بلوچستان ‘ ہمارے ملک کا دل ہے!
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
بلوچستان حد درجہ خوبصورت علاقہ ہے۔ لوگ ‘ بہترین اخلاق اور رواداری میں گندھے ہوئے ہیں۔ سول سروس کے طویل سفر میں‘ تین برس بلوچستان رہنے کا موقع ملا، اور میں اسے اپنی خوش قسمتی گردانتا ہوں۔ 1998میں جب پنجاب سے بلوچستان رپورٹ کرنے کا حکم ملا۔ تو دل میں عجیب و غریب وسوسے تھے۔
اجنبی علاقہ ‘ زبان کا فرق اور رہن سہن میں شدید فرق، مگر تمام وسوے غلط ثابت ہوئے۔ ایک بات عرض کرتا چلوں۔ سول سروس میں ایک ادنیٰ سا رجحان ہے، جب کسی افسر سے صوبائی حکومت ناراض ہو جاتی ہے تو اسے بطورسزا بلوچستان بھجوا دیا جاتا ہے۔ ویسے یہ سزا اکثر افسروں کو راس آ جاتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ باقی صوبوں کا تو علم نہیں مگر پنجاب میں بیوروکریسی میں کام کرنا سانپ اور سیڑھی کا خوفناک کھیل ہے۔
یہ قطعاً معلوم نہیں پڑتا کہ کس وقت‘ کونسی سیڑھی سانپ بن جائے اور کب کونسا زہریلا سانپ‘ سیڑھی کا روپ دھار لے۔ پنجاب کی افسر شاہی میں تصنع اور سازش کے رجحانات حد درجہ زیادہ ہیں۔ آج کیا حالات ہیں، مجھے معلوم نہیں؟ مگر گمان ہے کہ فطرت اور عادت ‘ بدلتی نہیں۔ بہر حال طالب علم کوئٹہ پہنچ گیا‘ چیف سیکریٹری کو رپورٹ کیا۔ مقامی سروس کے ایک خوشگوار پٹھان تھے۔ حد درجہ بے تکلف انسان تھے۔ ہم پانچ افسر‘ ایک ہی دورانیہ میں کوئٹہ پہنچے تھے۔
پہلے ہی دن‘ جب رہائش کا پوچھا ‘ تو معلوم ہوا۔ کہ جو بھی نیا افسر آتا ہے، اسے فوراً سیکریٹریٹ کے نزدیک‘ریسٹ ہاؤس میں کمرا الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ مجھے بھی ضابطہ کے تحت ‘ کمرہ مل گیا۔ دو دن بعد ‘پتہ چلا کہ چیف سیکریٹری نے مجھے اپنا اسٹاف افسر مقرر کر دیا ہے۔ یہ حد درجہ اہم پوزیشن تھی۔ معلوم نہیں کہ بغیر کسی سفارش یا جان پہچان کے مجھ پر کیوں یہ عنایت کی گئی؟ مگر بتدریج معلوم ہواکہ پورے صوبے میں اکثر پوسٹنگز بغیر کسی سفارش ہی کے ہوتی ہیں۔
میرے لیے‘ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ کیونکہ جس صوبے سے آیا تھا، وہاں تو بغیر سفارش کے معمولی سی پوسٹنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس وقت بلوچستان کے سرکاری معاملات حد درجہ بہتر تھے۔ کم از کم‘ پنجاب سے توان کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
دوسری بات جو شروع شروع میں عجیب معلوم پڑی۔ وہ سرکاری افسروں سے ملنے کا طریقہ تھا۔ وہاں کوئی ایسا چلن نہیں تھا کہ ملاقاتی ‘ کاغذ کی چٹ پر نام لکھ کر اندر بھجوائے‘ اور پھر بلاوے کاانتظار کرے۔ کوئی بھی سائل‘ دروازہ کھول کر ‘ کسی بھی افسر سے مل سکتا تھا۔ ہمارے صوبے یعنی پنجاب میں تونچلی ترین سطح کے افسر بھی اپنے دفتر کو ’’نو گو ایریا‘‘ بنا کر سانس لیتے ہیں۔ اور چٹ کے سوا کم ہی عام لوگوں سے ملتے ہیں۔ مگر کوئٹہ بلکہ بلوچستان میں یہ غیر فطری نظام بہت ہی کم دیکھنے کو ملا تھا۔
ایک دن چیف سیکریٹری نے اتوار کو دفتر آنا تھا۔ مجھے بھی آنا پڑ گیا۔ چیف سیکریٹری نے ایک چلڈرن اسپتال کو دیکھنا تھا‘ جو بیرونی امداد سے تعمیر ہوا تھا۔ میرے پاس گاڑی نہیں تھی۔ چیف سیکریٹری بھی خود گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ اتنا تہذیب یافتہ انسان تھا کہ اپنے ذاتی ڈرائیور کی چھٹی خراب نہیں کی۔ خیر ہم دونوں‘ اسپتال دیکھ کر واپس آئے۔ تو میں نے اجازت چاہی۔ چیف سیکریٹری نے پوچھا کہ آپ کے پاس گاڑی ہے۔ جواب نفی میں تھا۔ چیف سیکریٹری ‘ خود گاڑی چلا کر مجھے ریسٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے آئے۔ پنجاب میںتو خیر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
شاید آج بھی نہیں کر سکتا۔ بہر حال بلوچستان میں تعینات افسر انسان دوست تھے اور ہیں۔ اگلے دن خیر مجھے ایک پرانی سی سرکاری گاڑی مل گئی۔ جو میرے لیے کافی تھی۔ جانا کہاں ہوتا تھا۔ دفتر یا ریسٹ ہاؤس ۔ چند ہفتے گزر گئے۔ اب روٹین ایسی بن گئی ‘ کہ دن میں سرکاری کام ہوتا تھا اور شام کو ریسٹ ہاؤس میں تمام دوستوں کی مجلس منعقد ہوتی تھی۔ محسن حقانی (مرحوم)‘ عارف الٰہی‘ نصر اللہ ‘ ناصر بلوچ (مرحوم)‘ اوریا مقبول جان اور کئی احباب روزانہ اکٹھے ہو جاتے تھے۔ خوب گپیں لگتی تھیں۔ وقت بڑی آسانی سے گزر جاتا تھا۔ جب ہم لوگ‘ کوئٹہ پہنچے ۔تو اوریا مقبول جان نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ وہ حد درجہ مہمان نواز اور محفلی انسان تھا۔ خیر اب تو مذہب کی طرف رجحان ‘ بہت بڑھ چکا ہے۔ مگر اس وقت ہماری ہی طرح کی سوچ کا مالک تھا۔
ایک دن شام کو اپنے دفتر بیٹھا تھا۔ اصول یہی تھا کہ جب تک چیف سیکریٹری دفتر میں براجمان ہیں۔ اسٹاف افسر کی حیثیت سے مجھے بھی بیٹھنا پڑتا تھا۔ کام سمیٹنے سے پہلے ‘ انھوں نے مجھے بلایا۔ آفس کے پیچھے ایک ریٹارئنگ روم تھا۔ وہ وہاں بیٹھے فائلیں دیکھ رہے تھے۔ میں بھی صوفہ پر بیٹھ گیا۔ چند منٹ مکمل خاموشی رہی۔ پھر کہنے لگے‘ کہ آپ کو میں لورالائی ‘ ڈی سی بھجوا رہا ہوں۔ کوئی اعتراض تو نہیں ۔ میں نے لورالائی کا نام پہلی بار سنا تھا۔
مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کیسا ضلع ہے۔ اور کہاں واقع ہے۔ بہر حال میں نے کیا اعتراض کرنا تھا۔ اگلے ہی دن ‘ مجھے ڈی سی لورالائی کے سرکاری احکامات مل گئے۔ نوٹیفکیشن کو کافی دیر گھورتا رہا۔ کیونکہ پنجاب میں تو ڈی سی لگانے کو وزیراعلیٰ ایک احسان گردانتا تھا۔ جس میں باقاعدہ وزیراعلیٰ ‘ افسر کا انٹرویو کرتا ہے جو حد درجہ بے معنی اور پھسپھسا سا ہوتا ہے ‘ کیونکہ کسی بھی وزیراعلیٰ کا انتظامی تجربہ بس تھوڑا سا ہی ہوتا ہے۔ وہ یہی بتاتاہے کہ آپ نے اس ضلع میں جا کر‘ وزیراعلیٰ کے قریب ساتھیوں کا بہت خیال رکھنا ہے۔ ہاں کبھی کبھی‘ سیاسی دشمنوں کی لفظی فہرست بھی دی جاتی ہے ۔ کہ ان لوگوں کا کوئی کام نہیں کرنا ۔ بلکہ ان کو دفتر گھسنے بھی نہیں دینا۔
پنجاب کی نفسیات میں غصہ اور انتقام بہت زیادہ ہے۔ بلوچستان کی سرکاری سوجھ بوجھ میں رواداری اور احترام ہے۔ یہ جوہری فرق‘ ان لوگوں کو قطعاً سمجھ نہیں آ سکتا جنھوں نے بلوچستان میں طویل وقت نہیں گزارا ۔ خیر میں اگلے ہی دن لورالائی پہنچ گیا۔ وہاں مجھے ڈیڑھ دو سال رہنے کا موقع ملا۔ لورالائی پشتون علاقہ ہے اور انتہائی خوبصورت پہاڑوں میں آباد‘ کافی بڑا شہر تھا۔ اپنے دورانیہ کی بابت کسی اور وقت قلم اٹھاؤں گا۔
مجھے بلوچستان رہنے کا طویل اتفاق ہوا۔ پرویز مشرف اس وقت تک حاکم بن چکے تھے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فوجی حکام کا سرکاری کام میں عمل دخل بہت محدود سا تھا۔ خود کش بمبار یادہشت گردی نا ہونے کے برابر تھی۔ایک دن ‘ سابقہ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی سے سیکریٹریٹ میں ملاقات ہوئی۔ وہ بہت شائستہ اور دھیمے مزاج کے انسان معلوم ہوئے۔ عرض کرنے کا مقصد صرف ایک ہے۔ بلوچستان حددرجہ روایتی اور عمدہ صوبہ تھا۔ یہ تو نہیں عرض کر سکتا کہ مسائل نہیں تھے۔
مگر کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں تھا جو انتظامی طور پر حل نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے پشتون اور بلوچ ‘ دونوں طرز کے لوگوں سے براہ راست کام کرنے کا موقع ملا۔ کبھی یہ نہیں لگا کہ میں ان کے لیے اجنبی ہوں۔ یا ان سے کوئی ذہنی دوری کا احساس ہوا ہو۔ صوبے کا گورنر بلوچ تھا۔ ریٹارڈ چیف جسٹس تھے۔ اور براہوی زبان کے سکہ بند شاعر تھے۔ امیر الملک مینگل صاحب۔ حددرجہ سادہ اور شریف انسان تھے۔ کسی قسم کی نسلی یا علاقائی تعصب سے بالا تر تھے۔ افسروں کی عزت کرتے اور بہت احترام سے بات کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اس لیے عرض کر رہا ہوں۔
کہ بلوچستان کے موجودہ حالات اور آج سے تین دہائیاں قبل کے حالات میں زمین آسمان کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ اب تو ہر روز کوئی نہ کوئی دہشت گردی کی خوفناک واردات ‘ ایف سی‘ لیویز اور سرکاری تنصیات پر حملوں کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ ایک پرامن خطہ‘ بارود اور خون کی بارش میں کیسے دھکیل دیا گیا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ نسلی اور قبائلی عصیبت کو کیسے دیو بنا دیا گیا ۔ یہ بھی ایک المیہ سے کم نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مرکز نے کافی حد تک بلوچستان کو وسائل فراہم کیے ہیں۔ مگر وہ زمین پر نہیں لگ پائے۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ جس پر کسی وقت روشنی ضرور ڈالوں گا ۔ مگر یقین نہیں آتا۔ کہ صرف بیس پچیس برسوں میں صوبے کی نفسیات ہی تبدیل ہو گئی۔ اب تو وہاں سے خیر کی خبر‘ آتی ہی نہیں ہے۔ مقتدر حلقوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بلوچستان کے زخموں پر مرحم رکھیں۔ حقیقی یا غیر حقیقی احساس محرومی کو ہر طریقے سے دور کریں۔ بلوچستان کے نمایندوں کو فیصلہ سازی میں اہم جگہ دیں۔ ٹوڈی قسم کے سیاست دانوں کو طاقت کے مرکز سے دور کریں۔ یقین فرمائیے۔ وہاں کے عام لوگ حد درجہ محب وطن اور اچھے ہیں۔
وہ کسی صورت میں عسکریت پسندی کی طرف جانا نہیں چاہتے۔ انھیں امن کے دھارے میں آج بھی واپس لایا جا سکتا ہے۔ ضد اور انا کی دیوار گرا یئے ۔ بلوچستان کے حالات بہت حد تک ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ میری نظر میں تو بلوچستان ‘ ہمارے ملک کا دل ہے اس کے پرامن وجود کے بغیر‘ ہمارا ملک بالکل ادھورا ہے۔ اس خطے سے محبت کیجیے۔ یہ لوگ کبھی آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف سیکریٹری نے بلوچستان کے ریسٹ ہاو س سکتا تھا بھی نہیں نہیں کر تھا کہ
پڑھیں:
داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا
بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔
تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔
جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔
داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔
مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔
شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔
داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔
داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔
اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔
یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan