WE News:
2025-09-18@18:01:29 GMT

’انقلابی فیلنگز‘

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کا رویہ کچھ اس طرح کا چلا آرہا ہے جیسے یہ اقتدار میں براستہ انتخاب نہیں بلکہ اپنے حصے کا کوئی چھوٹا موٹا انقلاب فرانس برپا کرکے آئے ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ دوسری فتح امریکی سیاسی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، اور اس کے لیے انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، مگر خود کو انقلابی ہی سمجھ بیٹھنا؟ وہ شاید جانتے نہیں کہ جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا انہیں کرنا پڑا، اس طرح کی رکاوٹیں ترقی پذیر ممالک کی جمہوریت میں عام ہیں۔ خود ہمارے ہاں محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے کیریئر ہی دیکھ لیے جائیں جو مشکلات سے پر نظر آئیں گے۔ لیکن ہمارے ان رہنماؤں کو کبھی بھی یہ خوش فہمی لاحق نہیں رہی کہ الیکشن جیت کر انہوں نے کوئی انقلاب ایران برپا کرلیا ہے۔

سوال تو بنتا ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو انقلاب والی فیلنگز کیوں آرہی ہیں؟ یقین جانیے جواب بالکل ہی سادہ سا ہے، سوویت زوال کے بعد جب ہمارے اس وقت کے کمیونسٹ حلقہ بگوشِ لبرلزم ہوگئے تو انہوں نے پورے اخلاص کے ساتھ یہ کوششیں شروع کردیں کہ پاکستان سوویت یونین جیسا نہیں بن پایا تو چلو امریکا جیسا ہی بن جائے، ان کی اس دوسری کوشش کا حال بھی پہلی کوشش جیسا ہوتا دیکھ کر امریکیوں نے طے کرلیا کہ اگر پاکستانی ہم جیسے بھی بننے پر آمادہ نہیں تو چلیں ہم ہی ان جیسے بن لیتے ہیں، اب ذرا یاد کیجیے وہ دور جب ہمارے دانشور ہمیں بتایا کرتے کہ امریکا میں جو بھی انتخاب جیت جائے اس کی فتح خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلی جاتی ہے، اور یہ کہ یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہارنے والا دھاندلی کے الزام لگاتا ہے۔ ان حالات میں 2016 کا سال ایک ایسے سال کے طور پر آیا جب پہلی بار کسی امریکی صدر کی فتح تسلیم نہیں کی گئی، اور مزے کی بات یہ کہ امریکی انتخابی سیاست کو پاکستانی سیاست کی سطح پر لا پھینکنے والی یہ حرکت امریکی لبرلز نے ہی کی۔

ہمیں ہمارے لوکل لبرلز سالہا سال سے یہ بھی بتاتے آرہے تھے کہ یہودی سازش، بھارت کا ایجنٹ اور مودی کا یار جیسی باتیں صرف ہماری سیاست میں ہوتی ہیں، مہذب اقوام کے ہاں یہ سیاسی کلچر نہیں پایا جاتا۔ 2016 میں ہی ’روسی سازش‘ اور پیوٹن کا ایجنٹ جیسی باتیں ہم سب نے امریکی سیاست میں سنیں کہ نہیں؟ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، 2020 کا امریکی صدارتی انتخاب بھی دیکھ لیجیے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کی؟ صرف یہی نہیں کہ شکست تسلیم نہیں کی بلکہ کیپٹل ہل پر ہی یلغار کروا دی۔ یوں گویا امریکی مقدس ایوان کو بھی پاکستانی ایوان کی سطح پر آنے کی سعادت نصیب ہوگئی، مگر ایک معاملے میں امریکا اب بھی ہم سے پیچھے تھا، وہ ہے ’سیاسی انتقام‘۔ مخالف رہنما کو درجنوں مقدمات میں الجھا کر عدالتوں میں گھسیٹنا ابھی باقی تھا، اس کار خیر کی توفیق بھی لبرلز کے حصے میں آئی، جوبائیڈن نے ٹرمپ کو عدالتوں میں اس شان سے کھینچا کہ نیویارک کے ایک جج نے تو یہ بھی ثابت کردیا کہ رشتے میں وہ پانامہ بینچ والے ججز کے بھی ابا حضور لگتے ہیں۔ مگرپاکستانی سیاست کی ہمسری میں ایک اہم چیز اب بھی باقی تھی، قتل اور اقدام قتل! سو 2024 کی انتخابی مہم میں امریکا اس باب میں بھی ہمارے لیول پر آگیا، ٹرمپ کی خوش قسمتی کہ وہ بال بال بچے ورنہ اگلوں نے اپنے حصے کا سانحہ لیاقت باغ برپا کرنے میں کوئی کمی چھوڑی نہ تھی۔

اب امریکا میں چونکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عدالتی انتقام اور قاتلانہ حملوں سے بچ کر کوئی امیدوار انتخاب جیتا ہے تو اسے انقلابیوں والی فیلنگز تو آئیں گی، اگلے 15 سے 20 برسوں میں جب یہ سب امریکی سیاست کا بھی باقاعدہ معمول بن چکے گا تو تب انقلابیوں والی فیلنگز آنی بند ہوجائیں گی، اور اس آنے والے دور کے امریکی سیاستدان بھی اپنے ورکرز کو ووٹ کو عزت دلوانے والے چونے لگانے کا چلن اختیار کرچکے ہوں گے۔

انقلابی فیلنگز ہوتی تو بہت میٹھی ہیں مگر اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں، خود کو انقلابی سمجھنے کا پہلا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہوتا ہے کہ ان فیلنگز کا شکار شخص خود سر ہوجاتا ہے، وہ قدم قدم پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سسٹم کو بدلنے جا رہا ہے لہٰذا وہ کسی کی نہیں سنے گا، سسٹم بدلنے کے دعوؤں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے لازم ہے کہ نئے چہرے متعارف کرائے جائیں، پرانی شکلیں دیکھ کر تو لوگ پہلی ہی نظر میں سمجھ جاتے ہیں کہ اسٹیٹس کو بحال ہے، یوں ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں کئی چہرے ایسے ہیں جنہیں لونڈے لپاڑے کہنا بے جا نہ ہوگا۔ عام حالات میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ فاکس نیوز کا کیٹیگری دوئم کا اینکر امریکی وزیر دفاع بھی بن سکتا ہے۔ ممکن ہے آپ سوچیں کہ پیٹ ہیگسیتھ تو ریٹائرڈ فوجی افسر بھی ہیں یوں اس وزارت سے ان کا جوڑ بنتا تو ہے۔ سو عرض کردیں کہ موصوف دفاعی امور کی بس اتنی ہی قابلیت رکھتے ہیں کہ اپنے فوجی کیریئر میں لیفٹیننٹ کرنل رینک سے آگے نہ جاسکے، ممکن ہے اب آپ یہ سوچیں کہ بالعموم تو سویلین ہی وزیر دفاع ہوتے ہیں، سو اگر وہ اس وزارت کا قلمدان سنبھال سکتے ہیں تو کوئی لیفٹیننٹ کرنل کیوں نہیں؟۔ تو بات یہ ہے کہ جنگ کے متعلق کہاجاتا ہے “war is the extension of politics by other means” سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اوزاروں کے فرق کے ساتھ سیاست کا ہی تسلسل ہے، یوں جنگ کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک خالصتاً حربی جو میدان جنگ سے جڑا ہوتا ہے تو دوسرا سیاسی پہلو جس کے لیے جنگ استعمال ہورہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمیں جو سویلین وزرائے دفاع نظر آتے ہیں وہ جنگ کے سیاسی پہلو کے ہی ماسٹر ہوتے ہیں، اور پیٹ ہیگسیتھ کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

کچھ اسی طرح کا معاملہ تلسی گابرڈ کا بھی ہے، وہ حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ہیں، انٹیلی جنس کی فیلڈ کا وہ بس اتنا ہی تجربہ رکھتی ہیں کہ یہ جانتی ہیں کہ دنیا میں حکومتوں کے تختے انٹیلی جنس ادارے الٹتے ہیں۔ یعنی اس فیلڈ کا کوئی تجربہ نہیں بس اس سے متعلق میڈیا رپورٹس ہی پڑھ سن رکھی ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تعینات فرما رکھا ہے۔ یوں امریکا کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ ان کو جوابدہ ہیں، اب مضحکہ خیزی دیکھیے کہ امریکا کی دو انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہ 3 اسٹار جنرلز ہوتے ہیں، ان میں سے ایک این ایس اے ہے اور دوسری ڈیفنس انٹیلی جنس، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں ایجنسیز کے حاضر سروس 3 اسٹار جنرلز اس وقت امریکی فوج کی حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل تلسی گابرڈ کے ماتحت ہیں۔ اگر جرنیلوں کو ذلیل کرنا مقصود ہو تو انہیں اس سے بری سزا نہیں دی جاسکتی کہ امریکی فوج کے 47 عدد 4 اسٹارز جنرلز سے ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل پیٹ ہیگسیتھ کو سیلیوٹ ٹھکوائے جائیں، اور دو عدد حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرلز سے لیفٹیننٹ کرنل تلسی گابرڈ کو یس میم! یس میم! کروایا جائے، مگر کیا یہ انقلابی فیلنگز سائیڈ ایفیکٹس کے بغیر ہوسکتی ہیں؟

ہم نے بطور مثال یہ دو نام پیش کیے ہیں ورنہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انقلابی فیلنگز کے زیر اثر اپنی ٹیم میں ان دو کے علاوہ بھی کئی جونیئرز بھر رکھے ہیں، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس بھی شامل ہیں جو ایک جونیئر لیول کے سینیٹر تھے۔ اب دیکھیے سائیڈ ایفیکٹ جو کرارے جھٹکے کے ساتھ یوں ظاہر ہوا ہے کہ ٹرمپ ٹیم کے جملہ لونڈوں لپاڑوں نے مواصلاتی ایپ سگنل پر ایک چیٹ گروپ بنا رکھا تھا، جہاں یہ سارے ارسطو یمن پر حملے کی تیاری کے سلسلے میں تبادلہ خیال فرما رہے تھے، یہ سارا تبادلہ خیال دی اٹلانٹک میگزین نے اسکرین شاٹس سمیت چھاپ دیا ہے۔ صورت اس کی یوں بنی کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے اس چیٹ گروپ میں دی اٹلانٹک کے ایڈیٹر جیفری گولڈبرگ کو ایڈ کرلیا تھا، اور انہوں نے ہی یہ سب چھاپ ڈالا، جو ایک بڑے اسکینڈل کی شکل اختیار کررہا ہے۔

جیفری گولڈ برگ کٹر قسم کے لبرل ہی نہیں ہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بدترین مخالف بھی ہیں، سو پوری ٹرمپ انتظامیہ کا زور اس بات پر ہے کہ یہ تو بہت گھٹیا قسم کا صحافی ہے، اسے تو کوئی پڑھتا ہی نہیں، مگر یہ نہیں بتایا جارہا کہ امریکی سیکیورٹی ٹیم کے یہ سارے ارسطو ایک عام کمرشل ایپ پر چیٹ گروپ کیوں چلا رہے تھے؟ گویا دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت کی اعلیٰ سطحی سیکیورٹی ٹیم نہ ہوئی کسی پاکستانی کالج کے اساتذہ کا وٹس ایپ گروپ ہوگیا۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ اتنے حساس گروپ میں جیفری گولڈبرگ کیا کر رہے تھے؟ مائیک والٹز نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ تو انہیں جانتے تک نہیں، پتا نہیں یہ کیسے ایڈ ہوگئے۔

ہم بتائیں آپ کو کہ یہ جیفری گولڈبرگ اس چیٹ گروپ میں کیسے ایڈ ہوگئے؟ ٹرمپ ٹیم میں تلسی گابرڈ، پیٹ ہیگسیتھ، کاش پٹیل اور مائیک والٹز پکے ڈھکے صہیونی ہیں۔ اور صہیونیت وہ چورہا ہے جہاں لبرلز اور کنزرویٹوز باہمی جھگڑے بھول کر ساتھ بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں یک آواز ہوجاتے ہیں، یمن پر امریکی حملہ دراصل اسرائیل کے مفاد کے لیے ہی تھا تو جیفری گولڈ برگ کو کیسے نظر انداز کردیا جاتا؟ ان کا لبرل اور ٹرمپ مخالف ہونا نظرانداز کرکے بس یہ دیکھا گیا کہ یہ وہی جیفری گولڈ برگ ہے جو اسرائیل کی فوج میں ہی نہیں رہ چکا بلکہ پہلی انتفاضہ میں گرفتار ہونے والے فلسطینی قیدیوں پر بطور سفاک گارڈ بھی مسلط رہ چکا ہے۔ جب اس پس منظر کے ساتھ آپ آج کی تاریخ میں دی اٹلانٹک جیسے اہم لبرل میگزین کے ایڈیٹر ہوں تو آپ کو آن بورڈ رکھنا ضروری سمجھ لیا جاتا ہے۔ سو مائیک والٹز کا یہ کہنا کہ وہ تو جیفری گولڈبرگ کو جانتے تک نہیں ایک نری بکواس ہے، واردات ان پلاسٹکی انقلابیوں کے ساتھ یہ ہوگئی ہے کہ جیفری گولڈ برگ نے اسرائیلی مفاد دیکھنے کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی انقلابی فیلنگز ختم کرنا زیادہ ضروری سمجھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکی صدر انقلابی فیلنگز پاکستان جوبائیڈن صدر ٹرمپ لبرلز لوکل لبرلز واردات وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی صدر انقلابی فیلنگز پاکستان جوبائیڈن لوکل لبرلز واردات وی نیوز لیفٹیننٹ کرنل انٹیلی جنس تلسی گابرڈ ڈونلڈ ٹرمپ ہوتے ہیں ہی نہیں کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی

امریکا اور چین نے مقبول ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک کی ملکیت کے حوالے سے ایک فریم ورک معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ اعلان امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے اسپین میں ہفتہ وار تجارتی مذاکرات کے بعد کیا۔

بیسنٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی وزیر اعظم شی جن پنگ جمعہ کو براہ راست بات چیت کریں گے تاکہ ڈیل کو حتمی شکل دی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد ٹک ٹاک کی ملکیت کو چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے منتقل کرکے کسی امریکی کمپنی کو دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیے ٹک ٹاک نے امریکا کے لیے نئی ایپ بنانے کی رپورٹس کو مسترد کردیا

امریکی حکام نے کہا کہ ڈیل کی تجارتی تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں کیونکہ یہ 2 نجی فریقین کا معاملہ ہے، تاہم بنیادی شرائط پر اتفاق ہو چکا ہے۔

چینی نمائندہ تجارت لی چنگ گانگ نے بھی تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے ’بنیادی فریم ورک اتفاق‘ حاصل کر لیا ہے تاکہ ٹک ٹاک تنازع کو باہمی تعاون سے حل کیا جا سکے اور سرمایہ کاری میں رکاوٹیں کم کی جا سکیں۔

معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

امریکی حکام طویل عرصے سے ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ بائٹ ڈانس کے چینی تعلقات اور چین کے سائبر قوانین امریکی صارفین کا ڈیٹا بیجنگ کے ہاتھ لگنے کا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔

میڈرڈ مذاکرات میں امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے کہا کہ ٹیم کا فوکس اس بات پر تھا کہ معاہدہ چینی کمپنی کے لیے منصفانہ ہو اور امریکی سلامتی کے خدشات بھی دور ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بہت امیر خریدار TikTok خریدنے کو تیار ہے‘، صدر ٹرمپ کا انکشاف

چینی سائبر اسپیس کمیشن کے نائب ڈائریکٹر وانگ جِنگ تاؤ نے بتایا کہ دونوں فریقین نے ٹک ٹاک کے الگورتھم اور دانشورانہ املاک کے حقوق کے استعمال پر بھی اتفاق کیا ہے، جو سب سے بڑا اختلافی نکتہ تھا۔

دیگر تنازعات بدستور باقی

میڈرڈ مذاکرات میں مصنوعی کیمیکلز (فینٹانل) اور منی لانڈرنگ سے متعلق مسائل بھی زیرِ بحث آئے۔ بیسنٹ نے کہا کہ منشیات سے جڑے مالیاتی جرائم پر دونوں ممالک میں ’ غیر معمولی ہم آہنگی‘ پائی گئی۔

چینی نائب وزیراعظم ہی لی فینگ نے مذاکرات کو ’واضح، گہرے اور تعمیری‘ قرار دیا، مگر چین کے نمائندہ تجارت لی چنگ گانگ نے کہا کہ بیجنگ ٹیکنالوجی اور تجارت کی ’سیاسی رنگ آمیزی‘ کی مخالفت کرتا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کو چینی کمپنیوں پر یکطرفہ پابندیوں سے گریز کرنا چاہیے۔

ممکنہ ٹرمپ شی سربراہی ملاقات

ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ صدر ٹرمپ کو بیجنگ سرکاری دورے کی دعوت دے گا یا نہیں، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اکتوبر کے آخر میں جنوبی کوریا میں ہونے والی آسیان پیسفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کانفرنس اس ملاقات کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

اگرچہ فریم ورک ڈیل ایک مثبت قدم ہے، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے تجارتی معاہدے کے لیے وقت کم ہے، اس لیے اگلے مرحلے میں فریقین چند جزوی نتائج پر اکتفا کر سکتے ہیں جیسے چین کی طرف سے امریکی سویابین کی خریداری میں اضافہ یا امریکا کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی ایکسپورٹ پابندیوں میں نرمی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ٹک ٹاک ٹیکنالوجی چین ڈونلڈ ٹرمپ شی جن پنگ

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر برطانوی وزیراعظم سے متفق نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: ٹرمپ
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  • قطر ہمارا اتحادی، اسرائیل دوحہ پر دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: امریکی صدر کی یقین دہانی
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف