مارچ کا مہینہ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے اور میں ہمیشہ اس موقعے پر عورتوں کی جدوجہد قربانیوں اورکامیابیوں کو یاد کرتی ہوں۔ ہر سال یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے کتنی محنت کی ہے اورکتنی رکاوٹوں کو عبورکیا ہے، مگر اس بار میرے لیے یہ مہینہ کچھ خاص ہے۔
میں یہ سب اس خوشی میں لکھ رہی ہوں کہ سنیتا ولیمز خلا میں نو مہینے پھنسے رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس آچکی ہیں۔ ان کا آٹھ دن کا مشن تکنیکی خرابی کی وجہ سے طویل ہوگیا تھا مگر انھوں نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ عورتیں کسی بھی بحران میں حوصلہ اور ہمت سے مقابلہ کر سکتی ہیں۔
سنیتا ولیمزکی کہانی صرف ایک خلانورد کی بہادری کی داستان نہیں بلکہ یہ ایک پیغام بھی ہے، ایک ایسی دنیا کے لیے جو آج بھی عورت کو کمزور اور محدود سمجھتی ہے۔ یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عورتوں کو موقع اور وسائل دیے جائیں تو وہ زمین ہی نہیں خلا تک بھی جا سکتی ہیں اور زندہ سلامت واپس آ کر تاریخ رقم کر سکتی ہیں۔
سنیتا کا پس منظر بھی اتنا ہی دلچسپ ہے جتنا ان کا خلائی سفر۔ ان کے والد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے امریکا گئے تھے اور والدہ سلووینیا سے تھیں۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوئی بھی فرد چاہے کسی بھی خطے سے ہو اگر اسے مواقعے میسر آئیں تو وہ دنیا کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ سنیتا نے نیوی میں خدمات انجام دیں اور پھر ناسا کے ذریعے خلا میں دو بار سفرکیا۔ ان کے سفر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عورتیں کمزور نہیں ہوتیں، اگر انھیں سازگار حالات دیے جائیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔
یہی حقیقت ہمیں پاکستان کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے۔ جب بینظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بن کر دنیا بھرکو حیران کردیا تھا تو یہ صرف ان کی اپنی کامیابی نہیں تھی، یہ ہر اس عورت کے خواب کی جیت تھی جسے یہ کہا جاتا تھا کہ سیاست مردوں کا میدان ہے۔ بینظیر نے دنیا کو دکھایا کہ عورتیں صرف گھرکی دہلیز تک محدود نہیں بلکہ ملک کی قیادت بھی کرسکتی ہیں۔
اسی طرح ملالہ یوسفزئی کی کہانی بھی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر عورتوں کو تعلیم اور آزادی دی جائے تو وہ نہ صرف خود کو سنوار سکتی ہیں بلکہ پوری دنیا میں انقلاب لا سکتی ہیں۔ ملالہ پر حملہ کرنے والے یہ سمجھے تھے کہ ایک 15 سال کی بچی کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر وہ خاموش نہ ہوئی۔
اس نے دنیا کے سب سے بڑے ایوانوں میں کھڑے ہو کر لڑکیوں کی تعلیم کا مقدمہ لڑا اور نوبل انعام جیت کر ثابت کردیا کہ عورتوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش میں واضح فرق رکھا جاتا ہے۔ لڑکوں کو آزادی دی جاتی ہے ان کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے والدین خود قربانی دیتے ہیں مگر لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا مقصد اچھی بیوی اور اچھی ماں بننا ہے۔ لڑکی اگر پڑھائی میں اچھی ہو بھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ آخر کو شادی ہی کرنی ہے، پڑھائی کا کیا فائدہ؟‘‘
یہ فرق ہمیں سماجی رویوں، تعلیم، ملازمت اور تنخواہوں میں بھی نظر آتا ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں 25 سے 30 فیصد تک کا فرق پایا جاتا ہے یعنی اگر ایک مرد 1000 روپے کماتا ہے تو اسی کام کے بدلے عورت کو صرف 700 سے 750 روپے دیے جاتے ہیں۔ غیر رسمی شعبوں میں یہ فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے جہاں عورتوں کو 40 فیصد تک کم اجرت دی جاتی ہے۔ یہ فرق اس بات کی علامت ہے کہ ہماری سماجی سوچ آج بھی عورت کو مرد سے کمتر سمجھتی ہے۔اسی عدم مساوات کی جھلک ہمیں وراثت میں بھی نظر آتی ہے جہاں بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے یہ سوچ کرکہ ’’ بیٹی پرایا دھن ہے‘‘ اور جائیداد کا حقدار صرف بیٹا ہے۔
سنیتا ولیمز بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین روشنی کی کرن ہیں جو دنیا کو بتاتی ہیں کہ عورتیں کسی سے کم نہیں۔ سنیتا کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عورت اگر خلا میں جا سکتی ہے تو وہ زمین پر اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکتی؟ بینظیر بھٹو نے وزیر ِاعظم بن کر اور ملالہ یوسفزئی نے نوبل انعام جیت کر دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستانی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ صرف چند نمایاں کامیابیاں کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا جو عورت کو کمزور اور کمتر سمجھتی ہے۔ ہر عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہونا چاہیے، چاہے وہ گھر میں ہو یا باہر تعلیم میں ہو یا نوکری میں۔
آئیں! مارچ کے مہینے میں یومِ خواتین کی مناسبت سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو روایتی زنجیروں میں قید کرنے کے بجائے انھیں آزاد پرواز کرنے دیں گے کیونکہ خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں ہوتے، انھیں حقیقت کا روپ دینا ہوتا ہے اور ہماری بیٹیاں یہ حقیقت بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔اپنی بیٹیوں بہنوں کو وہ اعتماد دیں کہ وہ نہ صرف خواب دیکھ سکیں بلکہ اس کی تعبیر بھی پا سکیں، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے تو ہماری عورت کو تعلیم یافتہ اور خود مختار ہونا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عورتوں کو کہ عورتیں سکتی ہیں دنیا کو عورت کو جاتا ہے ہمیں یہ کہ عورت کے لیے میں یہ ہے اور
پڑھیں:
صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ز قلم:خدیجہ طیب
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے قطر میں حماس کے رہنماؤں کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہاں انہیں “محفوظ پناہ گاہ” ملی ہوئی تھی۔
انہوں نے خبردار کیا:“میں قطر اور تمام اُن ممالک سے کہتا ہوں جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں: یا تو انہیں ملک بدر کریں یا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو ہم کریں گے۔”
یہ نیتن یاہو کے الفاظ ہیں: انصاف کا مطالبہ، اور سب سے حیران کن بات یہ کہ، خود اپنے زمانے کے سب سے بڑے دہشت گرد کی جانب سے کیا جا رہا ہے!
اسرائیل کا قطر میں دوحہ پر حالیہ حملہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے تھا کہ وہ اب صرف فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں رہا بلکہ جہاں چاہے اور جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ کوئی عام کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم پیغام تھا کہ جو بھی ہمارے راستے میں کھڑا ہوگا، اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوگی۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں مذاکراتی اجلاس میں شریک تھی۔
قطر پر اسرائیلی حملہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ یہ محض ایک ملک کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے خلاف ایک کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اُس خطے میں ہوا جہاں امریکا کی مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی بیس العدید ایئر بیس(Al Udeid Air Base) موجود ہے۔ ٹرمپ کا انجان بننا اور اسرائیل کا آگے بڑھنا، یہ سب مل کر ایک بڑی تصویر دکھاتے ہیں کہ دنیا کو ایک نئے عالمی نظام(New World Order)کیطرف دھکیلا جا رہا ہے؟ جس میں طاقت صرف چند ہاتھوں میں ہو گی اور باقی دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔
دنیا کے بیشتر طاقتور یہودی طبقات کا تعلق اشکنازی یہودیوں سے ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو زیادہ تر یورپ (خصوصاً مشرقی یورپ اور روس) سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ اسرائیلی ریاست میں سیاسی و فوجی غلبہ رکھتا ہے۔ صیہونی تحریک (Zionism) کی بنیاد رکھنے اور اسے عملی ریاست میں ڈھالنے کا سہرا بھی زیادہ تر انہی کے سر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اشکنازی یہودی دراصل چاہتے کیا ہیں؟
سب سے پہلے ان کا مقصد ہے طاقت اور بالادستی۔ یہودی تاریخ میں صدیوں کی غلامی، بیدخلی اور جلاوطنی کے بعد اشکنازی یہودیوں نے یہ سوچ پختہ کر لی کہ انہیں ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں بلکہ خود دوسروں کو اپنا محکوم بنائیں۔ اسی سوچ نے ’’ریاستِ اسرائیل‘‘ کو جنم دیا، لیکن یہ ان کا آخری ہدف نہیں۔
دوسرا مقصد ہے گریٹر اسرائیل کا قیام۔ اشکنازی یہودی اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ ان کا ’’وعدہ شدہ ملک‘‘ (promised land) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین محض پہلا قدم ہے، اصل خواب اس میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن، شام، لبنان، عراق، مصر کے حصے، حتیٰ کہ سعودی عرب کے شمالی علاقے بھی شامل ہیں۔ اسی توسیع پسندی نے پورے خطے کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ یعنی فلسطین کے بعد بھی یہ رکے گا نہیں۔ یہ جنگ ہماری دہلیز تک آ کر ہی رہےگی۔
آج اگر قطر نشانہ ہے، تو کل کوئی اور ہوگا۔ کیا عرب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ خاموش رہ کر وہ بچ جائے گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی بھوک کبھی نہیں ختم ہوتی۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج ہم نے صفیں نہ باندھیں، تو آنے والے کل میں یہی آگ ہمیں بھی لپیٹ لے گی۔
امت کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کی کمی ہے۔ ایک طرف 2 ارب مسلمان ہیں، دوسری طرف 15 ملین اسرائیلی۔ لیکن طاقت کس کے پاس ہے؟ جس کے پاس اتحاد اور نظم ہے۔ قرآن ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہے: “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران 103)۔ لیکن ہم نے رسی چھوڑ دی اور تفرقے کو گلے لگا لیا۔ یہی ہماری شکست کی اصل جڑ ہے۔
نیا عالمی نظام جسے صیہونی اشکنازی اور ان کے عالمی اتحادی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے:ایک ایسی دنیا جہاں طاقت اور دولت چند ہاتھوں میں ہو۔ فیصلے چند خفیہ ایجنڈے رکھنے والے گروہ کریں۔ قوموں کی آزادی محض دکھاوا ہو۔جس کے پاس زیادہ طاقت ہوگی، وہی بغیر کسی معاہدے کو توڑے، ظلم کرنے کا اختیار رکھے گا۔اور انسانوں کو ایک ایسے نظام میں جکڑ دیا جائے جہاں مزاحمت کا کوئی راستہ نہ بچے۔
اب نہیں تو کب؟
سوال یہی ہے — اب نہیں تو کب؟
اگر آج بھی امت نے غفلت برتی، اگر آج بھی حکمران ذاتی مفاد کے اسیر رہے، اگر عوام نے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ آج قطر ہے، کل شاید پاکستان، ایران، یا کوئی اور عرب ملک۔
یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم بیدار ہوں، یا پھر تاریخ ہمیں مٹتے ہوئے دیکھے۔ا