کٹھوعہ، بھارتی فوجیوں کی کٹھوعہ میں تلاشی اور محاصرے کی کارروائیاں دسویں روز بھی جاری
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
واضح رہے کہ بھارتی فورسز نے 23مارچ کو ضلع کٹھوعہ میں ایک حملے میں 4 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور 7 کے زخمی ہونے کے بعد تلاشی اور محاصرے کی کارروائی شروع کی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں بھارتی فوجیوں کی پرتشدد محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں آج دسویں روز بھی جاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فوج رام کوٹ کے علاقے پنجتیرتھی میں بھی کارروائی کر رہی ہیں۔ فوجیوں نے ضلع کے علاقے گھاٹی جوتھانہ کے جنگل میں بھی تلاشی کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے علاقے کو سیل کر دیا ہے اور مزید فورسز علاقے میں پہنچ گئی ہیں۔ بھارتی فورسز نے جمعہ کو اس علاقے میں ایک جعلی مقابلے کے دوران 2 کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دیکر شہید کر دیا تھا۔ فوجیوں نے علاقے سے ایک ہی خاندان کے 6 افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارتی فورسز نے 23مارچ کو ضلع کٹھوعہ میں ایک حملے میں 4 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور 7 کے زخمی ہونے کے بعد تلاشی اور محاصرے کی کارروائی شروع کی تھی۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
صیہونی فوج اور معاشرے میں افراتفری
اسلام ٹائمز: اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے زور دیکر کہا ہے کہ ملک اسوقت شدید تنازعات اور افراتفری کے دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے گروہ بندی کے خاتمے پر زور دیا۔ یہ بیان اسرائیلی حکومت میں داخلی بحرانوں اور عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہرزوگ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اندرونی تنازعات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھولے گی، جنہوں نے تقسیم پیدا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی بے حسی پر بھی تنقید کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تحریر: سید رضی عمادی
صہیونی میڈیا اپنے تجزیوں میں لکھ رہا ہے کہ جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں اسرائیلی فوج میں نافرمانی کی سب سے بڑی لہر کی تشکیل ایک یقینی امر ہے۔ میڈیا تمام تر سنسر کے باوجود اسرائیلی فوج کے شدید عدم اطمینان کی مسلسل خبریں نشر کر رہا ہے۔ یہ بحران غزہ میں 18 ماہ کی نہ رکنے والی لڑائی کے بعد اسرائیلی فوج کے حوصلوں میں تیزی سے گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے اور ریزرو فورس میں کمی نیز فوجیوں کے سروس چھوڑنے سے اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں کمی اور کمزوری نوشتہ دیوار ہے۔ اکتوبر 2023ء کی غزہ جنگ کے آغاز سے لیکر آج تک اسرائیلی فوج کو اپنی طویل ترین لڑائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تقریباً ایک لاکھ ریزرو فوجیوں نے سروس پر واپس آنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کی موجودگی کم ہو کر 50-60 فیصد رہ گئی ہے۔
طویل جنگ اور زیادہ ہلاکتوں نے فوجیوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ رپورٹیں اسرائیلی افواج میں تھکاوٹ اور نفسیاتی صدمے میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی دہکھا جا رہا ہے۔ کچھ فوجیوں نے غزہ میں شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔ صیہونی میڈیا اور سیاسی اور فوجی ناقدین بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کو خبردار کر رہے ہیں کہ فوجیوں کا جنگ سے فرار فوج اور حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے عوامی رویوں میں تبدیلی کا اشارہ ہے اور بعید نہیں کہ نافرمانی کی یہ تحریک اسرائیل کے دوسرے شعبوں تک پھیل جائے۔
ادھر اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے زور دیکر کہا ہے کہ ملک اس وقت شدید تنازعات اور افراتفری کے دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے گروہ بندی کے خاتمے پر زور دیا۔ یہ بیان اسرائیلی حکومت میں داخلی بحرانوں اور عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہرزوگ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اندرونی تنازعات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھولے گی، جنہوں نے تقسیم پیدا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی بے حسی پر بھی تنقید کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا ہے۔