خودمختاری اور آزادی کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
روزنامہ اوصاف کی پچیس مارچ کی ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر جناب عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ آج کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ اس پر ان کے دادا فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم و مغفور یاد آگئے جنہوں نے اس حوالے سے بہت کچھ فرمایا تھا مگر ہم قومی طور پر اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کی بجائے چھ عشروں کے بعد بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے فروری ۲۰۰۹ء کے دوران شائع ہونے والا ایک کالم دوبارہ پیش خدمت ہے۔
پاکستان کے بعض سیاستدانوں کے ساتھ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی ملاقات اور گفتگو نے بہت سی پرانی باتوں کی یاد ذہن میں تازہ کر دی ہے۔ ہالبروک کو شکوہ ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود پاکستانیوں میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس پر مجھے ایک بہت پرانا پڑھا ہوا ناول یاد آگیا ہے جو انقلابِ فرانس سے پہلے کے جاگیردارانہ ماحول کے حوالے سے تھا۔ ناول اور اس کے کرداروں کے نام تو یاد نہیں رہے مگر اس کا ایک پلاٹ ذہن کے کسی کونے کے ساتھ چپکا رہ گیا تھا جو ہالبروک کے اس شکوے کے ساتھ ہی اسکرین پر ابھر آیا ہے۔ کہانی کے مطابق ایک فرانسیسی جاگیردار بگھی پر اپنے کسانوں اور مزارعوں کی بستی سے گزر رہا تھا، راستے میں ایک جگہ بچے کھیل رہے تھے کہ اچانک ایک بچہ بگھی کے سامنے آگیا۔ لیکن بگھی کے کوچوان نے رفتار کم کرنے کی بجائے اس بچے کے اوپر سے بگھی گزار دی جس سے بچہ کچلا گیا۔ اس کا باپ قریب ہی کھڑا تھا وہ غصے اور صدمے کی حالت میں بگھی کی طرف لپکا اور اس کو روکنے کی کوشش کی۔ جاگیردار جو یہ سارا منظر اپنی سیٹ پر بیٹھا دیکھ رہا تھا، اس نے کسان کو غصے میں دیکھ کر جیب سے ایک سکہ نکالا اور اس کی طرف پھینک دیا۔ کسان نے وہ سکہ غصے سے پکڑا اور اسے واپس بگھی کی طرف اچھال دیا جس پر جاگیردار نے انتہائی نفرت سے اس کسان کو گالی دیتے ہوئے اپنے کوچوانوں سے پوچھا کہ یہ اور کیا چاہتا ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ مسٹر ہالبروک کا یہ شکوہ پڑھ کر مجھے کم از کم ربع صدی قبل پڑھے ہوئے ناول کا یہ حصہ بے ساختہ یاد آگیا ہے مگر حسرت یہ رہی کہ پلاٹ کے باقی سارے کردار پورے تھے مگر سکہ بگھی کی طرف واپس اچھال دینے کا خانہ خالی نظر آیا۔ خدا جانے یہ حسرت کب پوری ہوگی؟ دراصل یہ مسٹر ہالبروک کا قصور نہیں ہے، مغربی استعمار کی قیادت اور دانش ابھی تک اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ امریکہ کے خلاف غصہ صرف اس وجہ سے ہے کہ غصہ کرنے والے غریب لوگ ہیں جنہیں امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کے پاس دولت کی کثرت دیکھ کر غصہ آتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی اس دولت میں سے حصہ دیا جائے۔ اس لیے کم و بیش ہر مغربی حکمران اور دانشور اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ان غریب لوگوں کو پیسے دیے جائیں اور کچھ ڈالر ان کی طرف پھینکے جائیں تاکہ یہ خاموش رہیں، بلکہ ڈالر پھینکے جانے پر اپنے ’’آقاؤں‘‘ کا شکریہ ادا کریں اور ان کی وفاداری کا دم بھرتے رہیں۔
اکانومی اور معیشت کے چکر میں الجھی ہوئی اس سرمایہ دارارنہ ذہنیت اور جاگیردارانہ مزاج کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ غصہ صرف پیسوں کی کمی پر نہیں آیا کرتا، اس کے اسباب اور بھی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر مشرقی اقوام اور ان میں سے بھی خصوصاً مسلم اقوام کے ہاں غصہ کے دیگر اسباب زیادہ مؤثر اور متحرک ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے مذہب کی توہین پر غصہ آتا ہے، قرآن کریم کی بے حرمتی پر غصہ آتا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر غصہ آتا ہے، بیت اللہ اور بیت المقدس کی توہین پر غصہ آتا ہے، دنیا کے کسی حصے میں مسلمان بھائیوں کے مارے جانے پر غصہ آتا ہے، اور اپنے ملکوں اور اسباب و عوامل پر دوسرے لوگوں کے ناجائز تسلط اور جبر و استبداد پر بھی غصہ آتا ہے۔ اس غصے کا جب کوئی مداوا نہیں ہوتا اور اسے کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، بلکہ اسے طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہی غصہ بڑھتے بڑھتے نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر یہ غصہ ڈالروں کی بارش سے نہیں دبتا اور نہ ہی زبانی لیپاپوتی سے اس میں کوئی کمی آتی ہے۔
مسٹر ہالبروک سے گزارش ہے کہ وہ مسلمانوں کے غصے اور امریکہ کے خلاف ان کے جذبات کو ڈالروں کے پیمانے سے نہ ماپیں بلکہ اس کے اصل اسباب کی طرف نظر کریں۔ کیونکہ جب تک مسلمانوں اور پاکستانیوں کے غصے اور نفرت کے اصل اسباب کو سنجیدگی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، ڈالروں کی جھنکار اور نوٹوں کی کھڑکھڑاہٹ سے اس غصے اور نفرت کو کم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
اس گفتگو میں ایک پاکستانی سیاستدان نے مسٹر ہالبروک سے کہا کہ امریکہ ہمارا آقا نہ بنے بلکہ دوست بنے اور دوستوں کی طرح ہمارے ساتھ معاملات کرے۔ یہ بات بھی صدائے بازگشت ہے پاکستان کے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم کے اس رد عمل کی جو انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی کی پرخلوص کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اس کے کم از کم الفاظ میں غیر مثبت جواب پر ظاہر کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل جو کتاب شائع کی اس کا نام ہی ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہے۔ Friends Not Master کے عنوان سے لکھی جانے والی اس کتاب میں انہوں نے امریکہ کو یہی پیغام دیا تھا جو مسٹر ہالبروک کو ایک پاکستانی سیاستدان نے کم و بیش نصف صدی کے بعد دیا ہے۔ مسٹر ہالبروک کے ساتھ پاکستانی سیاستدانوں کی اس ملاقات کی رپورٹ اخبارات میں پڑھنے کے بعد میں نے ایوب خان مرحوم کی یہ کتاب تلاش کی۔ یہ کتاب جو کبھی فٹ پاتھوں پر آسانی سے مل جایا کرتی تھی اب مجھے دوران سفر ٹیکسلا میں ایک دوست حافظ محمد رفیق کی لائبریری سے دستیاب ہوئی۔ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم نے اپنی خارجہ پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کے ساتھ اپنے معاملات کے مختلف مراحل بیان کیے ہیں جن کی چند جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایوب خان مرحوم پر غصہ ا تا ہے محمد ایوب خان کے ساتھ غصے اور کرنے کی ہے کہ ا کی طرف اور اس
پڑھیں:
بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خودمختاری کی حقدار ہیں: سپریم کورٹ
اسلا م آباد (آئی این پی ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بیوائوں کے حقوق ریاست کی خیرات نہیں بلکہ آئینی ضمانتوں، قانونی تحفظ اور بدلتے ہوئے عدالتی اصولوں پر مبنی قانونی حقوق ہیں، تمام شہریوں کی طرح بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خود مختاری کی حقدار ہیں۔قائم مقام چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے ریجنل ٹیکس آفس، بہاولپور کے چیف کمشنر کی جانب سے 21 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں کی طرح بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خود مختاری کی حقدار ہیں۔درخواست گزار شاہین یوسف کے شوہر جو محکمہ انکم ٹیکس کے ملازم تھے، 14 فروری 2006 ء کو ملازمت کے دوران انتقال کر گئے تھے، مرنے والے سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کے لیے وزیر اعظم کے امدادی پیکیج کے تحت بیوہ کو 26 مئی 2010 ء کو دو سالہ کنٹریکٹ پر لوئر ڈویژن کلرک (ایل ڈی سی) کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔معاہدے میں کئی بار توسیع کی گئی، لیکن 4 جنوری، 2016 ء کو ایک آفس میمورنڈم (او ایم) کے ذریعے ان کی خدمات ختم کردی گئیں جس پر 15 دسمبر 2015 ء کی تاریخ درج تھی، میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ دوبارہ شادی کے بعد ایک بیوہ وزیر اعظم کے امدادی پیکیج کے تحت ہمدردانہ ملازمت کے لیے نااہل ہو جاتی ہے، لہذا دوبارہ شادی کی تاریخ سے انہیں برخاست کیا جاتا ہے۔بیوہ نے آفس میمورنڈم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے ممبر (ایڈمنسٹریشن) کو ہدایت کی کہ وہ اسے نمائندگی کے طور پر لیں اور ایک زبانی حکم کے ذریعے ان کی شکایات کا ازالہ کریں۔عدالتی حکم کی تعمیل میں ایف بی آر نے معاملے کا جائزہ لیا اور 11 مئی 2017 ء کو ان کی درخواست مسترد کردی، اس کے بعد مدعا علیہ نے محکمانہ حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دوسری رٹ پٹیشن دائر کی، درخواست کو 21 دسمبر 2022 ء کو منظور کرلیا گیا تھا اور بیوہ کو ملازمت میں بحال کردیا گیا تھا۔قائم مقام چیف جسٹس منصور علی شاہ نے 5 صفحات پر مشتمل اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ کوئی بھی پالیسی جو عوامی ملازمت کو کسی خاتون کی ازدواجی حیثیت سے نتھی کرتی ہے، وہ نہ صرف انحصار کو بڑھاتی ہے بلکہ بنیادی آزادی کے استعمال پر اسے موثر طور سزا بھی دیتی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون کو چاہیے کہ وہ فرسودہ معاشرتی درجہ بندیوں کو تقویت دینے کا آلہ بننے کے بجائے اخراج کے خلاف ڈھال بنے، انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے انتظامی فیصلے جس سماجی تناظر میں کام کرتے ہیں اس پر غور کرنا ضروری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ آسان ترین معنوں میں بیوہ سے مراد ایک ایسی عورت ہے جس کا شریک حیات فوت ہوچکا ہے، تاہم بہت سے معاشروں میں یہ لفظ ایک تہہ دار سماجی شناخت رکھتا ہے جس کے ساتھ اکثر بدنما داغ، تنہائی اور سماجی قدر کے کم ہونے کا احساس ہوتا ہے۔جسٹس شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیواں کو اکثر نقصان اور انحصار کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ انہیں باوسیلہ اور لچک دار فرد کے طور پر دیکھا جائے، دوبارہ شادی یا معاشی آزادی کی بات آتی ہے تویہ تصور خاص طور پر ان کے انتخاب کو محدود کرتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کو ان مضر ثقافتی بیانیوں کو مسترد کرنا چاہیے اور اس بات کی توثیق کرنی چاہیے کہ بیوہ ہونا خامی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی زندگی ہے جو وقار ، تحفظ اور مساوی مواقع کی مستحق ہے۔انہوں نے کہا یہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوامی پالیسی اس تفہیم کی عکاسی کرے اور بیواں کو ظاہری اور پوشیدہ دونوں طرح کے منظم امتیاز سے بچائے۔اس فیصلے میں آفس میمورینڈم کو واضح طور پر امتیازی قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ رنڈوے مردوں پر کوئی پابندی عائد کیے بغیر بیواں، مرحوم سرکاری ملازمین کی شریک حیات کو دوبارہ شادی کرنے پر رحمدلانہ ملازمت سے نااہل قرار دیتا ہے، اس امدادی پیکیج کے باوجود جو بیوہ اور رنڈوے دونوں کو رحمدلانہ روزگار فراہم کرتا ہے۔