میر واعظ عمر فاروق نے سرینگر سے ایک بیان میں جامع مسجد سرینگر اور عیدگاہ میں نماز عید کی اجازت نہ دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں مسلمان مذہبی جوش وجذبے اور پوری آزادی کے ساتھ عیدالفطر منا رہے ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو سرینگر شہر کی تاریخی جامع مسجد اور عیدگاہ میں عیدالفطر کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ذرائع کے مطابق انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر نے اعلان کیا تھا کہ عیدالفطر کی نماز صبح 10بجے سرینگر کی تاریخی عیدگاہ میں ادا کی جائے گی اور ساتھ ہی قابض حکام سے اپیل کی تھی کہ وہ شب قدر اور جمعتہ الوداع کی طرح نماز عید کی ادائیگی میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ پاکستان کے ساتھ عید منانے کی روایت جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام کے درمیان گہرے ثقافتی اور مذہبی رشتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ تاہم مقبوضہ علاقے میں عید کی خوشیاں بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی طرف سے عائد کی گئی سخت پابندیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔ غیر کشمیری فرقہ پرست لیفٹننٹ گورنرمنوج منہاس کی سربراہی میں بی جے پی حکومت نے سرینگر کی تاریخی جامع مسجد اور عیدگاہ میں عید کی نماز پر پابندی عائد کر دی۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق کو جو جامع مسجد کے سربراہ بھی ہیں، نماز عید کی امامت سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس، انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر اور دیگر مذہبی و سیاسی تنظیموں نے جامع مسجد سرینگر اور عیدگاہ میں نماز کی ادائیگی پر مسلسل پابندی کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو مسلمانون کی مذہبی آزادیوں اور حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ بھارتی فورسز نے عیدالفطر کے موقع پر بھی پورے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت نے عیدالفطر کے موقع پر کسی بھی قسم کے احتجاجی مظاہرے کو روکنے کے لئے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو بھاری تعداد میں تعینات کر رکھا ہے اور علاقے میں سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمرفاروق نے سرینگر سے ایک بیان میں جامع مسجد سرینگر اور عیدگاہ میں نماز عید کی اجازت نہ دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا ہے۔ حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے بھی سرینگر کی تاریخی جامع مسجد اور عیدگاہ کو عیدالفطر کی نماز کے لیے بند کرنے اور میر واعظ عمر فاروق کو گھر میں نظربند کرنے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کا یہ قدم انتہائی تکلیف دہ اور مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں واضح مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری اور فلسطینی عوام قربانیوں کی بے مثال تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ عظیم قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔

واضح رہے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، مشتاق الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر احمد، ڈاکٹر حمید فیاض، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں سمیت ہزاروں کشمیری بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی مختلف جیلوں میں نظربند ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کل جماعتی حریت کانفرنس جامع مسجد سرینگر اور جامع مسجد اور عیدگاہ حریت کانفرنس کے اور عیدگاہ میں نماز عید کی کی تاریخی میر واعظ کی اجازت کی نماز

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس
  • بھارتی ماﺅ نواز باغی جنگجوﺅں کا یکطرفہ طور پر مسلح جدوجہد معطل کرنے اور حکام سے بات چیت کا اعلان
  • کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟
  • بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
  • عوام کی صحت کیساتھ کھیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائیگی، شفقت محمود
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  •   حکومت فوری طور پر نجی شعبے کو گندم امپورٹ کی اجازت دے
  • بھارتی حکومت نے سکھ یاتریوں کو بابا گورونانک کی برسی پر آنے سے روک دیا
  • کسی ملزم کو عدالتی پراسیس کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس