پاکستان اسٹیل کرپشن کیسز کا 12 سال بعد ڈراپ سین
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
کراچی:
پاکستان اسٹیل کرپشن کیسز کا 12 سال بعد ڈراپ سین ہوگیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے نیب کی جانب سے پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین اور دیگر ملزمان کے خلاف اپیلیں واپس لینے پر خارج کردیں۔ جسٹس عمر سیال کی سربراہی میں جسٹس حسن اکبر پر مشتمل بینچ کے روبرو احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نیب نے 5 ریفرنسز میں اپیلوں کی سماعت کی۔
نیب نے پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین اور دیگر ملزمان کے خلاف اپیلیں واپس لے لیں۔ عدالت نے اپیلیں واپس لینے پر خارج کردیں۔ ملزمان کی بریت کے خلاف دائر اپیلیں نیب بورڈ کی سفارش پر واپس لی گئیں۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پاکستان اسٹیل میں کرپشن کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ چیئرمین اسٹیل معین آفتاب، ثمین اصغر اور دیگر ملزمان کے خلاف 12 ریفرنس بنائے گئے تھے۔ 2021 میں احتساب عدالت نے تمام ملزمان کو بری کردیا تھا۔
احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نیب نے 5 ریفرنسز میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ ملزمان کی پیروی شوکت حیات جبکہ نیب کی پیروی شہباز سہوترا نے کی تھی۔ معین آفتاب شیخ، ثمین اصغر اور دیگر پر کروڑوں روپے کی کرپشن کا الزام تھا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان اسٹیل اور دیگر کے خلاف
پڑھیں:
ترکیہ: ہوٹل میں آگ لگنے سے 78 ہلاکتیں، ملزمان کو عمر قید کی سزا سنادی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: ترکیہ میں رواں سال کے آغاز پر ایک 12 منزلہ ہوٹل میں لگنے والی خوفناک آگ نے 78 قیمتی جانیں نگل لی تھیں، جن میں 34 معصوم بچے بھی شامل تھے۔
المناک واقعے میں 137 افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے کئی آج بھی جسمانی اور ذہنی صدمات سے گزر رہے ہیں۔ عدالت کی جانب سے اب اس کیس کا فیصلہ جاری کردیا گیا ہے، جس میں عدالت نے ہوٹل کے مالک سمیت 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
ترک عدالت کے فیصلے کے مطابق ہوٹل انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اور ناقص حفاظتی اقدامات اس حادثے کی بنیادی وجہ قرار پائے۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ ہوٹل میں ایمرجنسی انخلا کے راستے نہ تھے، فائر الارم سسٹم ناکارہ تھا اور عملہ بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت سے محروم تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ حادثہ انسانی غفلت، بے حسی اور منافع کے لالچ کا نتیجہ ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہوٹل کے اجازت نامے جاری کرنے والے سرکاری ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں میں ناکام رہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر سرکاری محکمے بروقت معائنہ کرتے اور حفاظتی معیارات پر عمل درآمد کو یقینی بناتے تو اتنی بڑی تباہی روکی جا سکتی تھی۔ عدالت نے انتظامی اہلکاروں کے کردار پر بھی سخت اظہارِ برہمی کیا اور حکومت کو مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے موثر قانون سازی کی سفارش کی۔
واضح رہے کہ صدر رجب طیب اِردوان نے بھی سانحے کے فوراً بعد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ حقائق سامنے لائے جا سکیں۔ واقعے کی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ہوٹل کی عمارت حفاظتی اصولوں کے برعکس تعمیر کی گئی تھی اور اس میں فائر سیفٹی سسٹم محض کاغذی کارروائی تک محدود تھا۔