بابر اعوان کی عمران سے ملاقات کی اجازت پر اڈیالہ جیل کے گیٹ پر تنازع کھڑا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
راولپنڈی اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کے موقع پر ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا، سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کا مؤقف تھا کہ ہم نے جو نام دیے ہیں، صرف انہی کو ملاقات کے لیے بھیجا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے اڈیالہ جیل میں آج ملاقات کا دن ہے، بابر اعوان کو ملاقات کی اجازت ملنے پر اڈیالہ جیل کے گیٹ پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ راولپنڈی اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات کے موقع پر ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا، قانونی ٹیم اور جیل انتظامیہ کے درمیان کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب بابر اعوان کو ملاقات کی اجازت ملنے پر گیٹ پر اختلافات دیکھنے میں آئے۔ سلمان اکرم راجہ نے جیل عملے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ ڈسپلن قائم کریں“، بابر اعوان کا نام ہماری لسٹ میں شامل نہیں، آپ نے انہیں اندر کیوں بلایا اور ان کی گاڑی بھی اندر منگوائی گئی۔؟
سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کا مؤقف تھا کہ ہم نے جو نام دیے ہیں، صرف انہی کو ملاقات کے لیے بھیجا جائے، بشری بی بی کی جانب سے سلمان صفدر اور عثمان گل کے نام شامل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت دی کہ یہ تمام معاملہ کل ہائیکورٹ میں طے ہو چکا ہے لہٰذا صرف ان 6 افراد کو ملاقات کی اجازت دی جائے جن کے نام پہلے سے فراہم کیے گئے تھے تاہم جیل انتظامیہ نے بالآخر بابراعوان، نیاز اللہ نیازی، اور سلمان اکرم راجہ کو ملاقات کی اجازت دے دی، اس کے علاوہ ظہیر عباس چودھری، نعیم حیدر پنجھوتہ اور سلمان صفدر کو بھی ملاقات کرنے کی اجازت مل گئی۔
جیل عملے کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام راہنماؤں کے نام فراہم کر دیے تھے اور جن کو اجازت دی گئی ہے ان کے ناموں سے بھی آگاہ کردیا گیا تھا تاہم ملاقاتوں کے دوران پیدا ہونے والے تنازعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا، یہ معاملہ اب مزید قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ آئندہ اس حوالے سے کیا پیش رفت ہوتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو ملاقات کی اجازت بابر اعوان اڈیالہ جیل ملاقات کے اور ان کی کے نام
پڑھیں:
تنزانیہ میں الیکشن تنازع شدت اختیار کرگیا، مظاہروں میں 700 افراد ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تنزانیہ میں عام انتخابات کے نتائج نے ملک کو شدید سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے، جہاں اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق صدر سمیعہ صولوہو حسن نے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، تاہم اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے مرکزی رہنماؤں کو قید میں ڈال دیا گیا یا انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، جس کے باعث نتائج مشکوک بن گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے نتائج کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے اور دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جہاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اپوزیشن ذرائع کے مطابق پولیس اور فوج کی فائرنگ اور تشدد کے نتیجے میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک جب کہ سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
مظاہرین نے کئی علاقوں میں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، گاڑیوں کو آگ لگائی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کا استعمال کیا۔ دوسری جانب حکومت نے دارالحکومت سمیت ادیگر حساس شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے، انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں جب کہ فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کو عوام کے خلاف غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اب تک کم از کم 100 ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔