Express News:
2025-06-09@07:18:50 GMT

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا کر پیچھے مڑ کر دیکھا‘ میرے سامنے ایک دہان پان سا گورا کھڑا تھا‘ اس نے گندی سی ٹی شرٹ اور نیکر پہن رکھی تھی‘ کندھے پر کپڑے کا تھیلا لٹکا رکھا تھا اور پاؤں میں چمڑے کے کھلے جوتے تھے‘ وہ دانت نکال کر میری طرف دیکھ رہا تھا‘ ہمارے دائیں بائیں سالسبرگ کا قدیم شہر بکھرا ہوا تھا‘ میں نے اس سے مسکرا کر پوچھا ’’کیا تمہیں پنجابی آتی ہے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’لٹل لٹل‘ میں چار سال اسلام آباد رہا ہوں‘‘ وہ مجھے دل چسپ کردار لگا‘ میں نے اسے کافی کی آفر کی اور وہ چھلانگ لگا کر بینچ پر میرے سامنے بیٹھ گیا‘ یہ فرینکی کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔

میری اس کے ساتھ مزید دو ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن پھر وہ فوت ہو گیا‘ فرینکی یو ایس ایڈ میں کام کرتا تھا‘ آسٹریا سے تعلق تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان میں تعینات ہوا‘ چار سال اسلام آباد رہا‘ اس کا زیادہ وقت راولپنڈی میں گزرتا تھا چناں چہ وہ پوٹھوہاری زبان سیکھ گیا‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور لاہورمیں اس کے بے شمار دوست تھے‘ وہ انھیں مس کر رہا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تم کتنی مرتبہ پاکستان گئے؟‘‘ اس نے بتایا وہ 1975 میں پاکستان پوسٹ ہوا تھا اور 1979تک اسلام آباد رہا‘ 1984 میں اس نے ریٹائرمنٹ لے لی‘ 1992میں وہ وزٹ کے لیے پاکستان گیا‘ آخری مرتبہ اسے چھوٹی سی اسائنمنٹ ملی اور وہ 2008 میں دو ہفتوں کے لیے پاکستان گیا‘ یہ اس کی آخری وزٹ تھی۔

 میں نے اس سے پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں پوچھا‘ اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا‘ اس کا کہنا تھا 1975 کا پاکستان ایک نارمل ملک تھا‘ بلیو ایریا میں نیف ڈیک ہوتا تھا‘ اس میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں‘سیمینار بھی ہوتے تھے اور ڈبیٹس بھی‘ بلیوایریا میں امریکن سینٹر تھا‘ اس کی لائبریری نوجوانوں سے بھری ہوتی تھی‘ میلوڈی میں برٹش کونسل تھی‘ اس کے ہالز اور لائبریری میں درجنوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بحث مباحثہ کر رہے ہوتے تھے‘ راولپنڈی کے تین ہوٹلز میں بارز اور ڈانسنگ فلورز تھے‘ لوگ وہاں شام کے وقت ’’گڈ ٹائم‘‘ گزارتے تھے‘ اسلام آباد میں بھی ڈسکوز اور پبز تھے۔

سفارت خانوں میں روز کلچرل شوز ہوتے تھے‘ ان میں پاکستان کی ایلیٹ شریک ہوتی تھی‘ قائداعظم یونیورسٹی یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں کا مقابلہ کرتی تھی‘ سڑکوں پر پولیس اور فوج دور دور تک نظر نہیں آتی تھی‘ گھروں کی باؤنڈریز چھوٹی تھیں اور کھڑکیاں دروازے نازک‘ لوگ اپنی گاڑیاں گلیوں میں کھڑی کرجاتے تھے‘ لڑکیاں سائیکل اور موٹر سائیکل چلاتی تھیں‘شہر میں درجنوں سوئمنگ پولز تھے اور لوگ ان میں تیراکی کرتے تھے‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان والوو بسیں چلتی تھیں اور لڑکیاں اور لڑکے مکس ہو کرکھڑے ہوتے تھے اور کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی‘ راولپنڈی صدر کا علاقہ گورے سیاحوں سے بھرا ہوتا تھا‘ لوگ وہاں بالٹی گوشت کھاتے تھے‘ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ہائیکنگ ہوتی تھی۔

 آبپارہ کے قریب کیمپنگ سائٹ تھی‘ اس میں سارا دن گورے اور گوریاں آدھے ننگے لیٹے رہتے تھے‘ آبپارہ ہی میں یوتھ ہاسٹل تھا‘ اس میں کمرہ نہیں ملتا تھا‘ میلوڈی میں ریستوران تھے‘ ان کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا‘ شہر میں چھ سات لکر شاپس تھیں اور ان پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا‘ شہر میں لال مسجد سب سے بڑی مسجد تھی‘ اس میں بڑے بڑے اسکالرز لیکچر دیتے تھے اورگورے بھی یہ لیکچر سنتے تھے‘ مسجد کے سامنے مسلمان چینی عورتیں چھوٹے چھوٹے اسٹال لگاتی تھیں‘ اسلام آباد کا اتوار بازار بہت پر رونق ہوتا تھا‘ ہم سب وہاں سے خریداری کرتے تھے لیکن پھر اس شہر کو نظر لگ گئی‘ فرینکی کا کہنا تھا‘ میں جب دوسری مرتبہ 1992میں اسلام آباد گیا تو ماحول بدل چکا تھا‘ مجھے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مولوی نظر آئے۔

 کلچرل شوز ختم ہو چکے تھے‘ سینماؤں کی رونق بجھ چکی تھی اور سڑکوں پر پولیس اور ہتھیار بند فوجی نظر آتے تھے‘ راولپنڈی میں بھی ہر طرف وحشت‘ ویرانی اور شدت تھی‘پورے شہر میں برقعے اور داڑھیاں تھیں‘ لاؤڈ اسپیکروں کی بھرمار تھی اور وہ دن رات چلتے رہتے تھے‘ میں 2008میں تیسری مرتبہ پاکستان گیا تو پورے ملک میں بم دھماکے ہو رہے تھے‘ لوڈ شیڈنگ بے انتہا تھی ‘ سڑکیں غیر محفوظ ہو چکی تھیں اور شام کے بعد پورے ملک میں ہول ناک سناٹا ہو جاتا تھا‘ ہر طرف فوج ہی فوج دکھائی دیتی تھی یوں محسوس ہوتا تھا پاکستان میں کوئی جنگ چل رہی ہے یا پھر جنگ کی تیاری ہو رہی ہے‘ میرا دل ٹوٹ گیا اور پھر میں دوبارہ کبھی پاکستان نہیں گیا‘ وہ خاموش ہو گیا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں آنسو دکھائی دے رہے تھے۔

فرینکی کی داستان نے مجھے بھی اداس کر دیا‘ پاکستان واقعی کبھی ایک نارمل ملک ہوتا تھا‘ اس میں اسپورٹس بھی تھیں‘ کلچر بھی‘ رواداری بھی اور کھلا پن بھی لیکن پھر یہ سب ختم ہو گیا‘ اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان تھا‘ ہم بلاوجہ اور بلاجواز افغانستان کی جنگ میں کود پڑے‘ امریکا اس زمانے میں سوویت یونین سے براہ راست لڑنا نہیں چاہتا تھا‘ اسے کرائے کا کوئی ایسا ملک چاہیے تھا جو اس کے مقاصد پر قربان ہو جائے‘ ہم ان دنوں فارغ تھے لہٰذا ہم نے اپنی گردن آگے کر دی اور اس کے بعد ہم ایک ابنارمل معاشرہ بنتے چلے گئے‘ آپ یہاں یہ یاد رکھیں جنگیں فوجیں نہیں لڑا کرتیں قومیں لڑتی ہیں چناں چہ ان کا سارا ملبہ بھی قوموں کے سروں پر گرتا ہے‘ امریکا کو 1980 میں پوری پاکستانی قوم چاہیے تھی اور ہم نے یہ قوم پلیٹ میں رکھ کر اس کے حوالے کر دی تھی۔

 ہمارے اسکولوں کا سلیبس تک یونیورسٹی آف نبراسکا میں تیار ہوا‘ 1980سے قبل مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کی جگہ معاشرتی علوم اور دینیات کے مضامین ہوتے تھے‘ دینیات میں تمام مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا اور مذہبی رواداری کی بات کی جاتی تھی جب کہ معاشرتی علوم میں معاشرے کو بہتر بنانے اور انسانیت پروان چڑھانے کے سبق ہوتے تھے پھر امریکا آیا اور اس نے معاشرتی علوم کو مطالعہ پاکستان اور دینیات کو اسلامیات میں تبدیل کر کے انھیں لازمی قرار دے دیا‘ مطالعہ پاکستان میں جان بوجھ کر افغانی حملہ آوروں کو مجاہدین بنا کر پیش کیا‘ یہ بھی ثابت کیا گیا افغانستان کبھی فتح نہیں ہوا جب کہ یہ سراسر جھوٹ تھا‘ افغانی حملہ آور مجاہد نہیں تھے‘ یہ صرف ہندوستان کو لوٹنے آتے تھے۔

 ان کا ہندوستان میں اسلام پھیلانے کا کنٹری بیوشن دو فیصد سے زیادہ نہیںتھا‘ اس خطے میں اسلام صوفیاء کرام اور مسلمان تاجروں نے پھیلایا ‘ افغانستان کو ناقابل شکست ثابت کرنا بھی سفید جھوٹ تھا‘ سکندر اعظم سے لے کر اشوک اعظم اور چنگیز خان تک ہر چھوٹے بڑے وارئیر نے نہ صرف افغانستان فتح کیا بلکہ اسے مکمل طور پر تاراج بھی کیا‘ قندہار آباد ہی سکندراعظم نے کیا تھا اور یہ اسکندریہ کہلاتا تھا‘ غزنوی ہوں یا غوری یہ ترک تھے اور یہ افغانستان پر قابض ہوئے تھے‘ ازبک طویل عرصے تک افغانوں پر حکومت کرتے رہے‘ یہ مغلوں کے قبضے میں بھی رہا اور1839میں اسے برطانوی فوج نے بھی فتح کر لیا تھا تاہم یہ درست ہے برطانیہ زیادہ عرصہ یہ قبضہ برقرار نہیں رکھ سکا۔

 1980میں روس افغانستان آ گیا‘ اس وقت اگر ہم قربانی نہ دیتے اور امریکا آگے نہ آتا تو شاید یہ آج بھی روس کا حصہ ہوتا اور آخر میں امریکا بھی بیس سال افغانستان پر قابض رہا لہٰذا افغان ناقابل تسخیر ہیں یہ مکمل غلط اور جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو افغان جہاد کی فیکٹری بنانے کے لیے نبراسکا میں گھڑا گیا تھا‘ اسی طرح اسلامیات میں جہاد سے متعلق مواد شامل کیا گیا اور اس کے ذریعے پاکستانی قوم کی ذہن سازی کی گئی‘ امریکا کی مدد سے نیم خواندہ مولوی حضرات کو بھی قوم کا ہیرو بنا دیا گیا‘ ان کے ہاتھ میں رائفل اور زبان پر شعلے بھی اگائے گئے‘ انھیں بڑی بڑی گاڑیوں اور رقبوں کا مالک بھی بنایا گیا جس کے نتیجے میں مولوی نے پاکستان کے ذہن اور ثقافت دونوں پر قبضہ کر لیا ‘اس کا نتیجہ یہ نکلا ہم آج خوف سے وہ سوال بھی نہیں کر سکتے جو رسول اللہ ﷺاور خلفاء راشدین کے زمانے میں عام بدو بھی کر لیا کرتے تھے اور اس سے دین پر حرف آتا تھا اور نہ حرمت رسول مجروح ہوتی تھی۔

 پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جس میں جنگ اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘ جس میں محمد بن قاسم اور محمود غزنوی سلیبس کا حصہ ہیں لہٰذا اس کا یہ نتیجہ نکلا پوری قوم کا مزاج جنگی ہو چکا ہے‘ لوگ اب سبزی اور نان خریدتے ہوئے بھی دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں‘ دوسرا ہم افغانوں سے ذہنی طور پر مغلوب ہو چکے ہیں‘ ہم افغانوں سے لڑتے ہوئے یا انھیں بے دخل کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ 45 سال کا ڈیٹا دیکھ لیں‘ ہم نے آدھی صدی میں افغانستان کی وجہ سے کتنی لاشیں اٹھائیں؟ کیا یہ اس خوف کا نتیجہ نہیں اور تیسرا اور آخری نتیجہ مولوی ملک کا قانون اور آئین بن چکے ہیں‘ یہ جب چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں اسے گستاخ رسول قرار دے کر زندہ جلا دیتے ہیں اور ریاست منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔

 آپ حکومت کی کم زوری ملاحظہ کیجیے‘ گورنمنٹ قبضے کی زمین پر بنائی مسجد کے خلاف بھی آپریشن کا حکم جاری نہیں کر سکتی‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو غیرمسلم قرار دے دیا جاتا ہے اور ریاست میں الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جرات نہیں ہوتی‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا ہماری ریاست اس ملک میں مصوری‘ مجسمہ سازی‘ موسیقی اور تھیٹر کے حق میں قانون سازی کر سکتی ہے؟ کیا یہ اسلام آباد میں مندر‘ گوردوارہ اور ٹمپل بنانے کی اجازت دے سکتی ہے اور کیا یہ اسلامیات کو دوبارہ دینیات اور مطالعہ  پاکستان کو معاشرتی علوم میں تبدیل کر سکتی ہے؟ جی نہیں! جو ریاست مدارس کی رجسٹریشن پر بلیک میل ہو جاتی ہے وہ اتنے بڑے بڑے فیصلے کیسے کرے گی ؟یہ ہے پاکستان‘ ایک نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: معاشرتی علوم میں پاکستان پاکستان میں اسلام آباد تھیں اور ہوتی تھی ہوتا تھا تھے اور تھا اور اور اس

پڑھیں:

اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!

ریاض احمدچودھری

مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّٰہ نے خطبہ حج میں دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہدا کو معاف فرما، زخمیوں کو شفا دے اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، فلسطین کے دشمن بچوں کے قاتل ہیں، ان قاتلوں کو تباہ کر دے۔حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّہ نے کہا کہ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
زمین اور آسمان کا مالک صرف رب ہے، تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے، اے ایمان والوں اپنے ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دور رہو، اللہ اور اس کے دین پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات پر عمل کرو۔’بدعت اور غیبت سے دور رہو۔ رب کے سوا غیر کو مت پکارو۔ رب کے سوا کسی غیر کی عبادت مت کرنا۔ نبی اکرم ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں، وہ خاتم النبین ہیں۔ اللہ اور بندے کا تعلق نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے فرمایا تعاون کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے والدین سے نیکی کرنا اور سچ بولنا ہے۔’خطبہ حج میں کہا گیا کہ یتیموں، مساکین، بیواؤں اور ہمسایوں کے ساتھ شفقت فرماؤ، اللہ کسی تکبر اور غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، شیطان تمہارے درمیان دوریاں ڈالتا ہے۔’نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو۔ روزہ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، اللہ تمہارا حج قبول کرے۔ خادم الحرمین شریفین نے ضیوف الرحمان کیلیے بہترین انتظامات کیے۔ حجتہ الوداع میں نبی پاک ۖ نے حج کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حضرت محمد ۖ نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کیا۔ حضرت محمد ۖ نے شیطان کو کنکریاں مار کر تزکیہ نفس کے بارے میں بتایا۔’امام مسجد الحرام نے کہا کہ ان دنوں میں اللہ کا تذکرہ کرو یہی تمہارے دن ہیں، اللہ خوش ہوتا ہے کہ میری خاطر جمع ہوئے ہیں، آپ اس مقام پر ہیں جس میں دعا قبول ہوگی، اللہ ہمارے مناسک حج کو قبول فرما، اے اللہ ہمارے گھروں میں عافیت فرما وطن کی حفاظت فرما۔ امت مسلمہ اسی صورت میں بام عروج تک پہنچ سکتی ہے جب قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے اورہرپہلومیں انہیں سرچشموں سے راہ ہدایت حاصل کریں ۔ امت مسلمہ اپنے اصلی منصب تبلیغ و دعوت کی طرف پلٹ کر اورجہادوقتال کے راستے کواپناکر اس دنیامیں اپنا ایک مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آنحضرت محمد ۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔”(النمل6)
آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
  • صدر زرداری  عید اسلام آباد  میں منائیں گے
  • عید الاضحیٰ فکر، قربانی اور اتحاد کا مقدس وقت ہے،دعا ہے یہ مبارک موقع ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دے: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور پاک افواج کا پاکستانی عوام کے نام پیغام
  • یہ عید حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے اسوہ حسنہ کی تائید و تجدید ہے،ڈاکٹرعشرت العباد
  • اسلام آباد: سرسبز خواب کی بکھرتی تعبیر
  • قطر جانے والی پرواز کی کراچی میں ہنگامی لینڈنگ
  • پاکستان میں44.7 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ،عالمی بینک
  • قرآن پاک ہدایت کا سرچشمہ
  • امام راحلؒ اور علامہ اقبال کا پیغامِ بیداری اور دنیائے اسلام کا آزمودہ راستہ