امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کا رویہ کچھ اس طرح کا چلا آرہا ہے جیسے یہ اقتدار میں براستہ انتخاب نہیں بلکہ اپنے حصے کا کوئی چھوٹا موٹا انقلاب فرانس برپا کرکے آئے ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ دوسری فتح امریکی سیاسی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، اور اس کے لیے انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، مگر خود کو انقلابی ہی سمجھ بیٹھنا؟ وہ شاید جانتے نہیں کہ جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا انہیں کرنا پڑا، اس طرح کی رکاوٹیں ترقی پذیر ممالک کی جمہوریت میں عام ہیں۔ خود ہمارے ہاں محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے کیریئر ہی دیکھ لیے جائیں جو مشکلات سے پر نظر آئیں گے۔ لیکن ہمارے ان رہنماؤں کو کبھی بھی یہ خوش فہمی لاحق نہیں رہی کہ الیکشن جیت کر انہوں نے کوئی انقلاب ایران برپا کرلیا ہے۔
سوال تو بنتا ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو انقلاب والی فیلنگز کیوں آرہی ہیں؟ یقین جانیے جواب بالکل ہی سادہ سا ہے، سوویت زوال کے بعد جب ہمارے اس وقت کے کمیونسٹ حلقہ بگوشِ لبرلزم ہوگئے تو انہوں نے پورے اخلاص کے ساتھ یہ کوششیں شروع کردیں کہ پاکستان سوویت یونین جیسا نہیں بن پایا تو چلو امریکا جیسا ہی بن جائے، ان کی اس دوسری کوشش کا حال بھی پہلی کوشش جیسا ہوتا دیکھ کر امریکیوں نے طے کرلیا کہ اگر پاکستانی ہم جیسے بھی بننے پر آمادہ نہیں تو چلیں ہم ہی ان جیسے بن لیتے ہیں، اب ذرا یاد کیجیے وہ دور جب ہمارے دانشور ہمیں بتایا کرتے کہ امریکا میں جو بھی انتخاب جیت جائے اس کی فتح خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلی جاتی ہے، اور یہ کہ یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہارنے والا دھاندلی کے الزام لگاتا ہے۔ ان حالات میں 2016 کا سال ایک ایسے سال کے طور پر آیا جب پہلی بار کسی امریکی صدر کی فتح تسلیم نہیں کی گئی، اور مزے کی بات یہ کہ امریکی انتخابی سیاست کو پاکستانی سیاست کی سطح پر لا پھینکنے والی یہ حرکت امریکی لبرلز نے ہی کی۔
ہمیں ہمارے لوکل لبرلز سالہا سال سے یہ بھی بتاتے آرہے تھے کہ یہودی سازش، بھارت کا ایجنٹ اور مودی کا یار جیسی باتیں صرف ہماری سیاست میں ہوتی ہیں، مہذب اقوام کے ہاں یہ سیاسی کلچر نہیں پایا جاتا۔ 2016 میں ہی ’روسی سازش‘ اور پیوٹن کا ایجنٹ جیسی باتیں ہم سب نے امریکی سیاست میں سنیں کہ نہیں؟ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، 2020 کا امریکی صدارتی انتخاب بھی دیکھ لیجیے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کی؟ صرف یہی نہیں کہ شکست تسلیم نہیں کی بلکہ کیپٹل ہل پر ہی یلغار کروا دی۔ یوں گویا امریکی مقدس ایوان کو بھی پاکستانی ایوان کی سطح پر آنے کی سعادت نصیب ہوگئی، مگر ایک معاملے میں امریکا اب بھی ہم سے پیچھے تھا، وہ ہے ’سیاسی انتقام‘۔ مخالف رہنما کو درجنوں مقدمات میں الجھا کر عدالتوں میں گھسیٹنا ابھی باقی تھا، اس کار خیر کی توفیق بھی لبرلز کے حصے میں آئی، جوبائیڈن نے ٹرمپ کو عدالتوں میں اس شان سے کھینچا کہ نیویارک کے ایک جج نے تو یہ بھی ثابت کردیا کہ رشتے میں وہ پانامہ بینچ والے ججز کے بھی ابا حضور لگتے ہیں۔ مگرپاکستانی سیاست کی ہمسری میں ایک اہم چیز اب بھی باقی تھی، قتل اور اقدام قتل! سو 2024 کی انتخابی مہم میں امریکا اس باب میں بھی ہمارے لیول پر آگیا، ٹرمپ کی خوش قسمتی کہ وہ بال بال بچے ورنہ اگلوں نے اپنے حصے کا سانحہ لیاقت باغ برپا کرنے میں کوئی کمی چھوڑی نہ تھی۔
اب امریکا میں چونکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عدالتی انتقام اور قاتلانہ حملوں سے بچ کر کوئی امیدوار انتخاب جیتا ہے تو اسے انقلابیوں والی فیلنگز تو آئیں گی، اگلے 15 سے 20 برسوں میں جب یہ سب امریکی سیاست کا بھی باقاعدہ معمول بن چکے گا تو تب انقلابیوں والی فیلنگز آنی بند ہوجائیں گی، اور اس آنے والے دور کے امریکی سیاستدان بھی اپنے ورکرز کو ووٹ کو عزت دلوانے والے چونے لگانے کا چلن اختیار کرچکے ہوں گے۔
انقلابی فیلنگز ہوتی تو بہت میٹھی ہیں مگر اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں، خود کو انقلابی سمجھنے کا پہلا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہوتا ہے کہ ان فیلنگز کا شکار شخص خود سر ہوجاتا ہے، وہ قدم قدم پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سسٹم کو بدلنے جا رہا ہے لہٰذا وہ کسی کی نہیں سنے گا، سسٹم بدلنے کے دعوؤں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے لازم ہے کہ نئے چہرے متعارف کرائے جائیں، پرانی شکلیں دیکھ کر تو لوگ پہلی ہی نظر میں سمجھ جاتے ہیں کہ اسٹیٹس کو بحال ہے، یوں ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں کئی چہرے ایسے ہیں جنہیں لونڈے لپاڑے کہنا بے جا نہ ہوگا۔ عام حالات میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ فاکس نیوز کا کیٹیگری دوئم کا اینکر امریکی وزیر دفاع بھی بن سکتا ہے۔ ممکن ہے آپ سوچیں کہ پیٹ ہیگسیتھ تو ریٹائرڈ فوجی افسر بھی ہیں یوں اس وزارت سے ان کا جوڑ بنتا تو ہے۔ سو عرض کردیں کہ موصوف دفاعی امور کی بس اتنی ہی قابلیت رکھتے ہیں کہ اپنے فوجی کیریئر میں لیفٹیننٹ کرنل رینک سے آگے نہ جاسکے، ممکن ہے اب آپ یہ سوچیں کہ بالعموم تو سویلین ہی وزیر دفاع ہوتے ہیں، سو اگر وہ اس وزارت کا قلمدان سنبھال سکتے ہیں تو کوئی لیفٹیننٹ کرنل کیوں نہیں؟۔ تو بات یہ ہے کہ جنگ کے متعلق کہاجاتا ہے “war is the extension of politics by other means” سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اوزاروں کے فرق کے ساتھ سیاست کا ہی تسلسل ہے، یوں جنگ کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک خالصتاً حربی جو میدان جنگ سے جڑا ہوتا ہے تو دوسرا سیاسی پہلو جس کے لیے جنگ استعمال ہورہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمیں جو سویلین وزرائے دفاع نظر آتے ہیں وہ جنگ کے سیاسی پہلو کے ہی ماسٹر ہوتے ہیں، اور پیٹ ہیگسیتھ کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ تلسی گابرڈ کا بھی ہے، وہ حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ہیں، انٹیلی جنس کی فیلڈ کا وہ بس اتنا ہی تجربہ رکھتی ہیں کہ یہ جانتی ہیں کہ دنیا میں حکومتوں کے تختے انٹیلی جنس ادارے الٹتے ہیں۔ یعنی اس فیلڈ کا کوئی تجربہ نہیں بس اس سے متعلق میڈیا رپورٹس ہی پڑھ سن رکھی ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تعینات فرما رکھا ہے۔ یوں امریکا کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ ان کو جوابدہ ہیں، اب مضحکہ خیزی دیکھیے کہ امریکا کی دو انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہ 3 اسٹار جنرلز ہوتے ہیں، ان میں سے ایک این ایس اے ہے اور دوسری ڈیفنس انٹیلی جنس، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں ایجنسیز کے حاضر سروس 3 اسٹار جنرلز اس وقت امریکی فوج کی حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل تلسی گابرڈ کے ماتحت ہیں۔ اگر جرنیلوں کو ذلیل کرنا مقصود ہو تو انہیں اس سے بری سزا نہیں دی جاسکتی کہ امریکی فوج کے 47 عدد 4 اسٹارز جنرلز سے ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل پیٹ ہیگسیتھ کو سیلیوٹ ٹھکوائے جائیں، اور دو عدد حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرلز سے لیفٹیننٹ کرنل تلسی گابرڈ کو یس میم! یس میم! کروایا جائے، مگر کیا یہ انقلابی فیلنگز سائیڈ ایفیکٹس کے بغیر ہوسکتی ہیں؟
ہم نے بطور مثال یہ دو نام پیش کیے ہیں ورنہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انقلابی فیلنگز کے زیر اثر اپنی ٹیم میں ان دو کے علاوہ بھی کئی جونیئرز بھر رکھے ہیں، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس بھی شامل ہیں جو ایک جونیئر لیول کے سینیٹر تھے۔ اب دیکھیے سائیڈ ایفیکٹ جو کرارے جھٹکے کے ساتھ یوں ظاہر ہوا ہے کہ ٹرمپ ٹیم کے جملہ لونڈوں لپاڑوں نے مواصلاتی ایپ سگنل پر ایک چیٹ گروپ بنا رکھا تھا، جہاں یہ سارے ارسطو یمن پر حملے کی تیاری کے سلسلے میں تبادلہ خیال فرما رہے تھے، یہ سارا تبادلہ خیال دی اٹلانٹک میگزین نے اسکرین شاٹس سمیت چھاپ دیا ہے۔ صورت اس کی یوں بنی کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے اس چیٹ گروپ میں دی اٹلانٹک کے ایڈیٹر جیفری گولڈبرگ کو ایڈ کرلیا تھا، اور انہوں نے ہی یہ سب چھاپ ڈالا، جو ایک بڑے اسکینڈل کی شکل اختیار کررہا ہے۔
جیفری گولڈ برگ کٹر قسم کے لبرل ہی نہیں ہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بدترین مخالف بھی ہیں، سو پوری ٹرمپ انتظامیہ کا زور اس بات پر ہے کہ یہ تو بہت گھٹیا قسم کا صحافی ہے، اسے تو کوئی پڑھتا ہی نہیں، مگر یہ نہیں بتایا جارہا کہ امریکی سیکیورٹی ٹیم کے یہ سارے ارسطو ایک عام کمرشل ایپ پر چیٹ گروپ کیوں چلا رہے تھے؟ گویا دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت کی اعلیٰ سطحی سیکیورٹی ٹیم نہ ہوئی کسی پاکستانی کالج کے اساتذہ کا وٹس ایپ گروپ ہوگیا۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ اتنے حساس گروپ میں جیفری گولڈبرگ کیا کر رہے تھے؟ مائیک والٹز نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ تو انہیں جانتے تک نہیں، پتا نہیں یہ کیسے ایڈ ہوگئے۔
ہم بتائیں آپ کو کہ یہ جیفری گولڈبرگ اس چیٹ گروپ میں کیسے ایڈ ہوگئے؟ ٹرمپ ٹیم میں تلسی گابرڈ، پیٹ ہیگسیتھ، کاش پٹیل اور مائیک والٹز پکے ڈھکے صہیونی ہیں۔ اور صہیونیت وہ چورہا ہے جہاں لبرلز اور کنزرویٹوز باہمی جھگڑے بھول کر ساتھ بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں یک آواز ہوجاتے ہیں، یمن پر امریکی حملہ دراصل اسرائیل کے مفاد کے لیے ہی تھا تو جیفری گولڈ برگ کو کیسے نظر انداز کردیا جاتا؟ ان کا لبرل اور ٹرمپ مخالف ہونا نظرانداز کرکے بس یہ دیکھا گیا کہ یہ وہی جیفری گولڈ برگ ہے جو اسرائیل کی فوج میں ہی نہیں رہ چکا بلکہ پہلی انتفاضہ میں گرفتار ہونے والے فلسطینی قیدیوں پر بطور سفاک گارڈ بھی مسلط رہ چکا ہے۔ جب اس پس منظر کے ساتھ آپ آج کی تاریخ میں دی اٹلانٹک جیسے اہم لبرل میگزین کے ایڈیٹر ہوں تو آپ کو آن بورڈ رکھنا ضروری سمجھ لیا جاتا ہے۔ سو مائیک والٹز کا یہ کہنا کہ وہ تو جیفری گولڈبرگ کو جانتے تک نہیں ایک نری بکواس ہے، واردات ان پلاسٹکی انقلابیوں کے ساتھ یہ ہوگئی ہے کہ جیفری گولڈ برگ نے اسرائیلی مفاد دیکھنے کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی انقلابی فیلنگز ختم کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر انقلابی فیلنگز پاکستان جوبائیڈن لوکل لبرلز واردات وی نیوز لیفٹیننٹ کرنل انٹیلی جنس تلسی گابرڈ ڈونلڈ ٹرمپ ہوتے ہیں ہی نہیں کے ساتھ ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت خود ہی کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات دیکھ لیں، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت خود ہی کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات دیکھ لیں گے، ان دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر اب امریکی صدر ٹرمپ کا ردِ عمل بھی سامنے آگیا ہے۔
امریکی صدر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت تناؤ کاحل خود کسی نہ کسی طرح نکال لیں گے۔
پہلگام حملے کو بھارتی حکومت کی سازش قرار دینے پر...
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے، دونوں ملک کسی نہ کسی طرح اس کا حل نکال لیں گے، دونوں ممالک کے رہنماؤں کو جانتا ہوں۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ اس واقعہ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم ان لوگوں کے لیے دعاگو ہیں جن کے عزیز اس واقعہ میں مارے گئے اور دعاگو ہیں کہ زخمی جلد صحت یاب ہوں۔
اس سوال پر کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے کردار کی خواہش ظاہر کی تھی، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تبصرہ نہیں کریں گی۔
اس سوال پر کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی کم کرانے کے لیے کوئی کردار ادا کررہی ہے؟
ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یقینی طور پر اس وقت ہم کشمیر یا جموں کے اسٹیٹس پر کوئی مؤقف نہیں اپنا رہے۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 بھارتی سیاحوں کے قتل کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت کیے جانے والے اقدامات پر پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا ہے۔