WE News:
2025-11-03@16:45:08 GMT

امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ کیوں بنا رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

   امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ بنائے گا۔ اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اس طیارے کا نام  ’ایف-47‘ ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے مطابق ایف-47 ایک ایسا طیارہ ہوگا جس کی خصوصیات اور صلاحیتیں بے مثال ہوں گی اور دنیا نے ایسا طیارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا، اس طیارے کی رفتار، گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت اور دیگر خصوصیات کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔

  اس طیارے کی تیاری کا کنٹریکٹ امریکی کمپنی بوئنگ کو دیا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آئیں، انہیں خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہ اس میں کیا کیا خصوصیات ہوں گی۔ البتہ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دنیا کا مہنگا ترین طیارہ ہوگا۔ سکستھ جنریشن طیارے کا نام F-47 رکھنے کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ ٹرمپ امریکا سکے 47ویں صدر ہیں تو انہوں نے اپنے دور اقتدار کی مناسبت سے یہ نام رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’خلیفہ‘ کا زوال

 سوال یہ ہے کہ سکستھ جنریشن فائٹر طیارے کیا ہے اور امریکا کے اس اعلان کا دنیا میں کیا امپیکٹ پڑے گا اور چین جیسی قوتوں کے لیے کیا نیا چیلنج پیدا ہوجائے گا؟

 فائٹر طیارے کے حوالے سے ایک بات سمجھ لیں کہ جیسے جیسے جنریشن بڑھے گی، ویسے ہی وہ طیارہ جدید ترین صلاحیتوں کا حامل ہوگا، دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے سکینڈ جنریش طیارے تھے، پھر تھرڈ جنریشن آئے۔ ایف 16 فورتھ جنریشن طیارہ ہے جو کہ ایک طرح سے گیم چینجر تھا۔

  ایف 16 کے بھی مختلف بلاک آئے، جو پاکستان کے پاس ایف 16 ہیں، وہ پرانے ہیں اس کے بعد اسی فورتھ جنریشن میں کئی اپ گریڈیشن ہوچکی ہیں۔ پاکستان اور چین کی مشترکہ پروڈکشن جے ایف تھنڈر  بھی فورتھ جنریشن طیارہ ہے۔

  روس کے  سخوئی 27 اور سخوئی 30 بھی فورتھ جنریش لڑاکا طیارے ہیں۔ مِگ 29 بھی اسی کیٹیگری میں ہے۔ چین نے بھی پچھلے 10-15 برسوں میں ہتھیاروں کی طرف توجہ دی ہے اور اچھے فائٹر طیارے بنائے ہیں۔ چین کے جے 10 اور جے 11 فورتھ جنریشن طیارے ہیں۔

 اس کے بعد فورتھ جنریش سے کچھ بہتر طیارے بھی بنائے گئے، جنہیں فور  پلس یا فور پلس پلس یا 4.

5 جنریشن سمجھ لیں۔ انہیں فورتھ جنریشن پر کسی حد تک سبقت حاصل ہے۔ فور پلس جنریش طیاروں میں جدید ایوانکس سسٹم کے علاوہ کسی حد تک اسٹیلتھ صلاحیت بھی موجود ہے۔

  اسٹیلتھ سے مراد یہ ہے کہ طیارہ ریڈار میں نظر نہ آئے یا بہت کم اور تاخیر سے نظر آئے۔ اس کے لیے ان طیاروں کے مخصوص ڈیزائن کے علاوہ اور ان پر وہ مخصوص پینٹ لگایا جاتا ہے جو ریڈار کی ویوز کو واپس بھیجنے کے بجائے جذب کر لے یا پھر کسی اور طرف موڑ دے تاکہ ریڈار بروقت اطلاعات حاصل نہ کر سکے۔

  فورتھ پلس جنریش طیاروں میں امریکا کا ایف 18 ہارنیٹ نمایاں ہے، جبکہ  فرانسیسی طیارہ رفال بھی اس حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت نے فرانس سے یہی رفال طیارہ لے رکھا ہے تاکہ پاکستانی ایف 16 اور جے ایف تھنڈر 17 پر سبقت لے سکے ، تاہم پاکستان نے اس کا توڑ چینی فور اینڈ ہاف جنریشن لڑاکا طیارہ لیکر کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی چاہیے 

  انگلینڈ، جرمنی، اسپین اور اٹلی کی مشترکہ پروڈکشن یورو فائٹر ٹائفون بھی اسی کیٹیگری میں ہے۔ ایف 16 کا وائپر ویرائنٹ بھی اسی زمرے میں سمجھا جاتا ہے۔ امریکا ہی کا ایف 15 ای ایکس ایگل بھی اہم فائٹر طیارہ ہے۔ چین کا جے 16 فور اینڈ ہاف جنریشن فائٹر طیارہ ہے۔ جے ٹوئنٹی(J20) کو ففتھ جنریش طیارہ بھی کہا جاتا ہے مگر بعض مغربی ناقدین اسے فور اینڈ ہاف میں شمار کرتے ہیں۔ بہرحال یہ اہم فائٹر طیارہ ہے۔

  آپ جانتے ہیں کہ جدید ہتھیاروں کی دوڑ کبھی ختم نہیں ہوتی، ایک دوسرے پر سبقت لینے کی خواہش مزید آگے بڑھنے پر اکساتی ہے۔ امریکا نے دیکھا کہ جب دیگر ممالک بھی فورتھ اور فور اینڈ ہاف جنریشن طیارے بنا چکے ہیں تو پھر امریکی ففتھ جنریش فائٹر طیارے کی طرف چلے گئے۔ اس کی سب سے اہم خوبی اس کا جدید ترین ایوانکس اور مکمل اسٹیلتھ صلاحیت ہے، ساتھ لانگ رینج میزائل بھی موجود ہے۔

  یہ ففتھ جنریشن طیارے گیم چینجر ہیں، ان کا مقابلہ تب ہی ممکن ہے جب مقابلے  میں ففتھ جنریش فائٹر ہو۔ آپ خود سوچیں کہ کوئی فائٹر طیارہ کہیں پر حملہ آور ہو اور وہ ریڈار میں نظر ہی نہ آئے تو اس پر کیسے راکٹ وغیرہ فائر کیا جا سکتا ہے؟ اوپر سے یہ لانگ رینج میزائل یعنی ڈیڑھ 2 سو کلومیٹر دور سے کارروائی کر کے واپس چلا جائے تو مخالف کے پاس کیا جواب ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ اکثر اوقات یہ ففتھ جنریش فائٹر کارروائی کر کے واپس جاتے ہوئے کہیں ریڈار میں نظر آ گیا تو آ گیا، ورنہ اس کا پتا ہی نہیں چلتا۔

   امریکی ففتھ جنریش طیاروں میں سے سرفہرست ایف  22ریپٹر ہے۔ جبکہ دوسرا اہم ایسا طیارہ ایف 35 ہے۔ یہی وہ طیارہ ہے جو امریکا اپنے نہایت قابل اعتماد اتحادی ممالک کو دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو بھی ایف 35 دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ ملٹی رول اسٹیلتھ فائٹر طیارہ ہے جو ایئر ٹو گراؤنڈ اور ایئر ٹو ایئر لڑائی کا بادشاہ ہے۔

  روس کا سخوئی 57 فیلن بھی اہم طیارہ ہے۔ بھارت پہلے یہ لینا چاہ رہا تھا، مگر اب امریکی دباؤ پر اسے ایف 35 کی طرف جانا پڑے گا۔ چین کا جے ٹوئنٹی بھی ففتھ جنریش طیارہ ہے جبکہ اس کا جے 35 بھی کمال کا ففتھ جنریش فائٹر طیارہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی اس طیارے کو لینے میں انٹرسٹڈ ہیں۔ ویسی ترکی بھی ففتھ جنریشن طیارے کان پر کام کر رہا ہے، امکان ہے کہ 3-4 برسوں میں یہ طیارہ مکمل ہوجائے گا۔ پاکستان کا اس سلسلے میں بھی بات چل رہی ہے۔کوریا اور چند دیگر ممالک بھی اس طرف کام کر رہے ہیں۔

   فضائی لڑائی میں اگر ایک طرف ففتھ جنریش طیارہ ہو تو دوسری طرف چاہے فورتھ جنریش ہو یا فور اینڈ ہاف مقابلہ یک طرفہ ہی ہوگا۔ البتہ فورتھ جنریشن اور فور اینڈ ہاف جنریشن کا کسی حد تک مقابلہ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکا فرسٹ‘ بمقابلہ ’سب سے پہلے پاکستان‘

   اس پس منظر میں آپ اندازہ لگائیں کہ امریکا کا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ بنانے کا اعلان کیسا تہلکہ خیز اور ہلچل مچا دینے والا ہے۔ امریکا کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، جدید ترین ٹیکنالوجی اور دنیا بھر سے  جمع کردہ بہترین ذہن، امریکی سکستھ جنریش فائٹر طیارے کی طرف جا سکتے ہیں، دیگر ممالک تو ابھی تک ففتھ جنریشن طیارہ بنانے کو ہی اپنا کمال سمجھ رہے ہیں۔ تاہم غزہ، لبنان، ایران کی لڑائیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جدید جنگوں میں ایئرفورس بہت زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اب چین اور روس کو بھی سکستھ جنریشن فائٹر طیارے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

  اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی پوری کوشش کریں گے کہ سکستھ جنریشن طیارے کی خصوصیات چھپائی جائیں کیونکہ اگر یہ تفصیلات باہر آ گئیں تو ان کا توڑ ہو پائے گا اور انہیں کاپی بھی کر لیا جائےگا۔ ہر ملک اپنے ایسے خاص طیاروں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ خود چین کے جے 35 کے بارے میں بھی زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں۔

  بہرحال یہ طے ہے کہ جس ملک کے پاس زیادہ جدید ایئرفورس، جدید ڈرون اور جدید ترین اینٹی میزائل شیلڈ ہوگی، مستقبل کی جنگوں میں برتری صرف اسے ہی حاصل رہے گی۔

  اب یہ سبقت کس کے پاس رہتی ہے، امریکا کے پاس یا چین اسے کاؤنٹر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، اس کا جواب وقت ہی دے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

امریکا انڈیا ایف 16 پاکستان ٹرمپ چین ڈونلڈ ٹرمپ روس سخوئی سکستھ جنریش ففتھ جنریشن طیارہ فور جنریشن مگ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا انڈیا ایف 16 پاکستان چین ڈونلڈ ٹرمپ سکستھ جنریش فور جنریشن

پڑھیں:

نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟

ڈاکٹر سلیم خان

بھاگوت اور مودی کی درمیان تعلقات اس قدر خراب ہیں کہ وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی تعریف کردی سالگرہ پر مضمون لکھ دیا اس کے باوجود سرسنگھ چالک نے مودی کے جنم دن پرمبارکباد کا دو سطری پیغام تک نہیں لکھا ایسے میں کس منہ سے یہ پروچن کیا جارہا ہے ؟ بھاگوت کا اعتراف درست ہے کہ سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی اور نہ انہیں متحد کرنے کاآلہ ٔکار بن سکتی ہے بلکہ وہ اتحاد کو بگاڑنے کا ہتھیار ہے ۔ یہ بات اس ہندوتوا کی سیاست پر ہو بہو صادق آتی ہے جس کی کمان بھاگوت اور مودی کے ہاتھ میں ہے ۔بھاگوت جی نے جب یہ انکشاف کیا کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا ،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے تو یہ سن کر سنگھ پریوار کی شاکھا میں تربیت پانے والوں کو حیرت کا جھٹکا لگا ہوگا ۔ گرو گولوالگر اور روحانی پیشوا ساورکر کی آتما کو تکلیف پہنچانے کے لیے موہن بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ ‘ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں’کیونکہ ساورکر نے تو شیواجی کے ہندو نواب کی بہو کے ساتھ حسنِ سلوک پربھی اعتراض کیا تھا ۔خطاب کے بعد سوال و جواب کے دوران بھاگوت نے یہ انکشاف کردیا کہ:”ہندو اور مسلمان ایک ہیں… اس لیے ان کے درمیان اتحاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؛ صرف ان کی عبادت کا طریقہ بدل گیا ہے۔ ہم پہلے ہی ایک ہیں۔ اتحاد کس بات کا کرنا ؟ کیا بدلا ہے ؟ صرف عبادت کا طریقہ بدلا ہے ؛ کیا یہ واقعی کوئی فرق پیدا کرتا ہے ”؟
بھاگوت جی نہیں جانتے کہ عبادت اور اس کے طور طریقہ پر عقائد کو سبقت حاصل ہوتی ہے اور جب وہ بدل جاتا ہے تو انسان کی زندگی کا نصب العین اور مقصد حیات تک ساری چیزیں بدل جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ” اسلام زمانہ قدیم سے ہندوستان میں ہے اور آج تک قائم ہے ، اور مستقبل میں بھی قائم رہے گا۔یہ خیال کہ اسلام باقی نہیں رہے گا، ہندو سوچ نہیں ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ”۔ بھاگوت ایک طرف تو سارے مسلمانوں کو ہندو کہتے ہیں اور پھر اسلام کے باقی رہنے کی پیشنگوئی بھی فرماتے ہیں ۔ اس تضاد بیانی پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بھاگوت مسلم ناموں والی سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کے خلاف ہیں لیکن یوگی تو دور ان کی گود میں پلے بڑھے اور سنگھ کی شاکھا سے نکلے ہوئے فڈنویس تک ان کی سن کر نہیں دیتے تو کوئی غیر کیوں مانے ؟ آر ایس ایس کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کااصرار اس بات پر ہے کہ سڑکوں یا شہروں کے نام جابر حملہ آوروں کے نام پر نہ رکھے جائیں تو کیا سارے ہندو راجہ مہاراجہ انصاف پسند تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اور اپنی رعایہ پر ظلم نہیں کیا۔ بھاگوت جی کیا ایسے پیشواوں کے نام پر شہروں اور سڑکوں کو رکھنے کی مخالفت کریں گے جنھوں شودروں پر فرعون اور ہٹلر سے زیادہ مظالم کیے ۔ وہ بولے اے پی جے عبدالکلام، عبدالحمید کے نام ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ گجرات میں لاشوں کے سوداگر نریندر مودی کو احمد آباد میں ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کا نام بدل کر اپنا نام رکھنے کی اجازت کس نے دی اور کم از کم بھاگوت نے علی الاعلان اس کی مخالفت کیوں نہیں کی ؟ دوسروں کو نصیحت کرنے سے قبل بھاگوت جی کو اپنے اور پریوار کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے ۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے ،اس کام کے لیے طویل المدتی کوششوں اور صبر کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہو گا۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے ، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچے گا”۔ یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کیونکہ بنیاد پرستی کی خاطر منافرت کو سنگھ پریوار فروغ دے رہا ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود بھاگوت کو یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے مگر یوگی تک ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرنے کے بجائے سنبھل کی مسجد کا تنازع کھڑا کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ بھاگوت کے کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ کاشی اور متھرا تنازع میں سنگھ ملوث نہیں ہوگا مگر پھر مسلمانوں کو یہ دونوں عباتگاہیں ہندووں کے حوالے کردینے کا مشورہ بھی دے دیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انہوں نے مسلم سماج کو بھی اپنی طرح بیوقوف سمجھ رکھا ہے ؟
دن رات ہندو راشٹر کے قیام کی مالا جپنے والے سنگھ پریوار کا سر براہ جب کہتا ہے کہ ”ہمیں بھارتی غلبے کے حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں نہیں”۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ” مسلم برادری کے سمجھدار رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے ” تو بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے ۔ موہن بھاگوت کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا۔ سچ تو یہ ہے ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں نے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کی سعیٔ جمیل سے پھیلا۔ مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ملک کی جنوبی ریاست کیرالا میں پہلی مسجد تعمیر ہوگئی تھی جبکہ وہاں مسلم حکمرانوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندووں پر عقیدے کے معاملے کوئی زور زبردستی نہیں کی ۔ ہندو راجاوں اور مسلم بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگوں کو مذہبی رنگ دینے کا کام ہندوتوا نوازوں نے کیا ہے ۔ سر سنگھ چالک سمیت وزیر اعظم واسودھیو کٹمبکم یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر دراندازی یعنی گھس پیٹھیا کی سیاست اور این آر سی کے ذریعہ اپنے ہی ملک کے باشندوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
موہن بھاگوت نے ویسے تو طبِ حیوانی کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے مگر کبھی کبھار وہ بڑی دانشورانہ باتیں کرنے لگتے ہیں مثلاًانہوں نے ہندوستان کی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہاں کا مزاج جدوجہد یا ٹکراؤ کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے ۔ہندوستان کی اکائی زمین، وسائل اور معرفتِ ذات کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ماتا اور ہمارے بزرگوں کے تئیں عقیدت ہی سچے ہندو کی پہچان ہے ۔ان بلند بانگ دعووں کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ہندوستان میں جنم لینے والے بودھ مت کا دیش نکالا کس نے کیا ؟ اس معاملے کو افہام تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کے بجائے بودھوں کو نسل کشی سے ڈراکر ملک بدری کے لیے کیوں مجبور کیا گیا؟ آج کے دور میں علی
الاعلان نسل کشی کی ترغیب کون دے رہا ہے ؟ کیا نیپال میں چند سال قبل اقتدار کی خاطر اپنے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ولیعہد ہندو نہیں تھا ۔ اس وقت تو وہ دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی؟ ا بھی حال میں نیپال کے سابق وزیر اعظم کی بیوی کو زندہ جلا دینے والے کون تھے ؟ اس سے قبل بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اقتدار تبدیل ہوا مگر ایسی سفاکی کا مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ لداخ میں اپنے ہی نوجوانوں پر گولی چلانے کا حکم دینے والے ہندو ہے یا نہیں؟
آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے عصرِ حاضر میں اپنی تنظیم کی غرض و غایت اس طرح بیان کی کہ سنگھ کی حقیقی معنویت تبھی ہے ، جب بھارت وشوگرو (عالمی رہنما) بنے ۔ عالمی قیادت کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۔ وہ بغیر چیلوں کے وشو گرو دکھائی دیتے ہیں ۔ عالمی سیاست کی بساط چین اور امریکہ مودی جی سے کھیل ر ہے ہیں ۔ ٹرمپ ایک دن ڈانٹتے ہیں تو دوسرے دن دوست کو گنوانے پر افسوس کا اظہار کرکے امید جگاتے ہیں ۔ تیسرے دن تعریف کرکے پچکارتے ہیں اور چوتھے دن اپنے وزیر خزانہ نے مزید ٹیرف کے بڑھانے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شریر بچے کو پہلے ڈانٹا جائے اور وہ منہ بسور کر بیٹھ جائے تو لالی پاپ پکڑا کر خوش کردیا جائے ۔وہ اسے لے کر اچھلنے کودنے لگے اور پھر سے شرارت کا خطرہ لاحق ہوجائے تو دوبارہ ڈانٹ ڈپٹ دیا جائے ۔ امریکہ یہی کررہا ہے اور اسی لیے وزیر اعظم نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے بذاتِ خود امریکہ جانے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ حل نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو پنڈت نہرو نے غیر جانبدار ممالک کا عالمی رہنما بنایا تھا مودی جی جیسے نام نہاد وشوگرو نے اس مقامِ بلند سے بھی ہندوستان کو محروم کردیا ہے ۔ اس انحطاط میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے کیونکہ وزیر اعظم ملک کے نہیں بلکہ سنگھ کے سیوک( خادم ) ہیں۔کاش کے یہ بات موہن بھاگوت کی سمجھ میں آجائے کہ ملک کو وشو گرو بنانا کم از کم مودی جی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔موہن بھاگوت نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک سپر پاور ہے اور وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرے گا لیکن سوال یہ کہ کون ہماری پروا کرتا ہے ۔ چین، امریکہ، روس اور سعودی عرب سبھی تو پاکستان کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ بھاگوت اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں لوگ ہماری ترقی سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ‘دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • 7 طیارے گرانے کے دعوے پر مودی کی خاموشی، دعوے کی تصدیق کرتی ہے، کانگریس
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • انڈین طیارے میں خودکش حملہ آورکی موجودگی،ہنگامی لینڈنگ
  • بھارتی طیارے میں خودکش حملہ آورکی موجودگی،ہنگامی لینڈنگ
  • بھارتی طیارے میں بم کی اطلاع: ہنگامی طور پر ممبئی ایئرپورٹ پر اتارلیا گیا
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • میکسیکو: امریکی ائر لائن کے طیارے کی ہنگامی لینڈنگ
  • میکسیکو میں امریکی طیارے کی ہنگامی لینڈنگ