Express News:
2025-09-18@13:18:54 GMT

بلوچستان کے حالات کی سنگینی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

بلوچستان کے حالات بہت سنگین ہیں ، اس کا ادراک دیگر صوبوں کے لوگوں کو بہت زیادہ نہیں ہوسکتا۔جو وہاں کے حالات کو جانتے ہیں، وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں حالات کیا ہیں۔بلوچستان محض ایک صوبائی نہیں بلکہ قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے فیصلہ ساز بلوچستان کو صوبائی فریم ورک میں دیکھ رہے ہیں جو حالات کو مزید سنگین بنا رہا رہا ہے۔بلوچستان کا مسئلہ محض امن وامان کا نہیں ہے بلکہ دہشت گردی جیسے سنگین بحران کا سامنا ہے۔وفاقی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

ابھی تک ہماری پالیسی بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے جڑی ہوئی ہے۔ہم نے بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے علیحدگی پسندوں کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں لیکن اس میں کوئی بڑی کامیابی ہمیں نہیں مل سکی ہے اور بدستور بلوچستان کا صوبہ دہشت گردی کا شکار ہے۔

اس صوبے کی دہشت گردی نے مجموعی طور پر ملک کے جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کیا ہے وہیں قومی سلامتی یا سیکیورٹی کے تناظر میں ہمیں مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بلوچستان کے حالات کو دیکھیں تو سب سے بڑا المیہ وہاں اختیار کی جانے والی سیاسی حکمت عملیوں سے جڑا ہوا ہے۔ صوبے میں مصنوعی سیاسی بندوبست کے کھیل نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔

بلوچستان میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت جو ووٹ کی بنیاد پر اور جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے ۔اس وقت بھی بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ان میں بلوچستان میں موجود سیاسی لوگوں کا کردار بہت کم دیکھنے کو نظر آتا ہے۔

ایک طرف علیحدگی پسند عناصر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی ریاستی اور وفاقی سطح پر حکومت کی پالیسیوں پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔وفاقی حکومت کی پالیسی بنیادی طور پر رد عمل کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے اور ایک مستقل پالیسی اور اعتماد کا بحران ہمیں بلوچستان کے تناظر میں وفاقی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سر فہرست ہیں ان کا بھی کوئی موثر کردار بلوچستان کے حالات کے تناظر میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔بلکہ بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کو ان قومی جماعتوں سے بہت گلہ ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کے مختلف ادوار میں بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے طاقت کا ضرور استعمال کیا جائے اور بالخصوص ان لوگوں کے خلاف جو ریاست کی رٹ کو نہ صرف چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا شامل نہیں ہے اور ہم کیوں ان کی مدد اور مشاورت کے ساتھ آگے نہیں بڑھنا چاہتے؟

بلوچستان کی سیاسی قیادت کے جو بھی سیاسی تحفظات ہیں ان کو دور کرنا ریاستی اور حکومتی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر بلوچستان کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں محمود خان اچکزئی،سردار اختر مینگل،مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے لوگوں کی گفتگو سننی چاہیے اور ان کے جو بھی تحفظات ہیں ان کو دور کیا جانا چاہیے۔اسی طرح بلوچستان میں موجود لوگوں کے اور بالخصوص نوجوانوں کے جو بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں ان کی فراہمی ریاست اور حکومتی ترجیحات میں اولین ہونی چاہیے۔مگر پہلے یہ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ صوبے کی صورتحال اچھی نہیں ہے ۔

ا صوبے میں سیاسی اور جمہوری مقدمہ مضبوط بنانا بھی ہماری سیاسی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔غیر سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی کوئی بھی پالیسی چاہے وہ طاقت کی بنیاد پر ہو یا مصنوعی لوگوں کے ساتھ اختیار کی جائے ہمیں کسی بڑی کامیابی کی طرف نہیں لے کے جا سکے گی۔

بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے معاملات کو محض بیان بازی کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔بلوچستان کے حالات غیر معمولی بھی ہیں اور ان غیر معمولی سطح کے حالات میںہمیں غیر معمولی اقدام درکار ہیں۔بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا جانا چاہیے اور اس کا واحد نقطہ بلوچستان کے حالات کی درستگی اور ریاستی و حکومتی سطح کی حکمت عملی کووضع کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔

اسی طرح بلوچستان کی جو جماعتیں یا دیگر صوبوں کی جماعتیں جو اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں ہے ان کے ساتھ بھی گفتگو ہونی چاہیے اور ان کی تجاویز کو بھی حالات کی درستگی میں مدنظر رکھ کر قومی پالیسی بلوچستان کے تناظر میں سامنے آنی چاہیے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبے میں بہت سی خرابیاں ہیں اور ان کی وجہ بھی ہماری اپنی کوتاہیاں اور پالیسیاں ہیںاور ان کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ ناکامی کی کیا وجوہات ہیں ۔سیاسی قیادت بھی چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں ان کی طرف سے اس سوچ کو پروان چڑھانا کے حالات کی درستگی کو ممکن بنانے میں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، غلط سوچ ہے ۔

 اگر ہم نے سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو بلوچستان کے حالات کی درستگی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔بلوچستان کے سیاسی حالات کی خرابی کا علاج بھی سیاسی حکمت عملیوں میں ہی تلاش کرنا ہوگا اور مختلف فریقین جن میںصوبہ کی سطح پر موجودہ سیاسی قیادت،سوسائٹی،میڈیا اور وکلا تنظیمیوں کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔

اسی طرح اگر ہم نے صوبہ میں بھارت کی مداخلت یا سہولت کاری کے عمل کو کمزور کرنا ہے تو اس میں بھی ہمیں داخلی استحکام درکار ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی وجہ کئی دہائیوں سے جاری ہماری ناقص اور غیر سیاسی پالیسیاں یا حکمت عملیاں ہیں اور اسی رد عمل کی وجہ سے وہاں علیحدگی پسندوں کو تقویت ملی ہے۔

اگر ہم بلوچستان سمیت مجموعی طور پر ملک کے حالات کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاست جمہوریت، آئین اور قانون کی پاسداری کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ یہ ہی وہ نقاط ہیں جو ریاست کے نظام کو بھی مضبوط اور ریاست کے نظام پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرتے ہیں۔

اس وقت مسئلہ ہی یہ ہے کہ ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور بداعتمادی کے ماحول کو کم کیا جا سکے۔کیونکہ یہ عمل جتنا بڑھے گا اتنا ہی بلوچستان کا مقدمہ بھی کمزور ہوگا اور ریاست کو مزید مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں۔اس لیے داخلی سطح کی غلطیوں کا ادراک کر کے ایک جامع پالیسی کا بننا، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا اور اس پر عمل درآمد کا شفافیت پر مبنی نظام کا ہونا ہی بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی حکمت عملی کیا جانا چاہیے بلوچستان میں میں بلوچستان کے تناظر میں بلوچستان کی سیاسی قیادت بلوچستان کا کی بنیاد پر کے حالات کو اختیار کی لوگوں کے نہیں ہے رہے ہیں اور ان ہیں ان ہے اور جو بھی

پڑھیں:

آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔

اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • ملک کے حالات بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی طرف جارہے ہیں،عمران خان
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • پاکستان کے حالات درست سمت میں نہیں، 74 فیصد شہریوں کی رائے
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟