Express News:
2025-11-03@16:58:18 GMT

عورت، خلا اور خواب

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

مارچ کا مہینہ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے اور میں ہمیشہ اس موقعے پر عورتوں کی جدوجہد قربانیوں اورکامیابیوں کو یاد کرتی ہوں۔ ہر سال یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے کتنی محنت کی ہے اورکتنی رکاوٹوں کو عبورکیا ہے، مگر اس بار میرے لیے یہ مہینہ کچھ خاص ہے۔

میں یہ سب اس خوشی میں لکھ رہی ہوں کہ سنیتا ولیمز خلا میں نو مہینے پھنسے رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس آچکی ہیں۔ ان کا آٹھ دن کا مشن تکنیکی خرابی کی وجہ سے طویل ہوگیا تھا مگر انھوں نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ عورتیں کسی بھی بحران میں حوصلہ اور ہمت سے مقابلہ کر سکتی ہیں۔

سنیتا ولیمزکی کہانی صرف ایک خلانورد کی بہادری کی داستان نہیں بلکہ یہ ایک پیغام بھی ہے، ایک ایسی دنیا کے لیے جو آج بھی عورت کو کمزور اور محدود سمجھتی ہے۔ یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عورتوں کو موقع اور وسائل دیے جائیں تو وہ زمین ہی نہیں خلا تک بھی جا سکتی ہیں اور زندہ سلامت واپس آ کر تاریخ رقم کر سکتی ہیں۔

سنیتا کا پس منظر بھی اتنا ہی دلچسپ ہے جتنا ان کا خلائی سفر۔ ان کے والد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے امریکا گئے تھے اور والدہ سلووینیا سے تھیں۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوئی بھی فرد چاہے کسی بھی خطے سے ہو اگر اسے مواقعے میسر آئیں تو وہ دنیا کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ سنیتا نے نیوی میں خدمات انجام دیں اور پھر ناسا کے ذریعے خلا میں دو بار سفرکیا۔ ان کے سفر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عورتیں کمزور نہیں ہوتیں، اگر انھیں سازگار حالات دیے جائیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔

 یہی حقیقت ہمیں پاکستان کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے۔ جب بینظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بن کر دنیا بھرکو حیران کردیا تھا تو یہ صرف ان کی اپنی کامیابی نہیں تھی، یہ ہر اس عورت کے خواب کی جیت تھی جسے یہ کہا جاتا تھا کہ سیاست مردوں کا میدان ہے۔ بینظیر نے دنیا کو دکھایا کہ عورتیں صرف گھرکی دہلیز تک محدود نہیں بلکہ ملک کی قیادت بھی کرسکتی ہیں۔

 اسی طرح ملالہ یوسفزئی کی کہانی بھی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر عورتوں کو تعلیم اور آزادی دی جائے تو وہ نہ صرف خود کو سنوار سکتی ہیں بلکہ پوری دنیا میں انقلاب لا سکتی ہیں۔ ملالہ پر حملہ کرنے والے یہ سمجھے تھے کہ ایک 15 سال کی بچی کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر وہ خاموش نہ ہوئی۔

اس نے دنیا کے سب سے بڑے ایوانوں میں کھڑے ہو کر لڑکیوں کی تعلیم کا مقدمہ لڑا اور نوبل انعام جیت کر ثابت کردیا کہ عورتوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش میں واضح فرق رکھا جاتا ہے۔ لڑکوں کو آزادی دی جاتی ہے ان کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے والدین خود قربانی دیتے ہیں مگر لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا مقصد اچھی بیوی اور اچھی ماں بننا ہے۔ لڑکی اگر پڑھائی میں اچھی ہو بھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ آخر کو شادی ہی کرنی ہے، پڑھائی کا کیا فائدہ؟‘‘

 یہ فرق ہمیں سماجی رویوں، تعلیم، ملازمت اور تنخواہوں میں بھی نظر آتا ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں 25 سے 30 فیصد تک کا فرق پایا جاتا ہے یعنی اگر ایک مرد 1000 روپے کماتا ہے تو اسی کام کے بدلے عورت کو صرف 700 سے 750 روپے دیے جاتے ہیں۔ غیر رسمی شعبوں میں یہ فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے جہاں عورتوں کو 40 فیصد تک کم اجرت دی جاتی ہے۔ یہ فرق اس بات کی علامت ہے کہ ہماری سماجی سوچ آج بھی عورت کو مرد سے کمتر سمجھتی ہے۔اسی عدم مساوات کی جھلک ہمیں وراثت میں بھی نظر آتی ہے جہاں بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے یہ سوچ کرکہ ’’ بیٹی پرایا دھن ہے‘‘ اور جائیداد کا حقدار صرف بیٹا ہے۔

سنیتا ولیمز بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین روشنی کی کرن ہیں جو دنیا کو بتاتی ہیں کہ عورتیں کسی سے کم نہیں۔ سنیتا کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عورت اگر خلا میں جا سکتی ہے تو وہ زمین پر اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکتی؟ بینظیر بھٹو نے وزیر ِاعظم بن کر اور ملالہ یوسفزئی نے نوبل انعام جیت کر دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستانی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ صرف چند نمایاں کامیابیاں کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا جو عورت کو کمزور اور کمتر سمجھتی ہے۔ ہر عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہونا چاہیے، چاہے وہ گھر میں ہو یا باہر تعلیم میں ہو یا نوکری میں۔

آئیں! مارچ کے مہینے میں یومِ خواتین کی مناسبت سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو روایتی زنجیروں میں قید کرنے کے بجائے انھیں آزاد پرواز کرنے دیں گے کیونکہ خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں ہوتے، انھیں حقیقت کا روپ دینا ہوتا ہے اور ہماری بیٹیاں یہ حقیقت بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔اپنی بیٹیوں بہنوں کو وہ اعتماد دیں کہ وہ نہ صرف خواب دیکھ سکیں بلکہ اس کی تعبیر بھی پا سکیں، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے تو ہماری عورت کو تعلیم یافتہ اور خود مختار ہونا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عورتوں کو کہ عورتیں سکتی ہیں دنیا کو عورت کو جاتا ہے ہمیں یہ کہ عورت کے لیے میں یہ ہے اور

پڑھیں:

وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم

وزارت صحت کی جانب سے  سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد کیا گیا جہاں وفاقی وزیر صحت سید مصطفی کمال نے تقریب سے اہم خطاب کیا۔ 

خطاب میں وفاقی وزیر صحت کا کہنا تھا پاکستان میں ادویات کا سسٹم آئیڈیل نہیں اسکو بہتر بنانا ہے۔ ہم آپکے فلاح و بہبود کا خیال رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں لوگ لائف اسٹائل میڈیسن پر جارہے ہیں۔ بغیر دوا دیئے علاج کیا جارہا ہے۔ اب ہسپتالوں کے مشکلات بتانے کا وقت گزر گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہورہا ہے ہیلتھ کیئر کا نہیں، سرکار اداروں کو برا کہنے سے مریضوں کی جان نہیں بچ سکتی۔ ہمیں ہیلتھ کیئر میں جانا ہے بیمار سسٹم سے دور رہنا ہے۔ ہمارے پاس 70 فیصد بیماریاں پینے کے صاف پانی کے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے پھیل رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کینسر سے بچنے کی ادویات پر تجربات چل رہے ہیں۔ جب دنیا میں کینسر سے اموات ختم ہونگی پاکستان میں تب بھی لوگ اس بیماری سے مریں گے کیوں کہ اس دوا میں حلال حرام کا مسئلہ پیدا کرکے دوا کے استعمال پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ 

ملک میں لاکھوں لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں دس ہزار مائیں ہر سال زچگی میں مر رہی ہیں، ہم دنیا میں ہیپاٹائٹس میں پہلے نمبر پر آگئے ہیں۔

ہیپٹائٹس میں پاکستان بدقسمتی سے سرفہرست ہے۔ ویکسین بچانے کے لیے حکومت مؤثر اقدامات کررہی ہے۔ پانچ سو بلین روپے کی ویکسین سالانہ استعمال ہوتی ہے جبکہ ایک ارب ڈالر ویکسین امپورٹ پر خرچ ہوتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے علماء کا ضمیر خریدنا آسان کام نہیں: طاہر اشرفی
  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • ہمیں دھمکی دیتے ہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیں گے، بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول، فضل الرحمان
  • بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے،خواجہ آصف