جدید ٹیکنالوجی سے ادویات و علاج کی سہولت عوام کی دہلیز پر پہنچائیں گے،صحت کے شعبے میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، وفاقی وزیر سید مصطفیٰ کمال
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اپریل2025ء) وفاقی وزیر برائے صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے ادویات اور علاج کی سہولت عوام کی دہلیز پر پہنچائیں گے،صحت کے شعبے میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پمز کے دورے کے موقعے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ وزارت صحت میرے لئے پھولوں کی سیج نہیں ، صحت کے شعبے میں کوتاہی برداشت نہیں کریں گے کیونکہ اس شعبے میں غلطی کا ازالہ ممکن نہیں ۔
ا ن کا کہنا تھا کہ پمز میں جاری منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے،ہم نے ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو ایک چیلنج کی طرح نبھایا ،جدید ٹیکنالوجی سے ادویات اور علاج کی سہولیات عوام کو ان کی دہلیز پر پہنچائیں گے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ میں عملی اقدامات پر یقین رکھتا ہوں،صحت کے شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، آنے والے دنوں میں اس شعبے میں مثبت تبدیلیاں نظر آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جدت طرازی اور مثبت اصلاحات متعارف ،بنیادی صحت کے مراکز کو جدید اور مکمل انداز میں فعال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹیلی میڈیسن کی طرف جانا ہے،ایک مریض ایک آئی ڈی کے نظام کو متعارف کرانے کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی لوگوں کے سامنے ہے ، تئیس سال پہلے ایم پی اے اور بیس سال پہلے میئر کراچی بنا۔ ان کا کہنا تھا کہ صحت کا محکمہ سب سے زیادہ خطرناک ہے، روڈز کے محکمے میں روڈ دوبارہ بن جائے گی، تعلیم ریکور ہو سکتی ہے،غلطی کا ازالہ ہر جگہ ہو سکتا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ صحت کا شعبہ اللہ کی مخلوق سے منسلک ہے، انسان جب تکلیف میں ہوتا ہے تو ہسپتال کی طرف آتا ہے، غریب سرکاری ہسپتال میں آتا ہے، امیر پرائیویٹ ہسپتال جا سکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ شعبہ صحت اللہ کی مخلوق سے منسلک ہے ،ہم نے یہاں لوگوں کی بددعائیں نہیں لینی ، یہ امتحان ہے جس سے کامیابی سے گزرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید دنیا کو سامنے رکھ کر ٹیلی میڈیسن پر جانا چاہیے، بنیادی مرکز صحت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بڑے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد گھر کی دہلیز پر دوا اور ڈاکٹر مہیا کرنا ہے، 2.1 ارب روپے کی لاگت سے سات آپریشن تھیڑ بنائے گئے ہیں ،ایسے جدید آپریشن تھیٹرز میں سٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات فراہم کی جائیں گی،چیزیں آئیڈیل نہیں لیکن بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ صحت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر دینے کا منصوبہ زیر غور نہیں، ہیلتھ کارڈ پر آنے والے دنوں پر کام کریں گے۔\932
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ کی دہلیز پر صحت کے شعبے
پڑھیں:
پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
دنیا ایک بار پھر ایک مہلک بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار، جو اب اپنی نئی شکل میں انتہائی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق، ’سیلمونیلا ٹائیفی‘ نامی بیکٹیریا جو ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے، اب کئی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے، جن میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ’آخری حل‘ سمجھی جاتی تھیں۔
جدید تحقیق کی سنگین وارننگ
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جو اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا سے، انہیں ’ایکسٹینسِولی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر‘ یعنی انتہائی مزاحم اقسام قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام ’فلوئوروکوئنولونز‘ اور تیسری نسل کی ’سیفالوسپورِنز‘ جیسی جدید اور طاقتور ادویات کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت دکھا رہی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیسن اینڈریوز کا کہنا ہے، ’جس رفتار سے یہ مزاحم اقسام سامنے آ رہی ہیں اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ان بیماریوں سے متاثرہ ممالک میں روک تھام کے اقدامات کو وسعت دی جائے۔
بیماری کا عالمی پھیلاؤ
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1990 سے اب تک ٹائیفائیڈ کی یہ مزاحم اقسام تقریباً 200 بار مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں اس بیماری کی ایک سپر ریزسٹنٹ قسم دریافت ہوئی، جو چند سالوں میں ملک میں سب سے زیادہ عام قسم بن چکی ہے۔
علاج میں مشکلات اور ممکنہ بحران
عالمی سطح پر ہر سال ٹائیفائیڈ بخار کے ایک کروڑ 10 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 1 لاکھ افراد اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ بیماری ہر پانچ میں سے ایک مریض کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ مزاحم اقسام عام ہو رہی ہیں، علاج مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو رہا ہے۔
ویکسین کی ضرورت اور رسائی کا بحران
اگرچہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، لوگوں کو ان ویکسینز تک رسائی حاصل نہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے صحت کے بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔
حفاظتی تدابیر اور عوامی شعور کی ضرورت
ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:
صاف پانی اور حفظانِ صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے، خاص طور پر خطرے سے دوچار علاقوں میں۔
اینٹی بایوٹکس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال بند کیا جائے تاکہ مزید مزاحمت نہ بڑھے۔
عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ ابتدائی علامات پر بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار کی نئی، خطرناک اقسام ہمارے عالمی صحت کے نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں، طبی ادارے اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں، وگرنہ صدیوں پرانی بیماری ایک بار پھر انسانیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔