ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ سے اپنے ممکنہ استعفے کی رپورٹس کو ’جعلی خبر‘ قرار دے دیا۔ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ نے اپنے کابینہ کے ارکان کو آگاہ کیا تھا کہ مسک جلد ہی حکومت کی کارکردگی کے محکمے (DOGE) کے سربراہ کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔

ایلون مسک نے ان رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ سے جلد استعفیٰ نہیں دینے والے ہیں، اور اس خبر کو جعلی قرار دیا۔ پولیٹیکو کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کو اطلاع دی تھی کہ مسک اگلے چند ہفتوں میں حکومت کی کارکردگی کے محکمے کے سربراہ کے طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ تاہم، مسک اور وائٹ ہاؤس دونوں نے ان دعووں کی تردید کی ہے، اور کہا ہے کہ وہ اپنے کام کے مکمل ہونے تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔

میک، جو وفاقی اخراجات میں کمی اور حکومت کے محکموں کو ختم کرنے کی کوششوں کی قیادت کرنے کے لیے خصوصی حکومت کے ملازم کے طور پر مقرر ہوئے تھے، نے ان قیاس آرائیوں کا جواب دیتے ہوئے X پر ایک سادہ پیغام لکھا، ’ہاں، جعلی خبریں‘۔

مزید پڑھیں: ایلون مسک کی چپ سے فالج کا مریض شطرنج کھیلنے لگا

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیویٹ نے بھی اس رپورٹ کو فضول قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسک صرف اس وقت استعفیٰ دیں گے جب ان کا کام مکمل ہو جائے گا۔ اس کے باوجود، پولیٹیکو نے رپورٹ کیا کہ ٹرمپ اور مسک نے ذاتی طور پر اتفاق کیا تھا کہ ارب پتی شخص جلد ہی اپنے کاروبار میں واپس چلا جائے گا، لیکن غیر رسمی مشاورتی کردار برقرار رکھتے ہوئے۔ ایک سینئر انتظامیہ کے افسر نے بتایا کہ جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ مسک ٹرمپ کے قریبی حلقے سے مکمل طور پر علیحدہ ہو جائیں گے، وہ خود کو دھوکا دے رہا ہے۔

جنوری میں اس عہدے کو سنبھالنے کے بعد، مسک کو وفاقی اخراجات میں کمی لانے اور حکومتی ملازمتوں کو ختم کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کرنے پر تنقید کا سامنا رہا، جنہیں وہ واشنگٹن کے ڈھانچے کو نئے سرے سے تشکیل دینے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایلون مسک کا ججز کیخلاف پیٹیشن پر دستخط کرنیوالے شہریوں کے لیے 100 ڈالرز انعام کا اعلان

مسک کی قیادت میں DOGE اقدام نے پہلے ہی حکومتی معاہدوں اور ورک فورس میں کمی کی ہے، اور رپورٹس کے مطابق ان کی کوششوں سے وفاقی اخراجات میں 1 ٹریلین ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ مسک اپنے 130 دنوں کے مدت سے زیادہ رہیں، تو ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ شاندار ہیں، لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان کے پاس ایک بڑا کاروبار ہے جسے چلانا ہے۔ کسی نہ کسی وقت، وہ واپس جانا چاہیں گے۔

مسک کی مدت بطور خصوصی حکومت کے ملازم مئی کے آخر تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ پچھلے ہفتے، انہوں نے فاکس نیوز کو بتایا تھا کہ انہیں اس بات کا پورا اعتماد ہے کہ وہ اس وقت کے دوران وفاقی اخراجات میں 1 ٹریلین ڈالر کی کمی کر سکیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

استعفی امریکا ایلون مسک ٹرمپ جعلی خبر فیک نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: استعفی امریکا ایلون مسک جعلی خبر فیک نیوز وفاقی اخراجات میں ایلون مسک جعلی خبر تھا کہ کہ مسک کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی باکسر عثمان وزیر نے بھارتی حریف کو پہلے راؤنڈ میں شکست دیدی
  • بھارت نے اپنے اقدامات سے پاکستان کو تحریری آگاہ کر دیا
  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • امریکی محکمہ خارجہ کا اپنے 100 سے زائد دفاتر کو بند کرنے کا اعلان
  • دلہن کو اپنے جہیز، تحائف پر مالکانہ حقوق حاصل ہیں، سپریم کورٹ
  • فنڈنگ روکنے پر ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کر دیا