سیئول: جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے وزیرِاعظم ہان ڈک سو کے عہدے سے برطرفی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد وہ بطور قائم مقام صدر دوبارہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔

عدالت نے 7-1 کے فیصلے میں ان کا امیچمنٹ مسترد کر دیا، جس کے بعد سیاسی بحران میں نیا موڑ آ گیا ہے۔

یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب صدر یون سک یول کو دسمبر 2024 میں مارشل لا نافذ کرنے کے باعث معطل کر دیا گیا۔ یون کے مواخذے کے بعد ہان کو قائم مقام صدر مقرر کیا گیا تھا، مگر جلد ہی انہیں بھی معطل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے آئینی عدالت کے تین نئے ججوں کی تعیناتی سے انکار کر دیا تھا۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق، مواخذے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کی جا سکی، جس کے باعث برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا۔

فیصلے کے بعد ہان ڈک سو نے عدلیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، "یہ وقت تقسیم کا نہیں بلکہ اتحاد کا ہے، ہمیں ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔"

دوسری جانب صدر یون سک یول کے مواخذے کا حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔ اگر ان کا مواخذہ برقرار رہتا ہے، تو ملک میں 60 دن کے اندر نئے صدارتی انتخابات کرانے ہوں گے۔

مزید برآں، یون پر مارشل لا کے نفاذ سے متعلق بغاوت کے الزامات بھی ہیں، جن میں انہیں عمر قید یا سزائے موت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بعد کر دیا

پڑھیں:

امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق عدالت نے قرار دیا ہے کہ وفاقی سطح پر ووٹ ڈالنے کے لیے شہریوں سے شہریت کا ثبوت طلب کرنا آئین کے منافی ہے اور صدرِ مملکت کو ایسا حکم دینے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مارچ میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ شرط عائد کی تھی کہ امریکا میں ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کو اپنی شہریت کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ اس اقدام سے غیر قانونی تارکین وطن کی ووٹنگ میں مبینہ مداخلت روکی جا سکے گی، تاہم عدالت نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ امریکی آئین کے تحت ووٹنگ کے اصولوں اور اہلیت کا تعین صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدرِ مملکت کو اس بارے میں کسی نئی پابندی یا شرط لگانے کا اختیار حاصل نہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ووٹ کا حق بنیادی جمہوری اصول ہے، جس پر انتظامی اختیارات کی بنیاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے گا۔ ریپبلکن پارٹی کے حلقے اس فیصلے کو  غلط سمت میں قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے حقِ رائے دہی کے تحفظ کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔

مبصرین کے مطابق ٹرمپ کا یہ اقدام انتخابی شفافیت کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش تھی جب کہ مخالفین کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد اقلیتوں اور کم آمدنی والے طبقے کے ووٹ کو محدود کرنا تھا، جو زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ایک لاکھ 63 ہزار پوائنٹس کی حد دوبارہ بحال
  • عدالت عظمیٰ میں انتظامی تقرریاں، سہیل محمد لغاری رجسٹرار تعینات
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، ائینی پینج تشکیل
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • شمالی کوریا نے جزیرہ نما کوریا کے غیر جوہری بننے کے تصور کو ’خیالی پلاؤ‘ قرار دے دیا
  • ترکیہ: ہوٹل میں آگ لگنے سے 78 ہلاکتیں، ملزمان  کو عمر قید کی سزا سنادی گئی
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • 33 سال بعد واشنگٹن کا جوہری تجربات بحال کرنے کا فیصلہ