قومی یکجہتی محض تقریبات اور بیانات تک محدود نہیں ہونی چاہیے، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
لاہور میں تقریب سے خطاب میں سربراہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کا کہنا تھاکہ ریاست عوام کا اعتماد بحال کرے اور پاراچنار کو دہشت گردوں کے تسلط سے آزاد کروائے، پاراچنار کے عوام نے ریاستی شرائط تسلیم کیں، شیعہ سنی قیادت نے یکجہتی دکھائی، مگر راستے تاحال بند ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں اپنے خطاب کے دوران اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ پاراچنار گزشتہ کئی ماہ سے دہشتگردوں کے نرغے میں ہے۔ شہری محصور ہیں، راستے مسدود ہیں، اور رمضان المبارک میں بھی چھ سے آٹھ لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی، بشمول راشن، ایندھن اور طبی سہولیات، مکمل طور پر ناپید ہیں۔ یہ صورتِحال تاریخی شعبِ ابی طالب کی سختیوں کی یاد دلاتی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان کی مضبوط ریاست اپنی ہی عوام کو ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کروانے میں ناکام نظر آتی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا قومی یکجہتی محض رسمی تقریبات اور بیانات تک محدود ہے؟ اگر ریاست چاہتی ہے کہ عوام اس پر اعتماد کریں، تو اسے اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا، ان کے مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ریاست واقعی ان کی اپنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاراچنار کے عوام نے ریاستی شرائط تسلیم کر لیں، معاہدوں پر دستخط ہو چکے اور شیعہ و سنی قیادت نے یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا، لیکن اس کے باوجود راستے ہنوز بند ہیں، تعلیمی ادارے مقفل ہیں، تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں، اور رمضان میں افطار کیلئے کھجور تک دستیاب نہیں۔ ریاست عوام کے زخموں پر مرہم رکھے، ان کے اعتماد کو بحال کرے، اور پاراچنار کو دہشتگردوں کے تسلط سے آزاد کرائے۔ بند راستے فوری طور پر کھولے جائیں، معمولاتِ زندگی بحال کیے جائیں، اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا: وزیرِاعلیٰ بلوچستان
---فائل فوٹووزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہتھیار اٹھا لیے جائیں، آئین پاکستان ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا درس دیتا ہے اور اس دائرے میں رہتے ہوئے بات کی جائے تو ہر مسئلے کا حل ممکن ہے، بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا۔
کوئٹہ میں ینگ پارلیمنٹیرین فورم پاکستان کی صدر و رکن قومی اسمبلی سیدہ نوشین افتخار اور جنرل سیکریٹری، ایم این اے نواب زادہ میر جمال خان رئیسانی کی قیادت میں وفد سے گفتگو کرتے ہوئے میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو شاہی جرگے نے اکثریتی رائے سے منظور کیا تھا، اس کے برعکس یہ بیانیہ کہ بلوچستان کا زبردستی الحاق ہوا حقائق سے انحراف ہے، ہمیں بلوچستان سے متعلق اس تاثر کو جو باہر رائج ہے، درست معلومات اور حقائق سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست مخالف کوئی بھی بیانیہ، چاہے کتنا ہی مقبول ہو، محب وطن افراد کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بیڈ گورننس دہشتگردی کو تقویت جبکہ اچھی طرزِ حکمرانی ریاست کو مستحکم بناتی ہے، ہم بلوچستان میں گڈ گورننس کے فروغ کے لیے ہر سطح پر شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنا رہے ہیں۔
اس موقع پر وفد کے دیگر ارکان نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ بلوچستان کا مستقبل روشن ہے اور ریاست مخالف عناصر کو کامیابی نہیں ملے گی۔
اس سے قبل وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’چیف منسٹر یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروگرام‘ کے تحت 5 برسوں میں 30 ہزار نوجوانوں کو بیرون ملک روز گار فراہم کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال جون تک پروگرام کے پہلے مرحلے میں 150 نوجوان سعودی عرب جائیں گے، اس منصوبے کے لیے صوبائی حکومت نے ایک ارب 28 کروڑ روپے کی ادائیگی کردی ہے۔