بلوچستان ‘ ہمارے ملک کا دل ہے!
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
بلوچستان حد درجہ خوبصورت علاقہ ہے۔ لوگ ‘ بہترین اخلاق اور رواداری میں گندھے ہوئے ہیں۔ سول سروس کے طویل سفر میں‘ تین برس بلوچستان رہنے کا موقع ملا، اور میں اسے اپنی خوش قسمتی گردانتا ہوں۔ 1998میں جب پنجاب سے بلوچستان رپورٹ کرنے کا حکم ملا۔ تو دل میں عجیب و غریب وسوسے تھے۔
اجنبی علاقہ ‘ زبان کا فرق اور رہن سہن میں شدید فرق، مگر تمام وسوے غلط ثابت ہوئے۔ ایک بات عرض کرتا چلوں۔ سول سروس میں ایک ادنیٰ سا رجحان ہے، جب کسی افسر سے صوبائی حکومت ناراض ہو جاتی ہے تو اسے بطورسزا بلوچستان بھجوا دیا جاتا ہے۔ ویسے یہ سزا اکثر افسروں کو راس آ جاتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ باقی صوبوں کا تو علم نہیں مگر پنجاب میں بیوروکریسی میں کام کرنا سانپ اور سیڑھی کا خوفناک کھیل ہے۔
یہ قطعاً معلوم نہیں پڑتا کہ کس وقت‘ کونسی سیڑھی سانپ بن جائے اور کب کونسا زہریلا سانپ‘ سیڑھی کا روپ دھار لے۔ پنجاب کی افسر شاہی میں تصنع اور سازش کے رجحانات حد درجہ زیادہ ہیں۔ آج کیا حالات ہیں، مجھے معلوم نہیں؟ مگر گمان ہے کہ فطرت اور عادت ‘ بدلتی نہیں۔ بہر حال طالب علم کوئٹہ پہنچ گیا‘ چیف سیکریٹری کو رپورٹ کیا۔ مقامی سروس کے ایک خوشگوار پٹھان تھے۔ حد درجہ بے تکلف انسان تھے۔ ہم پانچ افسر‘ ایک ہی دورانیہ میں کوئٹہ پہنچے تھے۔
پہلے ہی دن‘ جب رہائش کا پوچھا ‘ تو معلوم ہوا۔ کہ جو بھی نیا افسر آتا ہے، اسے فوراً سیکریٹریٹ کے نزدیک‘ریسٹ ہاؤس میں کمرا الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ مجھے بھی ضابطہ کے تحت ‘ کمرہ مل گیا۔ دو دن بعد ‘پتہ چلا کہ چیف سیکریٹری نے مجھے اپنا اسٹاف افسر مقرر کر دیا ہے۔ یہ حد درجہ اہم پوزیشن تھی۔ معلوم نہیں کہ بغیر کسی سفارش یا جان پہچان کے مجھ پر کیوں یہ عنایت کی گئی؟ مگر بتدریج معلوم ہواکہ پورے صوبے میں اکثر پوسٹنگز بغیر کسی سفارش ہی کے ہوتی ہیں۔
میرے لیے‘ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ کیونکہ جس صوبے سے آیا تھا، وہاں تو بغیر سفارش کے معمولی سی پوسٹنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس وقت بلوچستان کے سرکاری معاملات حد درجہ بہتر تھے۔ کم از کم‘ پنجاب سے توان کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
دوسری بات جو شروع شروع میں عجیب معلوم پڑی۔ وہ سرکاری افسروں سے ملنے کا طریقہ تھا۔ وہاں کوئی ایسا چلن نہیں تھا کہ ملاقاتی ‘ کاغذ کی چٹ پر نام لکھ کر اندر بھجوائے‘ اور پھر بلاوے کاانتظار کرے۔ کوئی بھی سائل‘ دروازہ کھول کر ‘ کسی بھی افسر سے مل سکتا تھا۔ ہمارے صوبے یعنی پنجاب میں تونچلی ترین سطح کے افسر بھی اپنے دفتر کو ’’نو گو ایریا‘‘ بنا کر سانس لیتے ہیں۔ اور چٹ کے سوا کم ہی عام لوگوں سے ملتے ہیں۔ مگر کوئٹہ بلکہ بلوچستان میں یہ غیر فطری نظام بہت ہی کم دیکھنے کو ملا تھا۔
ایک دن چیف سیکریٹری نے اتوار کو دفتر آنا تھا۔ مجھے بھی آنا پڑ گیا۔ چیف سیکریٹری نے ایک چلڈرن اسپتال کو دیکھنا تھا‘ جو بیرونی امداد سے تعمیر ہوا تھا۔ میرے پاس گاڑی نہیں تھی۔ چیف سیکریٹری بھی خود گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ اتنا تہذیب یافتہ انسان تھا کہ اپنے ذاتی ڈرائیور کی چھٹی خراب نہیں کی۔ خیر ہم دونوں‘ اسپتال دیکھ کر واپس آئے۔ تو میں نے اجازت چاہی۔ چیف سیکریٹری نے پوچھا کہ آپ کے پاس گاڑی ہے۔ جواب نفی میں تھا۔ چیف سیکریٹری ‘ خود گاڑی چلا کر مجھے ریسٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے آئے۔ پنجاب میںتو خیر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
شاید آج بھی نہیں کر سکتا۔ بہر حال بلوچستان میں تعینات افسر انسان دوست تھے اور ہیں۔ اگلے دن خیر مجھے ایک پرانی سی سرکاری گاڑی مل گئی۔ جو میرے لیے کافی تھی۔ جانا کہاں ہوتا تھا۔ دفتر یا ریسٹ ہاؤس ۔ چند ہفتے گزر گئے۔ اب روٹین ایسی بن گئی ‘ کہ دن میں سرکاری کام ہوتا تھا اور شام کو ریسٹ ہاؤس میں تمام دوستوں کی مجلس منعقد ہوتی تھی۔ محسن حقانی (مرحوم)‘ عارف الٰہی‘ نصر اللہ ‘ ناصر بلوچ (مرحوم)‘ اوریا مقبول جان اور کئی احباب روزانہ اکٹھے ہو جاتے تھے۔ خوب گپیں لگتی تھیں۔ وقت بڑی آسانی سے گزر جاتا تھا۔ جب ہم لوگ‘ کوئٹہ پہنچے ۔تو اوریا مقبول جان نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ وہ حد درجہ مہمان نواز اور محفلی انسان تھا۔ خیر اب تو مذہب کی طرف رجحان ‘ بہت بڑھ چکا ہے۔ مگر اس وقت ہماری ہی طرح کی سوچ کا مالک تھا۔
ایک دن شام کو اپنے دفتر بیٹھا تھا۔ اصول یہی تھا کہ جب تک چیف سیکریٹری دفتر میں براجمان ہیں۔ اسٹاف افسر کی حیثیت سے مجھے بھی بیٹھنا پڑتا تھا۔ کام سمیٹنے سے پہلے ‘ انھوں نے مجھے بلایا۔ آفس کے پیچھے ایک ریٹارئنگ روم تھا۔ وہ وہاں بیٹھے فائلیں دیکھ رہے تھے۔ میں بھی صوفہ پر بیٹھ گیا۔ چند منٹ مکمل خاموشی رہی۔ پھر کہنے لگے‘ کہ آپ کو میں لورالائی ‘ ڈی سی بھجوا رہا ہوں۔ کوئی اعتراض تو نہیں ۔ میں نے لورالائی کا نام پہلی بار سنا تھا۔
مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کیسا ضلع ہے۔ اور کہاں واقع ہے۔ بہر حال میں نے کیا اعتراض کرنا تھا۔ اگلے ہی دن ‘ مجھے ڈی سی لورالائی کے سرکاری احکامات مل گئے۔ نوٹیفکیشن کو کافی دیر گھورتا رہا۔ کیونکہ پنجاب میں تو ڈی سی لگانے کو وزیراعلیٰ ایک احسان گردانتا تھا۔ جس میں باقاعدہ وزیراعلیٰ ‘ افسر کا انٹرویو کرتا ہے جو حد درجہ بے معنی اور پھسپھسا سا ہوتا ہے ‘ کیونکہ کسی بھی وزیراعلیٰ کا انتظامی تجربہ بس تھوڑا سا ہی ہوتا ہے۔ وہ یہی بتاتاہے کہ آپ نے اس ضلع میں جا کر‘ وزیراعلیٰ کے قریب ساتھیوں کا بہت خیال رکھنا ہے۔ ہاں کبھی کبھی‘ سیاسی دشمنوں کی لفظی فہرست بھی دی جاتی ہے ۔ کہ ان لوگوں کا کوئی کام نہیں کرنا ۔ بلکہ ان کو دفتر گھسنے بھی نہیں دینا۔
پنجاب کی نفسیات میں غصہ اور انتقام بہت زیادہ ہے۔ بلوچستان کی سرکاری سوجھ بوجھ میں رواداری اور احترام ہے۔ یہ جوہری فرق‘ ان لوگوں کو قطعاً سمجھ نہیں آ سکتا جنھوں نے بلوچستان میں طویل وقت نہیں گزارا ۔ خیر میں اگلے ہی دن لورالائی پہنچ گیا۔ وہاں مجھے ڈیڑھ دو سال رہنے کا موقع ملا۔ لورالائی پشتون علاقہ ہے اور انتہائی خوبصورت پہاڑوں میں آباد‘ کافی بڑا شہر تھا۔ اپنے دورانیہ کی بابت کسی اور وقت قلم اٹھاؤں گا۔
مجھے بلوچستان رہنے کا طویل اتفاق ہوا۔ پرویز مشرف اس وقت تک حاکم بن چکے تھے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فوجی حکام کا سرکاری کام میں عمل دخل بہت محدود سا تھا۔ خود کش بمبار یادہشت گردی نا ہونے کے برابر تھی۔ایک دن ‘ سابقہ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی سے سیکریٹریٹ میں ملاقات ہوئی۔ وہ بہت شائستہ اور دھیمے مزاج کے انسان معلوم ہوئے۔ عرض کرنے کا مقصد صرف ایک ہے۔ بلوچستان حددرجہ روایتی اور عمدہ صوبہ تھا۔ یہ تو نہیں عرض کر سکتا کہ مسائل نہیں تھے۔
مگر کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں تھا جو انتظامی طور پر حل نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے پشتون اور بلوچ ‘ دونوں طرز کے لوگوں سے براہ راست کام کرنے کا موقع ملا۔ کبھی یہ نہیں لگا کہ میں ان کے لیے اجنبی ہوں۔ یا ان سے کوئی ذہنی دوری کا احساس ہوا ہو۔ صوبے کا گورنر بلوچ تھا۔ ریٹارڈ چیف جسٹس تھے۔ اور براہوی زبان کے سکہ بند شاعر تھے۔ امیر الملک مینگل صاحب۔ حددرجہ سادہ اور شریف انسان تھے۔ کسی قسم کی نسلی یا علاقائی تعصب سے بالا تر تھے۔ افسروں کی عزت کرتے اور بہت احترام سے بات کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اس لیے عرض کر رہا ہوں۔
کہ بلوچستان کے موجودہ حالات اور آج سے تین دہائیاں قبل کے حالات میں زمین آسمان کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ اب تو ہر روز کوئی نہ کوئی دہشت گردی کی خوفناک واردات ‘ ایف سی‘ لیویز اور سرکاری تنصیات پر حملوں کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ ایک پرامن خطہ‘ بارود اور خون کی بارش میں کیسے دھکیل دیا گیا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ نسلی اور قبائلی عصیبت کو کیسے دیو بنا دیا گیا ۔ یہ بھی ایک المیہ سے کم نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مرکز نے کافی حد تک بلوچستان کو وسائل فراہم کیے ہیں۔ مگر وہ زمین پر نہیں لگ پائے۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ جس پر کسی وقت روشنی ضرور ڈالوں گا ۔ مگر یقین نہیں آتا۔ کہ صرف بیس پچیس برسوں میں صوبے کی نفسیات ہی تبدیل ہو گئی۔ اب تو وہاں سے خیر کی خبر‘ آتی ہی نہیں ہے۔ مقتدر حلقوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بلوچستان کے زخموں پر مرحم رکھیں۔ حقیقی یا غیر حقیقی احساس محرومی کو ہر طریقے سے دور کریں۔ بلوچستان کے نمایندوں کو فیصلہ سازی میں اہم جگہ دیں۔ ٹوڈی قسم کے سیاست دانوں کو طاقت کے مرکز سے دور کریں۔ یقین فرمائیے۔ وہاں کے عام لوگ حد درجہ محب وطن اور اچھے ہیں۔
وہ کسی صورت میں عسکریت پسندی کی طرف جانا نہیں چاہتے۔ انھیں امن کے دھارے میں آج بھی واپس لایا جا سکتا ہے۔ ضد اور انا کی دیوار گرا یئے ۔ بلوچستان کے حالات بہت حد تک ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ میری نظر میں تو بلوچستان ‘ ہمارے ملک کا دل ہے اس کے پرامن وجود کے بغیر‘ ہمارا ملک بالکل ادھورا ہے۔ اس خطے سے محبت کیجیے۔ یہ لوگ کبھی آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف سیکریٹری نے بلوچستان کے ریسٹ ہاو س سکتا تھا بھی نہیں نہیں کر تھا کہ
پڑھیں:
کینال منصوبہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلیے نکلیں گے، وزیراعلیٰ سندھ
کراچی:وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کینال منصوبہ اگر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کے لیے نکلیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ سندھ کے عوام کے مفاد کے خلاف کوئی منصوبہ منظور نہیں کیا جائے گا اور وہ کینال منصوبے کو روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جو ہر مذہب، ہر ذات اور ہر برادری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ منصوبہ کسی نے بھی بنایا ہو، لیکن سندھ حکومت نے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ کینالز پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا، وہ بھی جولائی میں۔ اگر یہ معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم احتجاج کے لیے نکلیں گے۔۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہے لیکن کسی کے ہاتھوں میں بھی نہیں کھیل رہے۔ یہ اجتماعی مقصد ہے اور ہمیں کینال منصوبے کو روکنا ہے کیونکہ یہ ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وکلا برادری جمہوریت کی بحالی میں پہلے بھی شراکت دار رہی ہے، اب بھی وہ ہمارے ساتھ ہیں۔انہوں نے وکلا کی کینالز کے خلاف جدوجہد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہم اپوزیشن جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ احتجاج ضرور کریں مگر عوام کو تکلیف نہ پہنچائیں، سڑکیں بند نہ کریں۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ کینالز نہیں بنیں گی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت اب تک اس منصوبے کو ختم کیوں نہیں کر رہی؟ وزیر خزانہ نے 19 اپریل کو خط بھیجا کہ سندھ اپنا این ایف سی نمائندہ تجویز کرے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ 14 ماہ بعد وفاقی حکومت نے قومی مالیاتی کمیشن کے نمائندے مانگے ہیں۔
مراد علی شاہ نے کسانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے فارمرز بھی اگلے سال گندم نہ اگانے کا سوچ رہے ہیں۔ چین میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 60 سے 65 من ہے، ہمیں بھی ٹیکنالوجی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کپاس کی پیداوار بڑھا نہیں سکے اور اب ریگستان کو آباد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کے اندرا کینال کے نتائج چیٹ جی پی ٹی سے چیک کر لیں۔ نئی نہروں کے لیے اضافی پانی موجود ہی نہیں ہے۔ ان شا اللہ ہم یہ منصوبہ واپس بھی لیں گے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم سندھ کے تحفظات کا احترام کریں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انگریز دور میں بھی زیریں علاقوں کے مفاد میں بالائی علاقوں کے کینال منصوبے مسترد کیے گئے تھے۔ آخر میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ وزیراعظم انصاف پر مبنی فیصلہ کریں گے۔