میانمار میں زلزلے سے مصدقہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مارچ 2025ء) خانہ جنگی کے باعث بدحال ملک میانمار میں کئی رہائشی علاقوں میں سرچ آپریشن جاری ہیں جبکہ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ دونوں ممالک میں زلزلے کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق اتوار کو میانمار کے شہر منڈالے میں 5.
میانمار کے پڑوسی ممالک نے امدادی سامان اور ریسکیو اہلکار وہاں بھیج رکھے ہیں جب ملک کے فوجی حکمرانوں نے بھی اس قدرتی آفت سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے مدد کی درخواست کر رکھی ہے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس نے میانمار میں زلزلے کو ایک انسانی بحران قرار دیتے ہوئے امدادی کاروائیوں کے لیے ایک سو ملین امریکی ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔
(جاری ہے)
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اس نے امدادی کارروائیوں کے لیے فوری طور پر ڈھائی ملین یورو کی امداد جاری کر دی ہے۔میانمار کی فوجی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1700 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور 3,400 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ تاہم ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اس زلزلے کو گزشتہ ایک صدی میں میانمار میں آنے والے سب سے طاقتور زلزلوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
میانمار میں یہ قدرتی آفت ایک ایسے موقع پر آئی، جب ملک پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ملکی فوج نے 2021 میں بغاوت کے بعد میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس نے ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس خانہ جنگی کے باعث 30 لاکھ سے زیادہ انسان بے گھر ہو چکے ہیں۔
فوجی جنتا جمعہ کے روز آنے والے زلزلے کے بعد سے تباہی کی شدت سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر ہنگامی غیر ملکی امداد ملک میں پہنچ بھی جائے، تو بھی وہ ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پائے گی۔
سرکاری میڈیا کے مطابق فوجی سربراہ سینئر جنرل من آنگ ہلینگ نے کہا، ''تمام فوجی اور سویلین ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو مؤثر طبی ردعمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک مربوط اور مؤثر انداز میں مل کر کام کرنا چاہیے۔
‘‘خبر رساں ادارے رؤئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق زلزلے سے شدید متاثرہ علاقوں میں مقامی رہائشی باشندے خود ہی امدادی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں حکومتی امداد ضرورت سے بہت کم ہے۔
زلزلے کے مرکز کے قریب واقع قصبے ساگانگ کے ایک رہائشی نے روئٹرز کو بتایا، ''ہمیں کوئی امداد نہیں ملی اور نہ ہی کوئی امدادی کارکن نظر آ رہا ہے۔
آفٹر شاکس کے سبب رسد میں کمی اور ریسکیو کی کوششوں میں تاخیرمیانمار کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈالے میں مقامی آبادی کو اب بھی طاقتور آفٹر شاکس کا سامنا ہے، اور یہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب مقامی لوگ بھاری مشینری کی عدم موجودگی میں اپنے پیاروں کو ملبے کے نیچے سے نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طبی آلات کی شدید کمی کی وجہ سےمیانمار کو زلزلےکی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ملکی فوجی حکمرانوں کے اتحادی روس اور چین ہفتے کے روز مدد بھیجنے والے پہلے ممالک میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سنگاپور سمیت دیگر ممالک بھی امداد بجھوانے والوں میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ دفتر (اوچا) نے متنبہ کیا ہے کہ وسطی اور شمال مغربی میانمار کے شہروں منڈالے اور ساگانگ سمیت دیگر علاقوں میں ہسپتال زخمیوں کی بہت بڑی تعداد سے نمٹنے کی جدوجہد میں ہیں۔
تھائی لینڈ میں لاپتہ افراد کی تلاش جاریدریں اثنا تھائی لینڈ میں حکام نے کہا کہ زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد اب 17 ہو چکی ہے۔ یہ تمام اموات دارالحکومت بنکاک میں ہوئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں جمعے کے روز زلزلے میں منہدم ہونے والی ایک بلند و بالا عمارت میں ہوئیں۔ وہاں 80 سے زیادہ لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔
یہ تیس منزلہ عمارت زیر تعمیر تھی۔
اسی وجہ سے زیادہ تر مزدور ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان کی تلاش کے لیے اتوار کے روز بھی ریسکیو کوششیں جاری رہیں۔ اس مقصد کے لیے امدادی کارکنوں نے بڑے مکینیکل ڈگرز، سونگھنے کی مدد سے تلاش کرنے والے کتوں اور تھرمل امیجنگ ڈرونز کا استعمال کیا۔اس عمارت کے باہر موجود ایک 45 سالہ تھائی خاتون نارومول تھونگلیک نے روتے ہوئے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ یہاں کام کرنے والے اپنے پانچ دوستوں کے بارے میں خبروں کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں دعا کر رہی ہوں کہ وہ بچ جائیں، لیکن جب میں نے یہاں پہنچ کر تباہی دیکھی تو سوچا کہ وہ کہاں ہو سکتے ہیں؟‘‘
ش ر⁄ م م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میانمار میں تھائی لینڈ علاقوں میں میانمار کے کے مطابق سے زیادہ نے والے کے روز کے لیے
پڑھیں:
بحیرہ مرمرہ میں طاقت ور زلزلے نے استنبول کو ہلا کر رکھ دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) استنبول سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ زلزلہ بدھ 23 اپریل کو مقامی وقت کے مطابق قبل از دوپہر آیا اور ابتدائی طور پر اس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی۔
ترکی میں قدرتی آفات کا مقابلہ اور ہنگامی انتظامات کرنے والے قومی ادارے کے مطابق اس زلزلے کا مرکز استنبول سے تقریباﹰ 40 کلومیٹر (25 میل) جنوب مغرب کی طرف بحیرہ مرمرہ میں سمندر کی تہہ سے نیچے تقریباﹰ 10 کلومیٹر (قریب چھ میل) کی گہرائی میں ریکارڈ کیا گیا۔
ترکی: زلزلے میں عمارت کی تباہی، ملزم کو 865 سال قید کی سزا
امریکی جیولوجیکل سروے نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس زلزلے کا مرکز بحیرہ مرمرہ میں ریکارڈ کیا گیا اور شروع میں ریکٹر اسکیل پر 6.2 کی شدت کے جھٹکوں کے بعد کئی ایسے طاقت ور ضمنی جھٹکے بھی محسوس کیے گئے، جن میں سے ایک تو 5.3 کی شدت کا تھا۔
(جاری ہے)
ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کی شہریوں کو ہدایتاس زلزلے کے بعد اور کئی طاقت ور ضمنی جھٹکوں کے پیش نظر ترکی کی ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی نے استنبول کے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ بلند و بالا عمارات سے دور رہیں۔
حکام کے مطابق یہ زلزلہ صرف استنبول شہر میں ہی نہیں بلکہ اس کے ارد گرد ملک کے دیگر خطوں میں بھی محسوس کیا گیا، جس دوران بہت سے شہری خوف زدہ ہو کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔
فوری طور پر ترک حکام نے اس زلزلے کے نتیجے میں کسی جانی یا مادی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں دی۔
ترکی: زلزلے کے بعد 'پراسرار' بچی اپنی ماں سے مل گئی
زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک آن لائن بیان میں استنبول کی میٹروپولیٹن میونسپلٹی کی طرف سے کہا گیا کہ زلزلے کے نتیجے میں شہر میں عمارات کو کوئی بڑا نقصان پہنچنے یا کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاعات نہیں ملیں۔
ترکی میں زیادہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟جغرافیائی طور پر ترکی ایک ایسے خطے میں واقع ہے، جہاں سے ارضیاتی اصطلاح میں دو ایسی 'فالٹ لائنز‘ گزرتی ہیں، جن کا وہاں ہونا ہی بار بار زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔
فروری 2023ء میں بھی ترکی میں ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت کا ایک ایسا شدید زلزلہ آیا تھا، جس کے کئی گھنٹے بعد آنے والے ضمنی جھٹکے بھی انتہائی طاقت ور تھے۔
اس زلزلے کے نتیجے میں ترکی کے جنوب اور جنوب مشرق میں واقع مجموعی طور پر 11 متاثرہ صوبوں میں لاکھوں عمارات کلی یا جزوی طور پر تباہ ہو گئی تھیں۔
ترکی اور شام کا زلزلہ صدی کی بدترین آفت، ڈبلیو ایچ او
اس کے علاوہ یہ زلزلہ صرف ترکی میں ہی 53 ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔
دو سال قبل یہ زلزلہ ترکی کے ہمسایہ ملک شام کے شمالی حصوں میں بھی وسیع تر جانی اور مادی نقصانات کا سبب بنا تھا۔
اس زلزلے کے نتیجے میں شام میں بھی کافی زیادہ تباہی ہوئی تھی اور مجموعی طور پر تقریباﹰ 6,000 انسان ہلاک ہو گئے تھے۔
دو سال قبل چھ فروری کو آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں ان دونوں ممالک میں مجموعی طور پر تقریباﹰ 60,000 انسان ہلاک ہوئے تھے۔
ادارت: امتیاز احمد