پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے ویزا کا حصول مشکل کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2025ء) متحدہ عرب امارات میں پہلے سے کام کرنے والے بعض پاکستانی شہریوں کا ماننا ہے کہ پاکستانیوں کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کے ذریعے یو اے ای حکام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مبینہ کوششیں ویزا پابندیوں کی بڑی وجہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ متحدہ عرب امارات میں ایسی سرگرمیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے یو اے ای کے ساتھ اس کی خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستانی شہریوں پر کوئی سرکاری پابندی عائد نہیں کی ہے۔
پاکستانی شہری متحدہ عرب امارات کیوں نہیں جا پا رہے؟
وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے نئی پانچ سالہ ویزہ پالیسی متعارف کرائی ہے، جس میں اضافی شرائط شامل کی گئی ہیں۔
(جاری ہے)
نظرثانی شدہ ویزہ پالیسی کے تحت درخواست گزار کو آمد و رفت کے ٹکٹ، ہوٹل کی بکنگ، کسی بھی جائیداد کی ملکیت کا ثبوت، اور تین ہزار اماراتی درہم کی پیشگی ادائیگی کی رسید جمع کرنی ہو گی۔ تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مستردتمام شرائط پوری کرنے کے باوجود جن افراد کی ویزہ درخواست مسترد کردی گئی، ان کا کہنا ہے کہ اگر امارات نئے شرائط کے تحت ویزے جاری کرنا شروع کر دے تو بھی یہ ایک بڑی سہولت ہو گی۔
کیونکہ وہ گزشتہ ایک سال سے کاروباری مقاصد کے لیے بھی امارات کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستانی مزدوروں کے 'نامناسب رویے' پر خلیجی ملکوں کی شکایت
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق، سال دو ہزار چوبیس کے دوران متحدہ عرب امارات نے تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد کی ہیں۔
ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر مینیجر کے عہدے پر فائز مقداد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چونکہ ہماری کمپنی ملٹی نیشنل ہے، اس لیے ہمیں مختلف ممالک میں ایونٹس کا انعقاد کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں ہم نے متحدہ عرب امارات میں ایک ایونٹ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس میں دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے افراد کو شرکت کرنی تھی، لیکن شرکاء کی بات تو دور، کمپنی کی مینجمنٹ کو بھی یو اے ای کا ویزہ نہیں ملا، جس کی وجہ سے ہمیں ایونٹ منسوخ کرنا پڑا اور اب ہم اسے کسی اور ملک میں منعقد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔اپنی کمپنی کا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مقداد نے کہا، "میری کمپنی ایک بڑی کمپنی ہے، اور جہاں تک بینک اسٹیٹمنٹس اور دستاویزات کا تعلق ہے، ہر چیز مکمل تھی، لیکن اس کے باوجود ہمیں ویزہ نہیں ملا، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ویزہ حاصل نہ کر سکے جو ملینز میں تنخواہ لے رہے ہیں۔
" ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکلوہ افراد جنہیں ویزہ مسترد ہونے کا تجربہ ہو چکا ہے، کہتے ہیں کہ اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک کمپنی کی بات نہیں جسے اپنا ایونٹ منسوخ کرنا پڑا، بلکہ کئی دیگر تنظیموں کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ظفر بھٹہ، جو پاکستان میں ایک معروف انگریزی اخبار کے صحافی ہیں، کہتے ہیں، "میں پہلے بھی متحدہ عرب امارات جا چکا ہوں، لیکن دو ہزار تئیس کے آخر سے یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
میں نے سال دو ہزار تئیس کے آخر میں ویزہ کے لیے درخواست دی، جو مسترد ہو گئی۔ حال ہی میں، مجھے یو اے ای میں ایک ایونٹ میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن منتظمین نے بتایا کہ وہ خود بھی ویزہ حاصل نہیں کر سکے، اس لیے ہمارے لیے ویزہ کے لیے اپلائی کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بچا، کیونکہ اب وہ ایونٹ اس مقام پر منعقد نہیں ہو رہا تھا۔"نہ صرف متحدہ عرب امارات کا وزٹ ویزہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے بلکہ وہ ملک، جو پاکستانیوں کے لیے روزگار کی تلاش کا ایک پسندیدہ مقام تھا، نے دو ہزار تئیس کے آخر سے پاکستانیوں کو ملازمتیں دینا بھی تقریبا بند کر دی ہیں۔
ایک پاکستانی، جس کی یو اے ای میں رجسٹرڈ کمپنی ہے اور وہ وہاں کے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ویزہ پراسیسنگ کے کام میں بھی شراکت دار ہے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو ہزار تئیس سے وہ پاکستانی جو وزٹ ویزے پر یو اے ای میں موجود تھے اور نوکریاں تلاش کر رہے تھے، انہیں واپس پاکستان جانا پڑا کیونکہ یو اے ای کی کمپنیوں نے پاکستانیوں کو ملازمت دینا بند کر دیا، بلکہ انہیں انٹرویوز کے لیے بلانا بھی چھوڑ دیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی سرکاری نوٹیفکیشن کے تحت ایسا ہوا ہے، تو انہوں نے کہا، "یو اے ای ایک مختلف انداز میں کام کرتا ہے، جہاں بہت سی چیزیں باضابطہ لکھی جاتی ہیں، وہیں کئی احکامات تحریری شکل میں جاری نہیں کیے جاتے۔ حکومتی ادارے خود جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ جب کچھ پاکستانیوں کو نوکری دینے والی کمپنیوں کی جانب سے دائر کردہ ورک ویزا درخواستیں مسترد ہوئیں، تو مارکیٹ کو پتہ چل گیا کہ اب پاکستانیوں کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔
" پاکستانیوں کے حوالے سے یو اے ای کے تحفظاتوزارت خارجہ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ یو اے ای کو پاکستانیوں کے ویزہ درخواستوں اور پہلے سے جاری ویزوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ ان میں جعلی ڈگریاں جمع کرانا، ملازمت کے جعلی معاہدے، اور ویزہ مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی قیام کے واقعات شامل ہیں۔ کچھ پاکستانی شہری سیاسی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
یو اے ای میں موجود ایک کمپنی کے مالک، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ اس سے ان کا کاروبار فوری طور پر متاثر ہو سکتا ہے، نے کہا، "یہ مسائل کسی حد تک پہلے سے موجود تھے، بھیک مانگنے کا مسئلہ واقعی ایک حقیقت ہے جسے حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانی حکام کے سامنے اٹھایا تھا، لیکن ہم یو اے ای میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔
یہاں کچھ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، جسے یو اے ای اپنی روایت کے مطابق باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کرتا۔"انہوں نے مزید کہا، "ہاں، ایک چیز جو یو اے ای حکام کے لیے زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے اور جس کا وہ ذکر بھی کر چکے ہیں، وہ پاکستانی شہریوں کی یو اے ای میں رہائش کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے۔ پاکستانی افراد یو اے ای حکام پر مبینہ طور پر مخصوص بین الاقوامی اتحادوں کے حوالے سے الزامات لگاتے ہیں اور انہیں بدنام کرتے ہیں۔
عثمان چیمہ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متحدہ عرب امارات ویزہ حاصل کرنا پاکستانیوں کے پاکستانیوں کو ویزہ درخواست یو اے ای میں حال ہی میں کو بتایا بتایا کہ نہیں کی کے لیے
پڑھیں:
غزہ: حصول خوراک کی کوشش میں 67 مزید فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں نے بتایا ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی پھیلی ہے جہاں گزشتہ روز خوراک کے حصول کی کوشش میں 67 افراد اسرائیل کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، گزشتہ روز ہلاک ہونے والے لوگ اسرائیل کے ٹینکوں، نشانہ بازوں اور دیگر کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 25 ٹرکوں پر مشتمل امدادی قافلہ زکم کے سرحدی راستے سے شمالی غزہ میں داخل ہوا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے ٹرکوں سے خوراک اتارنے کی کوشش کی تو ان پر فائرنگ شروع ہو گئی جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ ہلاک و زخمی ہونے والے لوگ اپنے اور بھوک سے ستائے خاندانوں کے لیے صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
(جاری ہے)
یہ واقعہ اسرائیل کی اس یقین دہانی کے باوجود پیش آیا کہ غزہ میں امداد کی تقسیم کے حالات کو بہتر بنایا جائے گا اور امدادی قافلے کے ساتھ کسی بھی مرحلے پر مسلح فوج موجود نہیں ہو گی۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ کے تمام لوگ موت کے گھیرے میں ہیں جہاں ان پر بم برس رہے ہیں جبکہ بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ادارے کے طبی مراکز پر معالجین اور طبی عملہ روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو بھوک سے ہلاک ہوتا دیکھتے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس زندگی کو تحفظ دینے کے لیے درکار وسائل نہیں ہیں۔
دیرالبلح سے انخلا کے احکاماتوسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں اسرائیل کی جانب سے دیے جانے والے انخلا کے احکامات نے 50 تا 80 ہزار لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اس علاقے سے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا گیا ہے۔'انروا' کے مطابق، ان احکامات کے تحت لوگوں کو دیرالبلح سے سمندر کے کنارے تک تمام خالی کرنا ہوں گے۔ اس طرح اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کے لیے غزہ میں محفوظ اور موثر طور سے اپنی سرگرمیاں انجام دینا ممکن نہیں رہےگا۔ علاقے میں اقوام متحدہ کا عملہ بہت سی جگہوں پر موجود ہے جس کے بارے میں متحارب فریقین کو مطلع کر دیا گیا ہے اور ان لوگوں کو جنگی کارروائیوں سے تحفظ ملنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے ٹینک شہر کے جنوبی اور مشرقی حصوں کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنائے گئے بعض یرغمالی ممکنہ طور پر موجود ہو سکتے ہیں۔
بقا کی جدوجہداس وقت غزہ کی 21 لاکھ آبادی ایسی جگہوں پر محدود ہو کر رہ گئی ہے جہاں ضروری خدمات وجود نہیں رکھتیں جبکہ اس میں بہت سے لوگ پہلے ہی کئی مرتبہ بے گھر ہو چکے ہیں۔
ہنگامی امدادی امور کے لیے 'انروا' کی اعلیٰ سطحی عہدیدار لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس فرار کی کوئی راہ نہیں۔ نہ تو وہ غزہ کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ غزہ میں خوراک دستیاب نہیں ہے اور پینے کا صاف پانی بھی بہت معمولی مقدار میں میسر ہے۔ بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی کا شکار ہیں جو اپنے والدین کی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو رہے ہیں۔ علاقے میں بمباری مسلسل جاری ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر امداد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔