہ قائد انتشار اور ان کی ٹیم کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا واجب ہے کہ انہوں نے اپنے ہینڈلرز کے ایماء پر ہی سہی ، قومی سلامتی کمیٹی کا انتہائی بھونڈے انداز سے بائیکاٹ کرکے ، اپنےبارے میں ہماری رائے کو توثیق بخشی اور اپنا اصل چہرہ دیکھنےسمجھنے میں قوم کی مددکی ، لہٰذا تھینک یو قائد انتشار ۔
پیرکی شام سے منگل کی صبح تک جتنے یو ٹرن لئے گئے ، اس پر بھی ان کا شکریہ کہ کوئی ذی ہوش تجزیہ کرنا چاہے تو سہولت رہے گی کہ فتنہ انتشار اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ۔ یہ غلامان انتشار ، مجبور محض ہیں ، تاویل بھی مرضی سے نہیں کرسکتے ۔ اجلاس کی دعوت ملنے پر پہلے شرکاء کی فہرست جاری کردی گئی ، امریکہ سےسوشل میڈیا کے مخصوص لونڈوں لپاڑوں کے ذریعہ ہدایات کا ورود شروع ہوا تو پہلےکہا گیا کہ قائد سے ملاقات کروائیں،ورنہ اجلاس میں نہیں آئیں گے۔ صبح جب دیکھا کہ ملاقات کروائےجانے کا امکان ہے تو نیا مطالبہ لے آئے کہ قائد انتشار کو رہا کیا جائے ۔ کیوں بھئی ؟ کس لئے؟ یہ پہلا موقع نہیں جو ثابت کر رہا ہے کہ فتنہ انتشار اپنے قائد سمیت’’کسی کی کٹھ پتلی‘‘ہے ، 26نومبر کو جب فتنے کو کنٹرول کرلیا گیا اور وزیر اعلیٰ کے پی نے اسلام آباد سے دور جا کر مارچ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پریس کانفرنس کا اعلان کیا تو اس وقت بھی وہی امریکی گرینیل کے ہم مشرب وہم شوق بھگوڑے بروئے کار آئے تھے ، وزیر اعلیٰ اور قائد کی اہلیہ کو حکم دیاگیا کہ لاشوں کے انبار کی بات کئے بغیر پریس کانفرنس نہیں ہوگی اور پھر ایسا ہی ہوابھی ۔
ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ فتنہ پاکستان کی بقا کا دشمن ہے ۔یوں تو 2009 میں برطانوی عدالت میں دہشت گرد ہیربیار مری کے حق میں بیان دیتے ہوئے یہ کہنا کہ I’d do the same as terror suspects ، اسے دہشت گردوں کا حامی قرار دینے کو کافی تھا ، لیکن افسوس کہ سہولت کاروں کی عقل پر پتھر پڑگئے یا وہ خود اس ملک دشمن منصوبے کا حصہ تھے کہ اس دوٹوک ملک دشمن بیانیہ کےباوجود اسے قوم پر مسلط کیا گیا ۔ اس کے بعد 2014 میں جب پوری قوم دہشت گردی سے نبرد آزما تھی ، آپریشن ضرب عضب چل رہا تھا ، موصوف کا مشہور زمانہ دھرنا اور چینی صدر کے دورہ کی راہ روکنا بھی کافی ثبوت تھا ، لیکن اقتدار میں آکر سی پیک کو برباد کرنے ، پاکستان کے دوستوں سے ریاست کے تعلقات بگاڑنے کی دانستہ کوششیں ، سرمایہ کاری کی راہ روکنے کی خاطر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے سے لے کر بھارتی حملے پر اس کے پائلٹ کو فوری رہا کرنے اور قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرتی اپوزیشن کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھنے سے لے کر دورہ واشنگٹن کے دوران کشمیر فروشی تک ایک ایک قدم موصوف کی ملک دشمنی کا ثبوت ہے ۔ یہ وہی شخص ہے جو وزیراعظم ہوتے ہوئے ہزاروں دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا،جس نے اپنے دوراقتدار میں کسی ایک بھی شہید کی نمازجنازہ ادا نہیں کی ، جس نے سزا یافتہ 103 دہشت گردوں کو صدارتی حکم سے عام معافی دےکر رہا کروایا اس سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ان پیارے لاڈلے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی میں حصہ لے گا ۔
حکومت کی جانب سے قومی اتفاق رائے کی کوشش ایک احسن سوچ ہو سکتی ہے، لیکن فتنہ انتشار کے اتحادی بلکہ انتشاری اتحاد کے قائد محمود اچکزئی کی پریس کانفرنس کے بعد بھی کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ فتنہ انتشار کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں؟ محمود اچکزئی اور اس کی ہمنوا اس فتنہ انتشار کی پوری قیادت جب یہ کہہ رہی تھی کہ ’’حکومت چاہتی ہےکہ اس اجلاس کے ذریعہ سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کرے ،اور اسے قومی حمائت یافتہ ثابت کرے ، ہم ایسا نہیں کر سکتے ، ہم آپریشن کی حمائت نہیں کر سکتے۔ ‘‘ تو کسی اورثبوت کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ انہوں نے سلامتی سے متعلق اجلاس کا بائیکاٹ کیوں کیا؟ صاف مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد ملک پر حملہ آور ہیں ، ریاست ان کا مقابلہ کرنے جا رہی ہے ، یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم ریاست کے ساتھ نہیں تو سیدھی بات ہے کہ پھر آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں ۔ معاملہ صرف اس پریس کانفرنس تک نہیں ہے ۔ پارٹی (اگرچہ یہ پارٹی نہیں کلٹ ہے ) کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور دیگر نے بار بار اعلان نہیں کیا کہ ’’ قائد نے کہا ہے ، ماہ رنگ بلوچ اور منظور پشتین سے مل کر احتجاج کیا جائے ، باربار اصرار نہیں کیا گیا کہ’’ ہم مہ رانگ اور منظور پشتین کو ساتھ لےکرچلیں گے۔‘‘ اس کے بعداس کلٹ کو ملک دشمن ایجنٹ اور دہشت گردوں کا سہولت کار کیوں نہ کہا جائے ۔یہ لوگ ملک دشمنی میں کس حد تک جا سکتے ہیں ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو روز قبل قاسم سوری نے پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم کی الزام تراشی پر مشتمل گفتگو کا کلپ نہ صرف ٹویٹ کیا بلکہ اس کی تائید کی ۔
وقت آگیا ہے کہ گلی کوچوں میں اور اسمبلی کے ایوانوں میں ان سے سوال کیا جائے ، پوچھا جائے کہ بتائو تم کس کے ساتھ ہو؟ دہشت گردوں کے؟ یا ریاست کے؟ انہیں جواب دینا ہوگا کہ جب بھی کوئی پاکستان پر بھونکتا ہے ، تم اس کے بھونپو کیوں بنتے ہو ؟ تمہارا سوشل میڈیا بی ایل اے کا سہولت کارکیوں ہے ؟ جب پاکستانی فوج لڑ رہی تھی، تم نے کیوں ریاست مخالف مہم چلائی؟ تم نے دشمن کے ہاتھ مضبوط کیوں کیے؟ تم نے پاکستان کے شہداء کی قربانیوں کی توہین کیوں کی؟ سوال صرف انتشاریوں سے نہیں ریاست سے بھی بنتا ہے ، حکومت سے بھی بنتا ہے کہ جب ایک ایک قدم پر یہ فتنہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کی ہمدردیاں دشمنوں کے ساتھ ہیں ، جب ان کی زبانیں ملک کے خلاف اور دہشت گردوں کے حق میں قینچی کی طرح چلتی ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ فتنہ پرور عناصر دندناتے کیوں پھرتے ہیں ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے پریس کانفرنس فتنہ انتشار ملک دشمن کے خلاف کے ساتھ اور اس
پڑھیں:
بھارت کی روایتی الزام تراشی
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پرہونے والے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اگلے روز میڈیا کے سوالات کے جواب میں ترجمان وزارت خارجہ نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پہلگام حملے میں سیاحوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور واقعہ میں ہلاک افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
ادھرمیڈیا رپورٹس کے مطابق اگلے روز ہی پہلگام واقعہ پردہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے سیکیورٹی (CCS) کا ہنگامی اجلاس ہوا۔اس ہنگامی اجلاس کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی کو 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پہلگام حملے میں25 بھارتی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا۔بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ کابینہ کمیٹی کو بریفنگ میں دہشت گرد حملے کے سرحد پار روابط سامنے لائے گئے۔ یہ حملہ یونین ٹیریٹری میں انتخابات کے کامیاب انعقاد اور اقتصادی ترقی کی طرف اس کی مسلسل پیش رفت کے تناظر میں ہوا ہے۔دہشت گردانہ حملے پر کابینہ کمیٹی نے سندھ طاس آبی معاہدہ معطل کرنے سمیت اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ کے مطابق اٹاری چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کر دیا جائے گا۔ بھارتی شہری جو پاکستان گئے ہیں ‘وہ یکم مئی 2025 سے پہلے اس راستے سے واپس آ سکتے ہیں۔سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت بھارت میں موجود پاکستانی شہری 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑ دیں۔پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت ہندوستان آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ تصور ہوں گے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی، ملٹری، بحری اور فضائی مشیروں کو پرسننا نان گراٹا (ناپسندیدہ) قرار دے کر انھیں ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے۔
بھارت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی، بحریہ، فضائی مشیروں کو واپس بلائے گا۔ متعلقہ ہائی کمیشنز میں یہ آسامیاں کالعدم ہوں گی۔ دونوں ہائی کمیشنز سے سروس ایڈوائزرز کے پانچ معاون عملے کو بھی واپس لے لیا جائے گا۔ہائی کمیشنوں کی مجموعی تعداد کو یکم مئی 2025 تک مزید کم کر کے 55 سے 30 تک لایا جائے گا۔بھارتی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انڈین حکام نے پہلگام حملے میں بچ جانے والوں کی مدد سے تین مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے اور ان کے نام اورعرفیت جاری کر دیے ہیں۔ ادھر بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ایسی کسی بھی دہشتگردانہ کارروائیوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔ ان حملوں کا زوردار اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔
پہلگام کے واقعہ کے سلسلے میں انڈین حکومت ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ضروری اور حالات کے مطابق ہو گا۔بھارتی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم صرف ان لوگوں تک نہیں پہنچیں گے جنھوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے ہم ان تک بھی پہنچیں گے جنھوں نے پس پردہ بھارت کی سرزمین پر ایسی سازشیں رچی ہیں۔بھارتی کانگریس پارٹی کے رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے پہلگام حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمے داری لینی چاہیے۔
بھارتی حکومت نے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں ابھی باقاعدہ طور پر تحقیقات مکمل نہیں کی ہیں۔ نا مکمل یا ابتدائی نوعیت کی کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی بڑا یا حتمی فیصلہ کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ پہلگام حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کے نائب صدر بھارت میں موجود تھے۔
اس حملے کے منصوبہ سازوں کے کیا مقاصد ہیں ‘ان کے بارے میں فوری طور پر رائے قائم کرنا درست نہیں ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی ایک لمبی تاریخ ہے ‘ اس پس منظر کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے ابتدا میں ہی پاکستان پر الزام تراشی کا آغاز کر دیا۔ بھارتی میڈیا کا یہ طرز عمل صحافتی اور ابلاغی اخلاقیات اور اصولوں کے برعکس ہے‘ بھارت کے بعض نام نہاد تجزیہ نگار جن کا ریکارڈ ہی بے تکی اور بے مقصد گفتگو کرنے سے عبارت ہے‘ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پاکستان پر انگلی اٹھانی شروع کر دی۔ اس قسم کی گفتگو مسائل کو حل کرنے کی بجائے زیادہ پیچیدہ بناتی ہے اور عوام کو کنفیوژ کرتی ہے۔
پاکستان کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس واقعہ میں مارے جانے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی اگلے روز کہا کہ وہ کشمیر واقعہ میں مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ بھارت نے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے کوئی شواہد نہیں دیے اور اس طرح بغیر شواہد غصہ نکالنا غیر مناسب ہے،بھارت کے اعلانات میں ناپختگی اور غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔
بدقسمتی سے بھارت ہر واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بلیم گیم پاکستان کی طرف ڈالنے کی کوشش کی گئی، اگر انڈیا کے پاس شواہد ہیں تو انھیں سامنے لائے۔پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے سے متعلق بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، جو دہشت گردی کا شکار ہیں وہ کیسے دہشت گردی کو فروغ دیں گے۔
انھوں نے کہا پاکستان کی افواج ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، ہم دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔وزیر دفاع نے کہا پہلگام واقعہ میں فالس فلیگ آپریشن کی بات کو بالکل مسترد نہیں کیا جاسکتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال اٹھایا کہ بھارت کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں ہے تو بھارتی فوج سے بھی پوچھنا چاہیے، کہ اگر لوگ مارے جا رہے ہیں تو وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا بھارتی حکومت پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے، صرف الزام لگانے سے ذمے داری سے جان نہیں چھڑا سکتے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے جو سوالات اٹھائے ہیں ‘ وہ بھارت میں بھی اٹھائے جا رہے ہیں‘ سیکیورٹی لیپس کی باتیں بھارت کے دانشور اور عوامی حلقے بھی کر رہے ہیں ‘ویسے بھی پہلگام کنٹرول لائن سے خاصی دور جگہ ہے ‘یہ جگہ خاصی محفوظ بھی سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس جگہ ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے‘ یوں دیکھا جائے تو سیکیورٹی لیپس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ اتنی اہم جگہ پر جہاں غیر ملکی اہم شخصیات بھی آتی ہیں ‘ پانچ چھ دہشت گرد جدید اسلحہ لے کر کیسے سرعام کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بھارت کو اس پہلو پر لازمی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ جنوبی ایشیا میں ایسے گروہ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان فوجی تصادم کا شکار ہو جائیں‘ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں ملکوں میں موجود ہیں اور ایک دوسرے سے رابطے میں بھی ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام بھی اسے نا پسند کرتے ہیں۔ دہشت گردی پاکستان کے لیے بھی وبال جان بنی ہوئی ہے ‘ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور اپنے ملک میں نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے‘ بھارتی میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا ہے۔ پاکستان کا موقف تو واضح ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور وہ اب تک دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔
پاکستان نے بھی بھارت کے اقدامات کا جواب دیا ہے ‘پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی حدود پر پابندی لگا دی ہے ‘پاکستان کے راستے تجارت معطل کر دی ہے۔ بھارت نے پانی کا بہاؤ روکا یا رخ موڑا تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے یکطرفہ معطلی کے بھارتی اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو مسکت جواب دے دیا ہے۔ بھارتی قیادت کو معاملات کو زیادہ بگاڑنا نہیں چاہیے بلکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے اس خطے میں دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو گا اور قیام امن کا بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔کشیدگی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں۔