تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
آپ ﷺ کو حضرت فاطمہؓ سے خصوصی لگاؤ تھا، حضرت فاطمہؓ کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے، حضرت فاطمہؓ کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہا اور پھر جب فرض کی ادائیگی اللہ کی رضا اور انتخاب سے قرار پائی تو پھر نہ صرف یہ کہ شہزادی کونین حضرت فاطمہؓ کے نکاح کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انبساط و شادمانی کا احساس اپنے عروج پر پہنچنے لگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ابھی حضرت جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور یہ خبر سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کے پاس میری بیٹی فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کر دیا ہے، فرشتوں نے گواہی دی ہے اور مجھے بھی حکم فرمایا ہے کہ میں زمین پر ان کا نکاح کر دوں۔
میں تم سب کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت علیؓ سے کر دیا ہے۔ایک ماہ بعد بی بی فاطمہ کی رخصتی حضرت علیؓ کی خواہش پر کی گئی، رخصتی سے قبل آنحضرت ﷺ نے گھر گرہستی کا سامان خریدنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کو مٹھی بھر درہم دے کر فرمایا کہ فاطمہؓ کے لیے ضرورت کی اشیا خرید لاؤ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روئی کا موٹے کپڑے کا بستر، کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ اور چمڑے کا ہی دسترخوان، پانی کے لیے ایک مشکیزہ، مٹی کا آب خورہ اور اون کا ایک پردہ خریدا۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو کچھ درہم دیے اور فرمایا ان سے کھجوریں، گھی اور پنیر خرید لو، چنانچہ جب یہ تینوں چیزیں آگئیں تب آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے دسترخوان بچھایا اور کھجوروں کو گھی میں مسل کر پنیر میں ملا کر حلوہ تیار کیا اور مسجد نبوی میں تشریف فرما صحابہ کرام کو دعوت دی۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: یا رسول اللہؐ! مسجد میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے، آپؐ نے فرمایا دسترخوان کو رومال سے ڈھانپ دو اور دس دس لوگوں کو داخل کرتے جاؤ، حضرت علیؓ نے حکم کی تعمیل کی، سب نے کھایا، لیکن کھانے میں ذرہ برابر کمی نہ آئی، اس دعوت طعام میں سات سو افراد نے شرکت کی۔
رسول پاکؐ کے بہت سے معجزات ہیں جن میں یہ معجزہ آپ ؐ کی بیٹی فاطمہؓ کی رخصتی کے موقع پر رونما ہوا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ بی بی فاطمہؓ اپنی عفت، سخاوت، شرم و حیا، صبر و قناعت کی وجہ سے سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں، جن کا نکاح اللہ خود کراتا ہے تو بھلا ان کا مرتبہ کیوں کر نہ ارفع و اعلیٰ ہوگا، وہ جنت میں عورتوں کی سردار اور دنیا میں عفت و عظمت کے درجے پر بلند نظر آتی ہیں۔
رسول اللہؐ کو حضرت فاطمہؓ سے خصوصی لگاؤ تھا، وہ اپنے والد محترم کو دیکھتے ہی احتراماً کھڑی ہو جاتی تھیں، اسی طرح حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کے وقت اللہ کے رسول اپنی صاحبزادی کی تعظیم اور محبت میں کھڑے ہو کر اظہار شفقت فرماتے، ان کی پیشانی پر بوسہ ثبت کرتے۔
اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، تمام اولادوں میں حضرت فاطمہؓ سے آپؐ کو خصوصی محبت تھی۔ آپؐ نے فرمایا، جس بات سے فاطمہؓ کو اذیت پہنچتی ہے، اسی سے مجھے اذیت ہوتی ہے اور جو بات فاطمہؓ کو پریشان کرے، اس سے مجھے بھی پریشانی ہوتی ہے۔
حضرت جمیع بن عمیرؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس گیا تو ان سے میں نے دریافت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا کہ فاطمہؓ۔ پھر دوبارہ عرض کی کہ مردوں میں رسول پاکؐ کو زیادہ عزیز کون تھا؟ ارشاد ہوا، ان کے شوہر یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔
سیدہ، طیبہ، طاہرہ، فاطمۃ الزاہرہ بے شمار اوصاف اور فضائل کی حامل تھیں، جنت میں تمام جنتی خواتین عالم کی سردار، آپ اپنی فقر و درویشی، استغنا اور سخاوت میں بے مثال تھیں، آپ رسول اکرمؐ کی صفات حسنہ کا پیکر تھیں، آپؓ کی گفتار و عادات، چلنے کا انداز اور اخلاق رسول اللہؐ سے مشابہ تھیں۔
آپؓ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی تربیت خاص اور رسول پاکؐ کی مکمل توجہ اور محبت کا مرکز تھیں، فاطمۃ الزاہرہ اپنے ابا جان کے کردار کی روشن مثال تھیں۔حضرت فاطمہؓ شہنشاہ دو جہاں کی صاحبزادی ہوتے ہوئے گھر کے سارے کام خود انجام دیتیں، چکی پیستیں، مشکیزے میں پانی لاتیں، تمام کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہ ہوئیں۔
تین تین دن فاقے میں گزر جاتے مگر کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں آیا۔عبادت کا یہ عالم تھا کہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں، صبح کی اذان سنتے ہی اپنے رب سے محو گفتگو ہوتے ہوئے عرض کرتیں ’’خدایا! تیری بندی عبادت کا حق ادا نہ کر پائی، کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے۔‘‘
غزوہ احد کے موقع پر جب نبی پاکؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپؐ زخمی ہوگئے اور خون بہنے لگا تو حضرت فاطمہؓ بے حد پریشان ہوئیں، روتی جاتیں اور خون صاف کرتی جاتی تھیں، جب خون نہیں رکا تو حضرت فاطمہؓ نے ایک چٹائی کا ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ سے زخموں کو بھرا۔ اس عمل سے خون رک گیا۔
اسی روز پیارے نبیﷺ کا دندان مبارک شہید ہوا تھا اور آپؐ کا نورانی و تقدس سے دمکتا ہوا چہرہ زخمی ہو گیا تھا۔ حضرت فاطمہؓ کا اخلاق اور سخاوت بے مثال تھی، آپؓ کی خانگی زندگی گھر کے کام اور ذمے داریوں کے بوجھ سے تھکا دینے والی تھی وہ گھر کے سب کام خود انجام دیتیں، پانی کی مشک ڈھوتے ڈھوتے ان کی گردن پر نشان پڑ گئے تھے اور چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے ابھر آئے تھے۔
آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے تو حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ ’’کیا ہی اچھا ہو، جو تم اپنے بابا سے جا کر ایک خادم کا سوال کرو‘‘ حضرت فاطمہؓ نے اپنے شوہر کے مشورے پر عمل کیا اور دربار رسالت میں پہنچ گئیں۔
وہاں بہت سے لوگ گفتگو کر رہے تھے، لہٰذا دوسرے دن آ کر حضور ﷺ نے پوچھا کہ کیا کام ہے فاطمہ؟ فاطمہؓ نے جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر لی تو پھر حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نے ہی فاطمہ کو رائے دی کہ وہ ایک خادم کا سوال کریں تاکہ یہ اس مشقت سے بچ جائیں جو انھیں گھر کے کام نمٹاتے ہوئے پیش آتی ہے۔
یہ سن کر آقائے جود و سخا محمد ﷺ نے فرمایا فاطمہ! تقویٰ اختیار کرو، اپنے رب کا فرض ادا کرو اور اپنے گھر والوں کے کام انجام دو۔ اور رات سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 34 بار تکبیر (اللہ اکبر) پڑھ لیا کرو، یہ ورد تمہارے لیے ایک خادم سے زیادہ بہتر ہوگا۔
حضرت فاطمہؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں۔آنحضرت ﷺ اپنی بیٹی بی بی فاطمہؓ سے بہت محبت کیا کرتے تھے، جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمۃ الزاہرہ کے پاس جاتے اور واپسی میں بھی اپنی نور نظر فاطمہؓ سے ملاقات کرتے۔
بعض جگہ پر روایت ملتی ہے کہ آپؐ سفر پر جاتے وقت حضرت فاطمہؓ کے گھر آخر میں تشریف لاتے اور واپسی پر حضرت فاطمۃالزاہرہ سے پہلے ملاقات کرتے بعد میں دوسرے لوگوں سے۔رسول پاکؐ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اپنے وصال کی خبر سنائی جسے سن کر آپؓ آبدیدہ ہوگئیں، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دوسری خبر اپنے بابا سے سننے کو ملی جسے سن کر وہ خوش ہوگئیں۔
حضرت عائشہؓ نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو حضرت فاطمہؓ نے نفی میں جواب دیا کہ میں اپنے بابا کا راز فاش نہیں کروں گی، لیکن اللہ کے محبوب احمد مجتبیٰ ﷺ جب اس دنیائے فانی سے پردہ کر گئے تب حضرت عائشہؓ کے شوق تجسس نے پوچھنے کی طرف مائل کیا۔
حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ جب پہلی بار بابا جان نے یہ بتایا کہ وہ عنقریب مجھ سے بچھڑنے والے ہیں اور میرے ہنسنے اور خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی۔
رسول پاکؐ کے وصال کے 6 ماہ بعد آپؓ انتقال فرما گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کی وفات 3 رمضان 11ھ میں ہوئی، حضرت عباسؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت علیؓ نے اور حضرت عباسؓ نے قبر مبارک میں اتارا۔
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں جس وقت حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی اس وقت حضرت علی شیر خدا گھر میں موجود نہیں تھے، حضرت فاطمہؓ نے مجھے بلایا اور فرمایا پانی کا انتظام کرو، میں غسل کروں گی اور میرے پہننے کے لیے عمدہ کپڑے نکال دو۔
غسل کے بعد فرمایا، میرا بستر کردو، میں لیٹوں گی، پھر مجھ سے فرمایا اب مفارقت کا وقت قریب ہے، میں غسل کر چکی ہوں اب دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اب میرا بدن کھولا جائے، اس کے بعد ہی آپؓ اللہ کے حضور پہنچ گئیں، اپنے بابا سے خاتون جنت ملاقات کے لیے رخصت ہوئیں۔
آپؓ نے 28 سال کی عمر پائی، حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ جن کا انتقال بہت جلد ہو گیا اور بیٹیاں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ۔ حضرت فاطمہؓ کا رات میں ہی انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق اسی شب ان کی تدفین ہوئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت فاطمہ نے فرمایا اپنے بابا فرمایا کہ حضرت علی رسول پاک کا نکاح تو حضرت اللہ کے کہ میں کے لیے کے پاس گھر کے
پڑھیں:
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
اسلام ٹائمز: اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ تحریر و آزاد تجزیہ: سید نوازش رضا
2025ء کا سال لبنان، شام، فلسطین اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انقلابی دور بن چکا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جولانی کی مغرب نواز حکومت کا قیام، حزب اللہ کی قیادت بشمول سید حسن نصراللہ کی شہادت، اور اسرائیل کی لبنان میں براہ راست عسکری موجودگی جیسے عوامل نے پورے خطے کا توازن بدل دیا ہے۔ ان حالات میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور مغربی طاقتیں اسے لبنان کے امن کی ضمانت بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔ کیا یہ واقعی امن کی کوشش ہے یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات، حقیقت ہے یا فریب؟
اس وقت دنیا کو جو بیانیہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے "لبنان کی خودمختاری اور امن کے لیے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے!" لیکن کیا یہ واقعی لبنان کے حق میں ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح ہے کیونکہ حزب اللہ وہ واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کو نہ صرف روک کر دکھایا بلکہ 2006ء کی جنگ میں سیاسی و عسکری سطح پر شکست دی۔ اگر آج حزب اللہ کے ہتھیار لے لیے جائیں تو لبنان مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے گا جبکہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ برابری کا نظام ہوگا؟ کیا یہ امن ہوگا یا کمزوروں کو مزید کمزور کرنا ہوگا؟
لبنانیوں کے سامنے شام کا تجربہ ہے
بشار الاسد کی حکومت کا امریکہ، مغرب، ترکی اور اسرائیل کی حمایت سے مسلح گروہوں کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، جولان کی پہاڑیوں سے نیچے آگیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ آج شام کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور ملک مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شام کی آزادی، خودمختاری اور مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ کیا لبنانی بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسرائیل اور امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟
حزب اللہ کی طاقت اور اس کا کردار
یہ سچ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ریاست جتنی طاقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اس طاقت کا غلط استعمال کیا؟ کیا وہ لبنان کی حکومت کا تختہ الٹنے نکلے؟ کیا انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اپنے شہریوں پر آزمایا؟ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی طاقت کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت۔ جب شام میں داعش اور تکفیری گروہ آئے تو حزب اللہ لبنان کی سرحدیں بچانے کے لیے آگے آئی جبکہ باقی سیاست دان صرف بیانات دے رہے تھے۔
حزب اللہ لبنان میں ایسی جماعت نہیں ہے جسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کا سیاسی و عسکری ڈھانچہ منظم اور طاقتور ہے۔ لبنانی سیاست پر اس کی گرفت ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے حامی اور شیعہ افراد موجود ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اندر مکمل طاقتور ریاستی نیٹ ورک رکھتی ہے۔ اس کے فلاحی کام صرف شیعہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سنی اور عیسائی آبادیوں میں بھی اس کا فلاحی نیٹ ورک متحرک ہے۔ اسکول، اسپتال، امدادی تنظیمیں۔ سب حزب اللہ کی خدمات کا حصہ ہیں۔
حزب اللہ کی کمزوری، ایک تاثر یا حقیقت؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے۔ اس کا سبب ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ، جس کے باعث حزب اللہ کی سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت کئی اعلیٰ قیادتوں کی شہادت، جس سے تنظیم کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس کے اسلحہ ڈپو اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا لیکن کیا یہ کمزوری عارضی ہے یا مستقل؟ کیا حزب اللہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے؟ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ حزب اللہ اب بھی منظم، مسلح اور نظریاتی طور پر مزاحمت کے لیے تیار ہے۔
اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے، پھر کیا ہوگا؟
اگر حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے تو کیا اسرائیل اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا؟ نہیں۔ بلکہ وہ اور آگے بڑھے گا، یہی اس کی پالیسی رہی ہے: ’’خطرہ ختم ہو تو قبضہ بڑھاؤ‘‘۔ لبنان کی فوج کیا اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ تو پھر کیا لبنان اپنی بقاء کے لیے امریکہ، فرانس یا اقوام متحدہ پر انحصار کرے؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کمزوروں کے ساتھ نہیں۔
کیا حزب اللہ کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے؟
بالکل نہیں، کوئی بھی انسانی ادارہ، چاہے وہ مذہبی ہو یا عسکری، تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن تنقید کا معیار یہ ہونا چاہیئے، اگر حزب اللہ نے کرپشن کی ہو، لبنانی عوام کو لوٹا ہو، فرقہ واریت کو بڑھایا ہو، یا ذاتی مفاد کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوں تو وہ تنقید کے قابل ہیں، لیکن اگر کسی گروہ نے صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی ہو، غریب علاقوں میں فلاحی نظام قائم کیا ہو، دفاعِ وطن کی خاطر جانیں قربان کی ہوں، تو پھر حزب اللہ کے خاتمے کا مطالبہ حکمت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔
نتیجہ: ایک جائز سوال
اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔
اصل تحریر:
https://hajij.com/en/articles/political-articles-analysis/item/2935-the-campaign-to-disarm-hezbollah-a-peace-effort-or-the-agenda-of-the-powerful