Express News:
2025-09-18@13:42:12 GMT

بین الاقوامی انصاف کا دہرا معیار

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو دنیا بھر میں انصاف کا عالمی نگہبان سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ادارہ بھی طاقتور ممالک کے زیر اثر ہے۔ ICC کے فیصلے اگرچہ کاغذ پر انصاف کا تاثر دیتے ہیں مگر حقیقت میں یہ عدالت کمزور ممالک کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا آلہ بن چکی ہے جب کہ طاقتور ممالک کے سربراہان کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، چاہے ان پرکتنے ہی سنگین جرائم کے الزامات کیوں نہ ہوں۔

فلپائن کے سابق صدر روڈریگو ڈوٹرٹے کی گرفتاری اس کی تازہ مثال ہے۔ انھیں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں دی ہیگ (The Hague) لے جایا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی انسداد منشیات مہم کے دوران ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قتل کر وایا۔

ان ہلاکتوں کو عالمی برادری نے ماورائے عدالت قتل قرار دیا اور انسانی حقوق کے علم بردار حلقے اس گرفتاری کو انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں لیکن اس عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف بھی جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کیے تھے، یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا جس پر میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اس فیصلے کو سراہا تھا۔ یہ فیصلہ دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں میں امید کی کرن بن کر آیا تھا کہ شاید اب طاقتور رہنماؤں کو بھی جواب دہ ٹھہرایا جائے گا، مگر یہ امید ایک سراب ثابت ہوئی۔

نیتن یاہو جن پر فلسطین کے علاقے غزہ میں معصوم شہریوں کے قتل، اسپتالوں اور رہائشی عمارتوں کی تباہی اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں جیسے سنگین الزامات ہیں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ وہ ہنگری کے سرکاری دورے پر جانے والے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر ہنگری نے ICC کو دھمکی دی ہے کہ اگر نیتن یاہو کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وہ عدالت سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ یہ تضاد کسی بھی باشعور شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آخرکیوں ڈوٹرٹے کو دی ہیگ (The Hague) کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن نیتن یاہو کو عالمی سطح پر سفارتی پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے؟

یہ سب اس لیے ہے کہ عالمی انصاف کے اصول طاقت کے مطابق بدلتے ہیں۔ فلپائن جیسے ترقی پذیر اورکمزور ملک کے رہنما کوگرفتار کرنا آسان ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت نہیں کھڑی۔ مگر اسرائیل جسے امریکا اور یورپی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اس کے رہنما کو پکڑنا تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ چاہے اس پر انسانی حقوق کی جتنی بھی خلاف ورزیاں ثابت ہو چکی ہوں۔

ICC کے ریکارڈ کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے زیادہ ترکارروائیاں افریقی اور ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے خلاف کی ہیں۔ یوگینڈا، کانگو، سوڈان، کینیا اور اب فلپائن دوسری طرف امریکا، اسرائیل اور روس جیسے طاقتور ملک ICC کو ماننے سے ہی انکارکردیتے ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی فیصلہ آ بھی جائے تو وہ اسے کھلے عام مسترد کردیتے ہیں اور پھر بھی آزاد گھومتے ہیں۔

نیتن یاہو کے معاملے میں ICC نے ایک مثبت قدم اٹھایا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونا اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ایک موقعہ تھا کہ عالمی برادری کو دکھایا جاتا کہ انصاف اندھا ہوتا ہے نہ کہ طاقت دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے مگر ہوا اس کے برعکس۔ ICC نے اپنی کمزوری واضح کردی ہے۔

آج ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر عالمی انصاف کے ادارے اپنے فیصلوں پر عمل نہ کرا سکیں تو وہ انصاف کے محافظ نہیں بلکہ طاقتور ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتے ہیں۔ ڈوٹرٹے کو دی ہیگ (The Hague) میں پیش کرنا اگر انصاف ہے تو نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ موجود ہے تو اسے بھی ڈوٹرٹے کی طرح دی ہیگ (The Hague) کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔

انصاف کو سیاسی مصلحتوں اور طاقت کے کھیل سے آزاد ہونا ہوگا ورنہ ICC کی ساکھ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔آج کے حالات میں یہ مطالبہ فروری ہے کہ ICC کے تمام فیصلے چاہے وہ کسی بھی رہنما کے خلاف ہوں بغیرکسی سیاسی دباؤ کے نافذ کیے جائیں۔ اگر نیتن یاہو کے خلاف جاری وارنٹ پر عمل نہیں ہوتا اور انھیں اس طرح آزادی سے گھومنے دیا جاتا ہے تو پھر یہ ادارہ انصاف کے بجائے طاقتور ممالک کے تحفظ کا ذریعہ بن جائے گا اور یہ عالمی امن اور انسانیت کے لیے ایک خطرناک مثال ہوگی۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انصاف کو رنگ، نسل، مذہب اور طاقت سے بالاتر ہونا چاہیے۔ نیتن یاہو اور ڈوٹرٹے کے معاملات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ موجودہ نظام میں انصاف کمزورکے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس دہرے معیارکو چیلنج نہ کیا تو دنیا میں ظلم کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوگا یا تو انصاف سب کے لیے ہو یا پھر کسی کے لیے نہ ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو کے خلاف طاقتور ممالک کے انصاف کے جاتا ہے کے لیے دی ہیگ

پڑھیں:

نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد

اسلام ٹائمز: مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔" تحریر: علی احمدی
 
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایسے وقت مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا جب قطر کے دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس جاری تھا۔ اس کا خیال ہے کہ غزہ پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے غزہ پر جارحیت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور غزہ شہر کے رہائشی ٹاورز یکے بعد از دیگرے اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی فوج نے اب تک غزہ شہر میں کم از کم 30 رہائشی ٹاورز کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے وقت امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کا دو روزہ دورہ کیا اور غزہ پر صیہونی جارحیت کی حمایت کی۔
 
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس نے کہا: "میں نے اسرائیلی حکام سے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی ہے۔" مارکو روبیو نے دیوار ندبہ کی زیارت بھی کی اور امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کے ہمیشگی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے بھی زور دیا۔ معروف تجزیہ کار مائیکل کرولی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے ملاقات میں کہا کہ غزہ جنگ کے بارے میں سفارتی معاہدے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات سے مکمل طور پر تضاد رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ "بہت جلد" غزہ میں جنگ بندی کا راہ حل حاصل ہو جائے گا۔
 
مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔"
 
مغربی ایشیا میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے جنرل کمشنر فلپ لازارینی نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "غزہ میں پانی کا نظام 50 فیصد کم سطح پر کام کر رہا ہے اور گذشتہ چار دنوں میں غزہ شہر میں انروا کی 10 عمارتیں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے اس نے غزہ شہر میں پانچ فضائی حملے انجام دیے ہیں جن میں 500 سے زیادہ جگہیں نشانہ بنائی گئی ہیں۔ اس کے بقول ان جگہوں پر ممکنہ طور پر حماس کے اسنائپر تعینات تھے جبکہ کچھ عمارتیں حماس کی سرنگوں کے دروازوں پر بنائی گئی تھیں اور کچھ میں حماس کے اسلحہ کے ذخائر تھے۔" ابراہیم دہمان، تیم لستر اور چند دیگر رپورٹرز نے سی این این پر اپنی رپورٹس میں کہا: "صیہونی فوج نے تازہ ترین حملوں میں غزہ شہر میں کئی رہائشی ٹاورز کو تباہ کر دیا ہے۔"
 
آگاہ ذرائع کے مطابق کل اسرائیلی وزیر خارجہ، وزیر جنگ، انٹیلی جنس سربراہان اور اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کا ایک اہم اجلاس ہو گا جس میں زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال اور غزہ شہر پر زمینی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ دو اعلی سطحی اسرائیلی عہدیداروں نے سی این این کو بتایا کہ غزہ شہر پر زمینی حملہ بہت قریب ہے جبکہ ایک عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے یہ حملہ کل سے شروع ہو گیا ہو۔ صیہونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ایال ضمیر نے نیتن یاہو کو اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کے لیے آپریشن کو چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا اور حتی مکمل فوجی قبضہ ہو جانے کے بعد بھی حماس کو نہ تو فوجی اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے شکست نہیں دی جا سکے گی۔
 
اس بارے میں فلپ لازارینی نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے شدید حملے شروع ہو جانے کے بعد غزہ میں کوئی جگہ محفوظ باقی نہیں رہی اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کل تک غزہ شہر کے کئی رہائشی ٹاورز جیسے المہنا ٹاور، غزہ اسلامک یونیورسٹی اور الجندی المجہول ٹاور اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے ان حملوں کے لیے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ حماس ان عمارتوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور وہاں سے اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اصل مقصد فلسطینیوں کو جبری طور پر وہاں سے نقل مکانی کروانا ہے اور انہیں جنوب کی جانب دھکیلنا ہے تاکہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا زمینہ فراہم ہو سکے۔" یاد رہے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اب تک اس اسرائیلی دعوے کی تردید کر چکی ہے کہ غزہ شہر میں رہائشی عمارتیں حماس کے زیر استعمال ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج غزہ میں داخل،3 صحافیوں سمیت 62 فلسطینی شہید
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
  • نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
  • اسرائیل کی عالمی تنہائی بڑھ رہی، محاصرے کی سی کیفیت ہے، نیتن یاہو کا اعتراف
  • جس کے ہاتھ میں موبائل ہے اس کے پاس اسرائیل کا ایک ٹکڑا ہے،نیتن یاہو
  • جس کے ہاتھ میں موبائل ہے اس کے پاس اسرائیل کا ایک ٹکڑا ہے؛ نیتن یاہو
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو کا اعتراف
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو 
  • گریٹر اسرائیل عالمی امن کیلیے خطرہ ہے؛ نیتن یاہو نے تمام حدیں پار کردیں؛ امیرِ قطر