بغیر چارجنگ کے 5700 سال تک چلنے والی بیٹری تیار!
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
لاہور:
موبائلز، سولر سسٹمز، گاڑیوں وغیرہ کے باعث بیٹریاں انسانی زندگی کا جزو بن چکی ہیں قباحت یہ ہے کہ انھیں بار بار چارج کرنا پریشان کن امر ہے۔
یہ مسئلہ حل کرنے کی خاطر سئیول نیشنل یونیورسٹی جنوبی کوریا کے سائنس دان ایٹمی بیٹری بنا رہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
یہ بیٹری ریڈیوکاربن (radiocarbon) سے کام کرے گی جو کاربن مادے کی ایک قسم ہے، ایٹمی ری ایکٹروں کی ضمنی پیداوار اور انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، یہ مادہ 5700 سال تک کام دیتا ہے اور اس دوران بیٹری بنا چارج کیے کام دے گی۔
پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹروں میں بھی ریڈیوکاربن کثیر مقدار میں بنتا ہے اگر کورین ماہرین نے ایٹمی بیٹریاں بنا لیں تو پاکستانی ریڈیوکاربن کی دنیا بھر میں مانگ ہو گی اور ہم اسے بیچ کر سالانہ کروڑوں ڈالر کما سکیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان کنٹری پروگرام فریم ورک پر دستخط
چیئرمین پی اے ای سی کا کہنا تھا کہ کنٹری پروگرام فریم ورک پر دستخط پاکستان کے پُرامن جوہری سائنس و ٹیکنالوجی کے عزم کا اعادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی اے ای اے کے تعاون سے ملک میں خوراک، صحت، توانائی اور ماحولیات میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جاری رہے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے جوہری تعاون کے کنٹری پروگرام فریم ورک پر دستخط کر دیے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر راجہ علی رضا انور نے معاہدے پر دستخط کیے، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل و سربراہ، محکمہ برائے تکنیکی تعاون نے معاہدے پر دستخط کیے، یہ پانچواں پروگرام ہے جو 2026ء سے 2031ء تک قابلِ عمل رہے گا۔
اِس فریم ورک کے تحت جوہری سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے براہِ راست سماجی و اقتصادی ترقی میں معاونت کی جائے گی، فریم ورک میں خوراک و زراعت، انسانی صحت و غذائیت، ماحولیاتی تبدیلی و آبی وسائل کا انتظام، جوہری توانائی، اور تابکاری و جوہری تحفظ جیسے 5 کلیدی شعبے شامل ہیں۔
چیئرمین پی اے ای سی کا کہنا تھا کہ اِس پروگرام پر دستخط پاکستان کے پُرامن جوہری سائنس و ٹیکنالوجی کے عزم کا اعادہ ہے۔ ڈاکٹر راجہ علی رضا انور نے مزید کہا کہ آئی اے ای اے کے تعاون سے ملک میں خوراک، صحت، توانائی اور ماحولیات میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جاری رہے گا۔