ڈاکٹر ثنا اظہر کی آٹزم پر تحقیق اور آگاہی مہم
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
رہورٹ: افق چوہان
آٹزم پر تحقیق اور اس کے علاج کے لیے سرگرم عمل ڈاکٹر ثنا اظہر اس بیماری سے متعلق آگاہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کا اس میدان میں کام ذاتی تجربے سے جڑا ہے، کیونکہ ان کے اپنے بچے پیدائش سے ہی آٹزم کا شکار ہیں۔ اسی لیے وہ آٹزم کے چیلنجز اور متاثرہ افراد کی منفرد صلاحیتوں کو قریب سے سمجھتی ہیں اور اس حوالے سے مؤثر حکمت عملیوں کی وکالت کر رہی ہیں۔
آٹزم ایک نیورولوجیکل بیماری ہے جو بچوں کی سماجی تعلقات، رویے اور گفتاری صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شدت ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہے۔ کچھ بچے سماجی میل جول میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ کچھ غیر معمولی ذہانت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ثنا کے مطابق اس بیماری کی جلد تشخیص انتہائی ضروری ہے، جو عام طور پر 18 ماہ سے 3 سال کی عمر میں ممکن ہوتی ہے۔ اس کے لیے رویے کا تجزیہ اور ماہرین کا تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے۔
آٹزم کا کوئی مستقل علاج نہیں، لیکن بروقت توجہ اور تھراپی سے مریضوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ علاج کے مختلف طریقوں میں بیہیویئر تھراپی، گفتار اور جسمانی تھراپی، خصوصی تعلیمی پروگرام اور بعض صورتوں میں ادویات شامل ہیں جو بے چینی، نیند کے مسائل اور ہائپر ایکٹیویٹی کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
پاکستان میں آٹزم کے شکار بچوں کے لیے خصوصی مراکز قائم ہیں، جن میں آٹزم ریسورس سینٹر اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں خدمات فراہم کر رہا ہے۔ ڈاکٹر ثنا اظہر اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ تجربے کی بنیاد پر آٹزم سے متعلق شعور اجاگر کرنے اور متاثرہ افراد کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹزم آگاہی مہم ڈاکٹر ثنا اظہر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آگاہی مہم ڈاکٹر ثنا اظہر ڈاکٹر ثنا اظہر کے لیے
پڑھیں:
پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
دنیا ایک بار پھر ایک مہلک بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار، جو اب اپنی نئی شکل میں انتہائی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق، ’سیلمونیلا ٹائیفی‘ نامی بیکٹیریا جو ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے، اب کئی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے، جن میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ’آخری حل‘ سمجھی جاتی تھیں۔
جدید تحقیق کی سنگین وارننگ
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جو اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا سے، انہیں ’ایکسٹینسِولی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر‘ یعنی انتہائی مزاحم اقسام قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام ’فلوئوروکوئنولونز‘ اور تیسری نسل کی ’سیفالوسپورِنز‘ جیسی جدید اور طاقتور ادویات کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت دکھا رہی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیسن اینڈریوز کا کہنا ہے، ’جس رفتار سے یہ مزاحم اقسام سامنے آ رہی ہیں اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ان بیماریوں سے متاثرہ ممالک میں روک تھام کے اقدامات کو وسعت دی جائے۔
بیماری کا عالمی پھیلاؤ
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1990 سے اب تک ٹائیفائیڈ کی یہ مزاحم اقسام تقریباً 200 بار مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں اس بیماری کی ایک سپر ریزسٹنٹ قسم دریافت ہوئی، جو چند سالوں میں ملک میں سب سے زیادہ عام قسم بن چکی ہے۔
علاج میں مشکلات اور ممکنہ بحران
عالمی سطح پر ہر سال ٹائیفائیڈ بخار کے ایک کروڑ 10 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 1 لاکھ افراد اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ بیماری ہر پانچ میں سے ایک مریض کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ مزاحم اقسام عام ہو رہی ہیں، علاج مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو رہا ہے۔
ویکسین کی ضرورت اور رسائی کا بحران
اگرچہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، لوگوں کو ان ویکسینز تک رسائی حاصل نہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے صحت کے بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔
حفاظتی تدابیر اور عوامی شعور کی ضرورت
ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:
صاف پانی اور حفظانِ صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے، خاص طور پر خطرے سے دوچار علاقوں میں۔
اینٹی بایوٹکس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال بند کیا جائے تاکہ مزید مزاحمت نہ بڑھے۔
عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ ابتدائی علامات پر بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار کی نئی، خطرناک اقسام ہمارے عالمی صحت کے نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں، طبی ادارے اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں، وگرنہ صدیوں پرانی بیماری ایک بار پھر انسانیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔