بلوچستان کے حالات کی سنگینی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
بلوچستان کے حالات بہت سنگین ہیں ، اس کا ادراک دیگر صوبوں کے لوگوں کو بہت زیادہ نہیں ہوسکتا۔جو وہاں کے حالات کو جانتے ہیں، وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں حالات کیا ہیں۔بلوچستان محض ایک صوبائی نہیں بلکہ قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے فیصلہ ساز بلوچستان کو صوبائی فریم ورک میں دیکھ رہے ہیں جو حالات کو مزید سنگین بنا رہا رہا ہے۔بلوچستان کا مسئلہ محض امن وامان کا نہیں ہے بلکہ دہشت گردی جیسے سنگین بحران کا سامنا ہے۔وفاقی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
ابھی تک ہماری پالیسی بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے جڑی ہوئی ہے۔ہم نے بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے علیحدگی پسندوں کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں لیکن اس میں کوئی بڑی کامیابی ہمیں نہیں مل سکی ہے اور بدستور بلوچستان کا صوبہ دہشت گردی کا شکار ہے۔
اس صوبے کی دہشت گردی نے مجموعی طور پر ملک کے جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کیا ہے وہیں قومی سلامتی یا سیکیورٹی کے تناظر میں ہمیں مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بلوچستان کے حالات کو دیکھیں تو سب سے بڑا المیہ وہاں اختیار کی جانے والی سیاسی حکمت عملیوں سے جڑا ہوا ہے۔ صوبے میں مصنوعی سیاسی بندوبست کے کھیل نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔
بلوچستان میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت جو ووٹ کی بنیاد پر اور جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے ۔اس وقت بھی بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ان میں بلوچستان میں موجود سیاسی لوگوں کا کردار بہت کم دیکھنے کو نظر آتا ہے۔
ایک طرف علیحدگی پسند عناصر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی ریاستی اور وفاقی سطح پر حکومت کی پالیسیوں پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔وفاقی حکومت کی پالیسی بنیادی طور پر رد عمل کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے اور ایک مستقل پالیسی اور اعتماد کا بحران ہمیں بلوچستان کے تناظر میں وفاقی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سر فہرست ہیں ان کا بھی کوئی موثر کردار بلوچستان کے حالات کے تناظر میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔بلکہ بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کو ان قومی جماعتوں سے بہت گلہ ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کے مختلف ادوار میں بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے طاقت کا ضرور استعمال کیا جائے اور بالخصوص ان لوگوں کے خلاف جو ریاست کی رٹ کو نہ صرف چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا شامل نہیں ہے اور ہم کیوں ان کی مدد اور مشاورت کے ساتھ آگے نہیں بڑھنا چاہتے؟
بلوچستان کی سیاسی قیادت کے جو بھی سیاسی تحفظات ہیں ان کو دور کرنا ریاستی اور حکومتی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر بلوچستان کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں محمود خان اچکزئی،سردار اختر مینگل،مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے لوگوں کی گفتگو سننی چاہیے اور ان کے جو بھی تحفظات ہیں ان کو دور کیا جانا چاہیے۔اسی طرح بلوچستان میں موجود لوگوں کے اور بالخصوص نوجوانوں کے جو بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں ان کی فراہمی ریاست اور حکومتی ترجیحات میں اولین ہونی چاہیے۔مگر پہلے یہ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ صوبے کی صورتحال اچھی نہیں ہے ۔
ا صوبے میں سیاسی اور جمہوری مقدمہ مضبوط بنانا بھی ہماری سیاسی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔غیر سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی کوئی بھی پالیسی چاہے وہ طاقت کی بنیاد پر ہو یا مصنوعی لوگوں کے ساتھ اختیار کی جائے ہمیں کسی بڑی کامیابی کی طرف نہیں لے کے جا سکے گی۔
بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے معاملات کو محض بیان بازی کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔بلوچستان کے حالات غیر معمولی بھی ہیں اور ان غیر معمولی سطح کے حالات میںہمیں غیر معمولی اقدام درکار ہیں۔بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا جانا چاہیے اور اس کا واحد نقطہ بلوچستان کے حالات کی درستگی اور ریاستی و حکومتی سطح کی حکمت عملی کووضع کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔
اسی طرح بلوچستان کی جو جماعتیں یا دیگر صوبوں کی جماعتیں جو اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں ہے ان کے ساتھ بھی گفتگو ہونی چاہیے اور ان کی تجاویز کو بھی حالات کی درستگی میں مدنظر رکھ کر قومی پالیسی بلوچستان کے تناظر میں سامنے آنی چاہیے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبے میں بہت سی خرابیاں ہیں اور ان کی وجہ بھی ہماری اپنی کوتاہیاں اور پالیسیاں ہیںاور ان کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ ناکامی کی کیا وجوہات ہیں ۔سیاسی قیادت بھی چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں ان کی طرف سے اس سوچ کو پروان چڑھانا کے حالات کی درستگی کو ممکن بنانے میں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، غلط سوچ ہے ۔
اگر ہم نے سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو بلوچستان کے حالات کی درستگی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔بلوچستان کے سیاسی حالات کی خرابی کا علاج بھی سیاسی حکمت عملیوں میں ہی تلاش کرنا ہوگا اور مختلف فریقین جن میںصوبہ کی سطح پر موجودہ سیاسی قیادت،سوسائٹی،میڈیا اور وکلا تنظیمیوں کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔
اسی طرح اگر ہم نے صوبہ میں بھارت کی مداخلت یا سہولت کاری کے عمل کو کمزور کرنا ہے تو اس میں بھی ہمیں داخلی استحکام درکار ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی وجہ کئی دہائیوں سے جاری ہماری ناقص اور غیر سیاسی پالیسیاں یا حکمت عملیاں ہیں اور اسی رد عمل کی وجہ سے وہاں علیحدگی پسندوں کو تقویت ملی ہے۔
اگر ہم بلوچستان سمیت مجموعی طور پر ملک کے حالات کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاست جمہوریت، آئین اور قانون کی پاسداری کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ یہ ہی وہ نقاط ہیں جو ریاست کے نظام کو بھی مضبوط اور ریاست کے نظام پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرتے ہیں۔
اس وقت مسئلہ ہی یہ ہے کہ ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور بداعتمادی کے ماحول کو کم کیا جا سکے۔کیونکہ یہ عمل جتنا بڑھے گا اتنا ہی بلوچستان کا مقدمہ بھی کمزور ہوگا اور ریاست کو مزید مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں۔اس لیے داخلی سطح کی غلطیوں کا ادراک کر کے ایک جامع پالیسی کا بننا، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا اور اس پر عمل درآمد کا شفافیت پر مبنی نظام کا ہونا ہی بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی حکمت عملی کیا جانا چاہیے بلوچستان میں میں بلوچستان کے تناظر میں بلوچستان کی سیاسی قیادت بلوچستان کا کی بنیاد پر کے حالات کو اختیار کی لوگوں کے نہیں ہے رہے ہیں اور ان ہیں ان ہے اور جو بھی
پڑھیں:
صرف جمہوریت۔ورنہ کچھ نہیں
ہم جس وطن عزیز کو پاکستان کہتے ہیں، وہ ایک نظریئے ، ایک عہد اور ایک خواب کی صورت میں تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر کو جو الفاظ عطا ہوئے وہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘ہیں۔ ان تین الفاظ میں ہماری قومی شناخت، نظریاتی بنیاد اور سیاسی منزل سموئی ہوئی ہے۔
قیامِ پاکستان کا مقصد محض جغرافیائی آزادی نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو اسلامی اقدار کی روشنی میں جمہوری اصولوں کے تحت عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ جمہوریت وہ نظام ہے جو عوام کو بااختیار بناتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت ہمیشہ آزمائشوں کا شکار رہی۔سوال یہ نہیں کہ حکومت کس سیاسی پارٹی کی ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت سیاسی اور جمہوری ہو۔ جب بھی عدالت آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہے یا پارلیمان آئینی حدود میں رہ کر اپنا حق مانگتی ہے تو فوراً اس پر جانبداری یا سیاسی وابستگی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اداروں کی خودمختاری اور آئین کی حکمرانی ہی کسی بھی مہذب ریاست کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ اگر ہم ہر آئینی قدم کو سیاسی چال سمجھنے لگیں تو پھر ریاست کا وجود انتشار اور بے یقینی کی نذر ہو جائے گا۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ناکام ہو جائے تو اسے رخصت کیا جا سکتا ہے لیکن آمریت کا راستہ جب کھلتا ہے تو وہ نہ سوال کا موقع دیتی ہے نہ جواب کی گنجائش۔پاکستان کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا، ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریتوں نے قوم کو جو زخم دیے وہ آج بھی نہیں بھرے۔ آج بھی بعض مفاداتی حلقے جمہوریت کو ناکام قرار دے کر آمریت کی گود میں پناہ لینے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن شخصیات پر وہ تنقید کرتے ہیںچاہے وہ نواز شریف ہوں، شہید بینظیر بھٹویا آصف زرداری ہوں، ان سب نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کی سیاسی غلطیاں اپنی جگہ مگر ان کی جمہوریت سے وابستگی اور آمریت مخالفت ان کی سب سے بڑی سیاسی پہچان ہے۔ہمیں جیسی بھی جمہوریت ملی اسی سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری آج کی جمہوری حکومت بھی ایک آئیڈیل جمہوری حکومت نہیں لیکن بہرحال جمہوری ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت کے گرو کہا کرتے تھے ’اگر کوئی الیکشن خراب ہو جائے تو اس کا علاج مزید الیکشن ہیں نہ کہ مارشل لا یا غیر آئینی حکومت‘ جمہوریت ہی وہ نظام ہے جس میں مسلسل انتخابی عمل سے قیادت نکھرتی ہے اور قوم اجتماعی شعور کی منازل طے کرتی ہے۔بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بھی بہت سے مسائل ہیں مگر چونکہ جمہوریت کا تسلسل موجود ہے اس لیے وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے ہاں کبھی فوجی مداخلت کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ان کے ہاں جمہوریت کو محض سیاسی نظام نہیں قومی بقا کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔
اس کے برعکس ہم بار بار تجربات کی بھینٹ چڑھتے رہے اور ہر بار نقصان قوم کا ہوا۔ جمہوری معاشروں میں احتساب اداروں کا ہوتا ہے، پالیسیوں کا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ عوام کی رائے سے ہوتا ہے مگر آمریت میں نہ رائے کی جگہ ہوتی ہے نہ رائے دہندہ کی۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ عناصر آج بھی آمریت کے مرہونِ منت ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت مارشل لا کی نرسریوں میں ہوئی، اس لیے وہ جمہوریت کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ عوام ناسمجھ ہیں فیصلے صرف اشرافیہ کو کرنے چاہئیں۔ یہ نظریہ درحقیقت جمہوریت کی توہین ہے اور قوم کی رائے کی نفی ہے ۔
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عوامی رائے کے احترام کو اپنا اصول بنانا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو ہمیں ترقی، استحکام اور وقار کی طرف لے جا سکتا ہے۔پاکستان دولخت ہوا تو تاریخ کے ایک طالبعلم نے اپنے ہم جماعت سے کہا کہ یار چلو جغرافیہ تو آسان ہو گیا ہے، اس نے جواب دیا کہ مگر تاریخ مشکل ہوگئی ہے۔ اور واقعی اگر ہم نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھا تو ہمارا جغرافیہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔