کوئٹہ:

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رؤف عطا نے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی مینگل) کے سربراہ اختر مینگل سے مذاکرات کے لیے ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطا اور بی این پی مینگل کے صدر اختر کے درمیان ہونے والی ملاقات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا، جس میں کہا گیا کہ بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل سے ضلع مستونگ کے ایک دور دراز مقام پر ملاقات ہوئی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعلامیے کے مطابق احتجاجی تحریک میں مصروف بی این پی مینگل نے اپنی جدوجہد کے محرکات اور احتجاج کے جواز کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے اپنا مؤقف پیش کیا۔

ملاقات کے دوران سردار اختر مینگل نے انکشاف کیا کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے ایک کمیٹی نے ان سے رابطہ کیا تھا، جس پر بی این پی مینگل کی جانب سے تین مطالبات رکھے گئے، تمام زیرِ حراست افراد کی رہائی، جو کہ حفاظتی تحویل میں رکھے گئے ہیں اور سندھ حکومت کی طرح نوٹیفکیشن کی واپس لیا جائے۔

بی این پی مینگل نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں ایک مخصوص علاقے میں احتجاج یا دھرنے کی اجازت دی جائے، جو ریڈ زون کے اندر ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا تو بی این پی مینگل کی پوری قیادت رضاکارانہ گرفتاری دینے کے لیے تیار ہے۔

اعلامیے کے مطابق انہوں نے واضح کیا کہ اگر ان کے مطالبات ایک دو دن کے اندر تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ ریڈ زون کی جانب اپنے مارچ کو عملی جامہ پہنائیں گے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ پُرامن اجتماع، احتجاج، آزادی اظہار اور نقل و حرکت کی آزادی، آئین کے تحت ضمانت شدہ بنیادی حقوق ہیں۔

مزید کہا گیا کہ دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ بی این پی  مینگل کو درپیش مسائل اور بلوچستان کے وسیع تر مسائل کا واحد حل مذاکرات، گفت و شنید اور جمہوری طرز عمل میں مضمر ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دے،کمیٹی کے پاس مکمل مینڈیٹ ہو تاکہ پارٹی کے جائز تحفظات کو دور کیا جا سکے اور کسی بھی ناخوش گوار واقعے یا کشیدگی کو روکا جا سکے۔

انہوں نے بلوچستان اور ملک بھر کی دیگر قومی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی اپیل کی کہ وہ بی این پی مینگل سے مذاکرات کے لیے اپنے نمائندے بھیجیں۔

صدر سپریم کورٹ بار نے بی این پی مینگل کی قیادت سے درخواست کی کہ وہ ایک ایسی حکمت عملی وضع کریں جو موجودہ مسائل کے کسی قابلِ قبول حل تک پہنچنے میں مدد دے۔

رؤف عطا نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر سپریم کورٹ بار بی این پی مینگل مینگل سے کیا کہ کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اپریل 2025ء ) سسپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹادیں۔ تفصیلات کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں، عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کوڈیڑھ سال گزرچکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کرہا‘، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی‘، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’کسی قتل اور زناء کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی‘۔

(جاری ہے)

جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا‘، جسٹس صلاح الدین پنہور ے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے‘۔

اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلئے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا، ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلئے مطمئن نہیں کرسکی‘۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، ہم تین رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، آٹھ سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا‘، بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کردیں۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی حمایت
  • وزیراعظم نے حکومتی کارکردگی کا نظام بہتر بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ ، پنجاب حکومت کی درخواستیں مسترد
  • شہباز شریف نے حکومتی کارکردگی کے نظام میں بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی
  • اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے گاڑیوں کی خریداری،جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • اے سیز کیلئے گاڑیوں کی خریداری: جماعت اسلامی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • وزیراعظم نے حکومتی کارکردگی کے نظام میں بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی
  • حکومتی کارکردگی کے نظام کی بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل،وزیر خزانہ کنوینر مقرر
  • سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
  • وزیراعظم نے FBR کا جائزہ ماڈل تمام وفاقی ملازمین پر لاگو کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی