اسرائیلی کارروائیاں: غزہ میں لاکھوں لوگ دوبارہ فاقہ کشی پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 مارچ 2025ء) عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے لاکھوں لوگوں کو ایک مرتبہ پھر شدید بھوک اور غذائی قلت کا سامنا ہے جہاں خوراک کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جبکہ سرحدی راستوں سے امداد کی بندش ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی عسکری کارروائی کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو غذائی امداد کی فراہمی میں کڑی مشکلات حائل ہیں جبکہ امدادی کارکنوں کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
Tweet URLگزشتہ تین ہفتوں سے 'ڈبلیو ایف پی' اور اس کے شراکت داروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود علاقے میں خوراک کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔
(جاری ہے)
سرحدی راستے مکمل طور پر بند ہونے کے باعث تجارتی سامان سمیت کسی چیز کی ترسیل ممکن نہیں رہی۔'ڈبلیو ایف پی' اور شراکت داروں نے غزہ سے باہر 85 ہزار ٹن خوراک جمع کر رکھی ہے جسے سرحد کھولے جانے پر مختصر وقت میں ضرورت مند لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ادارے نے کہا ہے کہ اسے علاقے میں کم از کم 11 لاکھ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ 30 ہزار ٹن خوراک کی ضرورت ہے۔
غذائی امداد میں کمی'ڈبلیو ایف پی' نے بتایا ہے کہ غزہ میں 5,700 ٹن خوراک ہی باقی رہ گئی ہے جس سے تمام آبادی کی غذائی ضروریات دو ہفتے تک ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ سلامتی کے بگڑتے حالات، نقل مکانی اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے باعث ادارے نے جلد از جلد زیادہ سے زیادہ خوراک لوگوں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس وقت ادارہ غزہ میں تنوروں اور بڑے پیمانے پر کھانا تیار کرنے کے مراکز کو مدد دینے کے علاوہ لوگوں کو براہ راست خوراک کے پیکٹ مہیا کر رہا ہے۔
حالیہ دنوں اس نے شہریوں کو دی جانے والی غذائی مدد کی مقدار میں کمی کی ہے تاکہ باقیماندہ وسائل سے زیادہ سے زیادہ شہری مستفید ہو سکیں۔ اب لوگوں میں خوراک کے جو پیکٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں ان سے ایک خاندان کی صرف ایک ہفتے کی غذائی ضروریات ہی پوری ہو سکتی ہیں۔خوراک کی بڑھتی قیمتیںجنگ دوبارہ شروع ہونے کے بعد غزہ میں خوراک کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا ہے۔
اس وقت 25 کلوگرام آٹے کا تھیلا تقریباً 50 ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے جو 18 مارچ سے پہلے کی قیمت کے مقابلے میں 400 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح، کھانا تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والی گیس کی قیمتیں فروری کے مقابلے میں 300 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔'ڈبلیو ایف پی' نے تنازع کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو ترجیح دیں، امدادی اہلکاروں اور اقوام متحدہ کے عملے کا تحفظ یقینی بنائیں اور غزہ میں امداد کی فراہمی فی الفور بحال کریں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اسے آئندہ چھ ماہ کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں 15 لاکھ لوگوں کو ضروری امداد پہنچانے کے لیے 265 ملین ڈالر کے مالی وسائل درکار ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لوگوں کو خوراک کی
پڑھیں:
کم عمری کی شادی حاملہ خواتین میں موت کا بڑا سبب، ڈبلیو ایچ او
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) نوعمری کا حمل 15 تا 19 سال عمر کی لڑکیوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ لڑکیوں کو سکول بھیج کر اور نوعمری کی شادی کا خاتمہ کر کے ان اموات کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہر سال دو کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بالغ لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں۔
ان میں تقریباً نصف حمل اَن چاہے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، 90 فیصد بچوں کی پیدائش ایسی خواتین کے ہاں ہوتی ہے جو 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی ہوتی ہیں۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' میں جنسی و تولیدی صحت و تحقیق کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پاسکل ایلوٹے نے کہا ہے کہ لڑکیوں اور نوعمر خواتین پر قبل از وقت حمل کے سنگین جسمانی و نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ عام طور پر بنیادی عدم مساوات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو لڑکیوں کے خاندانی و سماجی تعلقات اور زندگیوں کی تشکیل پر اثرانداز ہوتی ہے۔'ڈبلیو ایچ او' نے اس حوالے سے 2011 میں جاری کردہ اپنی رہنما ہدایات میں جامع جنسی تعلیم کے فروغ کی سفارش کی ہے جس کے بارے میں ادارے کا کہنا ہے کہ اس سے لڑکیوں اور لڑکوں کو مختلف اقسام کے مانع حمل کے استعمال سے آگاہی ملتی ہے اور انہیں اَن چاہے حمل سے بچنے اور اپنے جسم کو سمجھنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔
نوعمری کا حمل اور طبی خطراتنوعمری کے حمل سے سنگین طبی خطرات وابستہ ہوتے ہیں۔ ان میں انفیکشن، طبی پیچیدگیوں اور قبل از وقت پیدائش کی بھاری شرح بھی شامل ہے۔ اس سے لڑکیوں کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے اور ان کے لیے نوکریوں کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں بہت سی نوجوان مائیں غربت میں پھنس جاتی ہیں۔
'ڈبلیو ایچ او' نے نوعمری کے حمل کو روکنے کے لیے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو نوعمری کی شادی کے بہتر متبادل مہیا کریں۔
ان میں تعلیم، مالیاتی خدمات اور نوکریوں تک لڑکیوں کی رسائی میں بہتری لانا بھی شامل ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ اگر تمام لڑکیوں کو ثانوی درجے تک تعلیم میسر آئے تو نوعمری کی شادیوں میں دو تہائی کمی لائی جا سکتی ہے۔
تعلیم کی اہمیتنوعمری کی شادیوں میں کمی لانے کے حوالے سے دنیا بھر میں مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
2021 میں ہر 25 میں سے ایک لڑکی نے 20 سال کی عمر سے پہلے بچے کو جنم دیا جبکہ 2001 میں یہ شرح 15 تھی۔ تاہم، اب بھی اس حوالے سے بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے اور بعض ممالک میں ہر 10 میں سے ایک لڑکی 15 تا 19 سال کی عمر میں بچوں کو جنم دے رہی ہے۔'ڈبلیو ایچ او' میں بالغان کی جنسی و تولیدی صحت کی سائنس دان ڈاکٹر شیری بیسٹین نے کہا ہے کہ نوعمری کی شادی سے لڑکیاں اپنے بچپن سے محروم ہو جاتی ہیں اور یہ شادی ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے مستقبل کو تبدیل کرنے کے لیے تعلیم کی خاص اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو باہمی رضامندی کی بنیاد پر تعلقات کے تصور کو سمجھنا اور صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے کام کرنا ہو گا جو دنیا کے بہت سے علاقوں میں بڑے پیمانے پر نوعمری کی شادی اور قبل از وقت حمل کا بڑا سبب ہے۔