جارج گلیزمین کی رہائی میں قطر نے اہم کردار ادا کیا، جس نے حالیہ ملاقات کے دوران طالبان سے مذاکرات میں کامیابی حاصل کی۔ اسلام ٹائمز ۔ افغان عبوری حکومت اور امریکا کے درمیان برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے، دو سال سے افغانستان میں قید امریکی شہری جارج گلیزمین کو رہا کردیا گیا ہے اور وہ اب امریکا روانہ ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قطر اور امریکا کے درمیان ان کی رہائی کے لیے کئی ہفتوں تک مذاکرات جاری رہے جس کے نتیجے میں طالبان حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے تحت انھیں رہا کیا۔   قطر نے جارج گلیزمین کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا جس نے حالیہ ملاقات کے دوران طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی حاصل کی۔ امریکی نمائندہ خصوصی ایڈم بوہلر اور افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے بھی طالبان حکام سے ملاقاتیں کیں جن کی تصاویر افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے جاری کیں۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ تصویر میں یرغمالیوں کے امور کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ایڈم بوہلر اور افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد طالبان حکام سے ملاقات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

زلمے خلیل زاد نے گلیزمین کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "آج کا دن خوشی کا ہے۔" ہم نے امریکی شہری جارج گلاسمین کی رہائی کو ممکن بنایا جو دو سال سے کابل میں قید تھے۔ طالبان حکومت نے انہیں امریکی صدر اور عوام کے لیے جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کیا۔   66 سالہ جارج گلیزمین کو طالبان نے دسمبر 2022 میں گرفتار کیا تھا۔ وہ افغانستان کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کو دیکھنے کے لیے پانچ روزہ دورے پر آیا تھا لیکن اسے حراست میں لے لیا گیا۔ امریکی حکام نے انہیں ستمبر 2023 میں "غلط طور پر حراست میں لیا گیا فرد" قرار دیا۔   گلیزمین کے اہل خانہ اور امریکی سینیٹرز کے مطابق انہیں انتہائی سخت حالات میں رکھا گیا تھا۔ انہیں کئی مہینوں تک زیر زمین رکھا گیا، قونصلر آنے سے انکار کیا گیا اور انہیں صرف محدود تعداد میں فون پر اپنے اہل خانہ سے بات کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کی صحت بھی خراب ہو رہی تھی اور ان کی اہلیہ کے مطابق ان کے چہرے پر رسولی تھی، ان کی بینائی متاثر ہو رہی تھی اور جسم پر زخم بن رہے تھے۔   امریکی شہریوں کی رہائی کا سلسلہ گلیزمین 2024 میں افغانستان سے رہا ہونے والے تیسرے امریکی شہری ہیں۔ اس سے قبل جنوری میں ریان کاربیٹ اور ولیم میک اینٹی کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور صدارت کے آخری لمحات میں طے پایا تھا جس کے تحت طالبان قیدی خان محمد کو امریکا سے رہا کیا گیا تھا۔   اگست 2022 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے، قطر افغانستان میں امریکی نمائندہ ملک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو آسان بناتا ہے۔   گلیزمین کی رہائی کو امریکا اور طالبان حکومت کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت قرار دیا جا رہا ہے تاہم ایک اور امریکی شہری محمود حبیبی تاحال افغانستان میں قید ہیں اور ان کی رہائی کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان میں جارج گلیزمین امریکی شہری کے درمیان رہا کیا کے لیے

پڑھیں:

اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ

وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔

دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • امریکی کانگریس مین کا ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
  • امریکی رکن کانگریس جیک برگ مین نے بھی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کردیا
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • امریکی رکن کانگریس جیک برگمین کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے