WE News:
2025-04-25@11:25:59 GMT

سائیکل سڑکوں پر کم، یادوں میں زیادہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

سائیکل سڑکوں پر کم، یادوں میں زیادہ

آجا نی بہہ جا سیکل تے

آجا نی بہہ جا سیکل تے

آجا نی بہہ جا سیکل تے

پچیس برس پرانا یہ گیت آج بھی سنیں تو دل جھوم جاتا ہے۔ محبوب سے پیار کے اظہار کے لیے ابرار الحق نے سائیکل کا کیا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ پچارو یا کرولا نہیں، گلوکار نے اپنی محبت کی کہانی آگے بڑھانے کے لیے سائیکل کا انتخاب کیا۔

سائیکل ایک ہلکی پھلکی سواری ہے، یہ یاری خوب نبھاتی ہے، نہ پیٹرول کا خرچہ اور نہ ہی چالان کا ڈر،  یہ بے ضرر سواری ماحول کے لیے بھی نقصان دہ نہیں۔

سائیکل چلانے میں ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اسے سیکھنا اتنا مشکل نہیں، عام طور پر بچوں کا بچپن اسی سواری سے ہی شروع ہوتا ہے اور اگر کوئی سائیکل سیکھ لے تو پھر اس کے لیے اسے بھولنا مشکل ہوتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ سائیکل کے استعمال میں کمی کی ہے۔ بچے تو اب بھی سائیکل کی فرمائش کرتے ہیں،  مگر یہ شوق ہی رہتا ہے، ان کی عادت نہیں بنتی۔

آج کل تو نوعمر بچے بھی سائیکلوں پر کم موٹرسائیکلز پر زیادہ نظر آتے ہیں، دو تین دہائیوں پیچھے چلیں تو سائیکل نہ ہونے کی صورت میں بچے ایک، دو روپے دے کر سائیکل کرائے پر لیتے تھے اور وہ آدھ یا ایک گھنٹہ ان کے لیے کسی عیاشی سے کم نہیں ہوتا تھا۔

بچپن کی یادوں پر مزید دستک دیں تو کئی خوشگوار جھونکیں آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ خوبصورت گھنٹی، ٹوکری اور اگلے حصے پر ایک چھوٹی سی گدی، سائیکل کی شان بڑھاتی تھیں، وقت بدلا تو الیکٹرک بیلز نے پرانی گھنٹیوں کی جگہ لی۔

کس کی سائیکل اچھی ہے، بچوں میں اس کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ اب تو وقت بدل گیا ہے مگر پہلے ڈاکیا، دودھ فروش، چوکیدار یا پھر دیگر ملازم پیشہ افراد سائیکل کا ہی استعمال کرتے تھے۔

سائیکل انتخابی مہم کا بھی حصہ بنتی رہی ہے۔ ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد کو سائیکل کا انتخابی نشان ملا، سائیکل کا انتخابی نشان پہلے مسلم لیگ جونیجو کے پاس بھی رہا، مسلم لیگ (ق) کو سائیکل کا نشان دیا گیا جو اب بھی اسی کے پاس ہے۔

ماضی میں جائیں تو جنرل ضیا الحق سے اس معصوم سواری کا تعلق ملتا ہے، 80 کی دہائی میں انہوں نے سادگی کو فروغ دینے کے لیے ایک دن کے لیے سائیکل چلائی۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی سائیکل کی اہمیت پر زور ڈالتے رہے اور اس حوالے سے وہ اکثر نیدرلینڈز کے وزیراعظم کی مثال بھی دیا کرتے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس جانے کے لیے وہ ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے تھے۔

سائیکل چلائیں، اپنی صحت بھی بہتر بنائیں، یہ سواری چلانے سے دل، خون کی نالیاں اور پھیپھڑے سب کی مشق  ہوتی ہے، دل کے دورے اور شوگر کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے، یہ سواری ذہنی دباؤ بھی کم  کرتی ہے اور ذہنی بیماریاں  بھی کم کم ہی آپ کے قریب آتی ہیں۔

سائیکل چلانے سے ٹانگیں مضبوط ہوتی ہیں، وزن بھی کم ہوتا ہے، ایک تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک گھنٹہ مسلسل سائیکل چلانے سے 300کے قریب کیلوریز جلائی جا سکتی ہیں۔

ایک اور تحقیق بتاتی ہے کہ باقاعدگی سے سائیکل چلانے سے کینسر کی کچھ اقسام میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ فن لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ روزانہ تیس منٹ سائیکل چلانے والوں میں شوگر کا امکان  ان افراد کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہوتا ہے، جو کہیں جانے کے لیے سائیکل کا استعمال نہیں کرتے۔

گئے وقتوں میں بینکس گاڑیوں نہیں سائیکل کے لیے آسان اقساط کے اشتہار دیا کرتے تھے۔ ادب میں بھی سائیکل کا ذکر زیادہ ہی ملتا تھا۔ دنیا بھر میں سائیکلنگ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں، ٹور ڈی فرانس سب سے زیادہ مشہور ہے، کئی مرحلوں پر مشتمل اس ریس میں سائیکلسٹ 3 ہزار 500 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔

دنیا میں کھیلوں کے سب سے بڑے میلے اولمپکس میں بھی سائیکلنگ کے 22 مقابلے ہوتے ہیں اور 66 تمغے جیتنے کا موقع ہوتا ہے۔ اولمپکس میں سائیکلنگ کے مقابلے 1896 میں کھیلوں کے اس میلے کے آغاز سے ہی شامل ہیں۔

موجودہ دور میں رائٹ برادرز سے بھی کم لوگ ہی واقف ہیں، ہوائی جہاز بنانے کا سہرا ان دونوں بھائیوں کو ہی جاتا ہے، یہ دونوں بھائی نہ صرف سائیکلیں فروخت کرتے تھے، بلکہ انہیں ان کی مرمت میں بھی مہارت تھی۔

سائیکل کا استعمال تو کم ہوا ہے مگر اقوام متحدہ کی نظر میں اس کی اہمت آج بھی قائم و دائم ہے۔ اقوام متحدہ نے 15 مارچ 2022 کو ایک قرارداد منظور کی، جس کے نتیجے میں ہر سال 3 جون کو دنیا بھر میں سائیکل کا دن منایا جاتا ہے اور اس بھولی بچھڑی سواری کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

ان ممالک کی بات کریں، جہاں سائیکل چلائی جاتی ہے تو اس فہرست میں نیدرلینڈز سب سے اوپر ہے، جہاں سائیکلوں کی تعداد تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ ہے۔ جو اس ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

ڈنمارک میں بھی سائیکل چلانے والے کم نہیں، ایک اندازے کے مطابق، یہاں روزانہ 40 فیصد افراد روزانہ سائیکل چلاتے ہیں، دیگر یورپین ممالک جیسے جرمنی، فرانس، بیلجیم اور سوئٹزرلینڈ میں بھی سائیکل سوار کم نہیں۔

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور چین میں بھی سائیکل دوست افراد بہت ہیں۔ اکثر ممالک میں تو سڑکیں بھی سائیکل سواروں کے لیے خاص  طور پر بنائی گئی ہیں، اس کے علاوہ ان کی پارکنگ اور اس سواری کے لیے مختص لینز بھی موجود ہیں۔

چین میں دنیا کی تقریباً 50 فیصد سائیکلیں بنائی جاتی ہیں۔ بھارت سے بھی دنیا بھر میں سائیکلیں برآمد کی جاتی ہیں۔

ممتا تیواری کی ایک خوبصورت نظم کا یہ شعر پڑھیے اور ساتھ ساتھ ماضی کی سیر بھی کیجیئے؛

پوسٹ مین کی سائیکل کی گھنٹی،

میرے دل کی دھڑکنیں بڑھا دیتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: میں بھی سائیکل سائیکل چلانے میں سائیکل سائیکل کا سائیکل کی کرتے تھے چلانے سے کے لیے ا ہوتا ہے جاتا ہے ہے اور بھی کم تے ہیں

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کسی قتل اور زنا کے مقدمے میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں، یہ کس نوعیت کا کیس ہے جس میں جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ملزم کے 3 ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کر رہا، جسٹس ہاشم نے کہا کہ زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کر رہا ؟۔ بعد ازاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن کا ٹورنٹو میں انتقال

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • بابر یا کوہلی؛ کنگ وہی ہوتا ہے جو سب پر حکومت کرے
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے: شاہد خاقان عباسی
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا جسمانی ریمانڈ کا سوال پیدا نہیں ہوتا: عدالت
  • کراچی؛ سپرہائی وے میں ڈاکوؤں نے ایک اور شہری کی جان لے لی