سرور کائنات، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے دوستوں کی دل جوئی کا خیال رکھتے تھے، غزوہ حنین کے بعد جب مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں انصار میں سے بعض نوجوانوں کو شکوہ پیدا ہُوا تو آپؐ نے ان کو الگ جمع کیا اور ایسا اثر انگیز خطبہ دیا کہ ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔
آپؐ نے اس موقع پر جہاں انصار مدینہ پر اسلام کے احسانات کا ذکر فرمایا، وہیں انصار کے احسانات کا بھی کھلے دل سے اعتراف فرمایا اور آخر میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم نبی (ﷺ) کو اپنے کجاوہ میں لے کر جاؤ۔۔۔؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی میں پیدا ہُوا ہوتا، اگر لوگ ایک وادی میں چلیں تو میں اس وادی میں چلوں گا، جس میں انصار چلیں، میرے لیے انصار کی حیثیت اس لباس کی سی ہے، جو اوپر سے پہنا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری)
نبی کریم ﷺ ا پنے صحابہ کرامؓ کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتے۔ ایک صحابیؓ کی کھجوروں کی فصل خراب ہوگئی اور ان پر بہت سارا قرض ہوگیا۔ آپؐ نے اپنے رفقاء سے فرمایا: ’’ان کی مدد کرو۔‘‘ لوگوں نے مدد کی لیکن قرض ادا نہیں ہو پایا۔ آپؐ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا: ’’جو موجود ہو، وہ لے لو ، اور تم کو صرف اسی کا حق حاصل ہے۔‘‘ (مسلم)
حضور اکرم ﷺ کے رفقاء میں سے کسی کو تکلیف دہ بات پیش آئی تو ان کی تسلی اور دل جوئی کا پورا اہتمام فرماتے۔ ایک صاحب اپنے چھوٹے بچے کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہُوا کرتے تھے۔ اس بچے کو آپؐ اپنے سامنے بٹھا لیا کرتے، بچے کا انتقال ہوگیا، اس صدمے سے ان کے والد حاضر نہ ہوسکے۔
آپؐ کو معلوم نہیں تھا، ان کے بارے میں دریافت کیا، بتایا گیا کہ ان کے صاحب زادے کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپؐ نے ان سے ملاقات کی، ان کے بچے کے بارے میں دریافت فرمایا اور تعزیت کی پھر آپؐ نے فرمایا: ’’تمہیں یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ وہ تمہارے ساتھ زندگی گزارتا، یا یہ بات کہ تم جنّت کے کسی دروازے پر آؤ اور تم دیکھو کہ وہ تم سے پہلے پہنچ چکا ہے اور تمہارے لیے دروازہ کھول رہا ہے۔؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: یہ دوسری بات مجھے زیادہ محبوب ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ چیز تم کو حاصل ہوگئی۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: یہ صرف ان کے لیے ہے یا سبھی کے لیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’سبھی کے لیے۔‘‘(نسائی، باب فی التعزیۃ)
نبی کریم ﷺ مشکل امور میں بھی صحابہؓ کے ساتھ شریک رہتے، غزوۂ خندق کے موقع پر سرد موسم تھا، صحابہؓ بھوکے پیاسے خندق کھودنے میں مشغول تھے اور تھک کر چُور ہوجاتے تھے، ایسے وقت آپؐ تشریف لاتے اور فرماتے، مفہوم: ’’اے اﷲ! عیش و آرام تو آخرت ہی کا عیش و آرام ہے۔ اس لیے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دیجیے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی) لوگ جواب میں کہتے: ہم نے آخری دم تک کے لیے جہاد پر (محمد ﷺ) سے بیعت کی ہے۔ (بخاری)
ایک مرتبہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تھے چناں چہ ایک بکرے کو ذبح کرنے کی بات طے پائی۔ ایک صحابیؓ نے کہا: اس کو ذبح کرنا میرے ذمے ہے۔ دوسرے نے کہا: اس کی کھال نکالنے کا کام میں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں اسے پکاؤ ں گا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: میں ایندھن کی لکڑیاں جمع کروں گا۔
صحابہؓ نے عرض کیا: آپؐ کا کام ہم کردیں گے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ میری طرف سے کفایت کردو گے، لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے مقابل میں امتیاز اور بڑائی اختیار کروں، اﷲ تعالی اپنے بندوں میں سے ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے ہیں، جو اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہوں۔ (کشف الخفاء) نبی کریم ﷺ اپنے رفقاء کے ساتھ اس طرح رہتے تھے کہ گویا آپؐ ان ہی میں سے ایک ہیں۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ انصار کے یہاں تشریف لے جاتے تھے، ان کے بچوں کو سلام کرتے تھے، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور انہیں دعائیں دیتے تھے۔ (بیہقی)
حضرت سہل بن حنیف ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ مسلمانوں میں سے مفلس لوگوں کے پاس تشریف لاتے تھے، ان سے ملاقات کرتے تھے، ان کے بیماروں کی عیادت فرماتے تھے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔ (مستدرک حاکم)
حضرت عبد اﷲ ابن ابی اوفیؓ نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کو بیواؤں اور مسکینوں کے لیے چلنے اور ان کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا تھا۔ (نسائی)
بہت سے لوگ جو دیہاتوں کے رہنے والے تھے، عام طور پر تہذیب ناآشنا ہوتے تھے لیکن آپؐ ان کی باتوں کو بھی خندہ پیشانی سے سہہ جاتے تھے۔ ایک موقع پر ایک دیہاتی نے اس زور سے چادر مبارک کھینچ دی کہ گردن مبارک پر نشان پڑگیا۔ آپؐ نے صرف اس قدر فرمایا کہ تم اسے بھلے طریقہ پر بھی تو کہہ سکتے تھے۔ (بخاری)
حضور اکرم ﷺ اپنے رفقاء کے ساتھ ناصرف مالی جہت سے حسن سلوک کرتے تھے بلکہ ان کو مشورے میں بھی شامل رکھتے تھے۔ حالاں کہ آپؐ کا ہر عمل وحی الٰہی پر مبنی ہوتا تھا اس لیے آپؐ کو مشورے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اپنے ساتھیوں کی دل جوئی اور مشورے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے آپ ﷺ مشورہ فرمایا کرتے تھے اور کثرت سے اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے: اے لوگو! مجھے مشورہ دو! (مسلم) چناں چہ غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھودنے کا فیصلہ حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے ہُوا بل کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ بعض اوقات اپنی رائے پر اپنے رفقاء کی رائے کو ترجیح دیتے تھے، جیسا کہ غزوۂ احد میں ہُوا۔ (سیرۃ ابن ہشام) حالاں کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ آپؐ ہی کی رائے درست تھی لیکن کبھی آپؐ نے ان ساتھیوں پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، جن کے مشورے پر عمل کیا گیا تھا اور جو بہ ظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان کا سبب ہوا۔
جہاں آپؐ اپنے رفقاء کی مادی ضرورتوں کا اور دل جوئی و حسن سلوک کا خیال رکھتے تھے، وہیں ان کی دینی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے، آپؐ نے ایک صاحب کو جلدی جلدی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، پوری توجہ سے ان کی نماز کا جائزہ لیا اور پھر ان کو اعتدال و میانہ روی کے ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی۔ (مسلم ، کتاب الصلوۃ)
ایک موقع پر اپنے رفقاء سے فرمایا: جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ، اسی طرح نماز پڑھا کرو۔
( بخاری، باب رحمۃ الناس و البھائم)
دینی تربیت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی تمام تر نرمی، رحم دلی، تواضع اور خوش اخلاقی کے باوجود احکام شریعت کے معاملے میں سختی سے کام لیتے تھے۔
آپ ﷺ حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بہت چاہتے تھے، عرب کے ایک معزز قبیلے کی ایک خاتون نے چوری کرلی تھی اور اس پر شرعی سزا جاری کرنے کا مسئلہ تھا، حضرت اسامہؓ نے اس کے حق میں سفارش کی، تو آپؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپؐ نے ناصرف ان کی تنبیہ کی بلکہ اس موقع سے خطبہ بھی ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’گزشتہ قومیں اسی بنیاد پر ہلاک کر دی گئیں کہ ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو لوگ انہیں چھوڑ دیتے اور کوئی معمولی آدمی چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کرتے، خدا کی قسم ! اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتیں تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔‘‘ (بخاری ، باب حدیث الغار)
نبی کریم ﷺ اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ اگر اپنے رفقاء کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہوجائے تو اسے دور فرما دیں۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بعض صحابہؓ کے درمیان مہاجرین و انصار کے درمیان اور انصار کے دو قبائل اوس و خزرج کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کی کام یاب کوشش کی اور میل ملاپ کے ماحول کو باقی رکھنے کا سبق دیا۔ اپنے احباب کے ساتھ حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ہر صحابیؓ کا دل آپؐ کی محبت سے لبریز ہوتا۔ رسول اﷲ ﷺ کی ذات والا صفات اپنے دوستوں، بے تکلف ساتھیوں، ہم عمر اور رفقائے کار کے ساتھ خوش گوار برتاؤ کی ایک بہترین مثال ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔
اﷲ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنے رفقاء نے فرمایا کے درمیان کرتے تھے انصار کے تھے اور کہ آپ ﷺ کے ساتھ اور ان کے لیے اور تم
پڑھیں:
ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
بیجنگ : بیجنگ انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں بارہویں بیجنگ شیانگ شان فورم کا آغاز ہوا۔ چینی وزیر دفاع ڈونگ جون نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور خطاب کیا۔جمعرات کے روزڈونگ جون نے کہا کہ تاریخ کو یاد رکھنے اور مستقبل کو مشترکہ طور پر تخلیق کرنے کے اس اہم لمحے میں، ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، تاریخ کے انصاف کی مضبوط حفاظت کرنی چاہیے اور وسیع تر مفاہمت کو یکجا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چینی فوج تمام فریقوں کے ساتھ مل کر خودمختاری کی برابری اور جنگ کے بعد کے عالمی نظم ونسق کی حفاظت کرنے، کثیرالجہتی کی حمایت کرنے، مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنے اور عالمی حکمرانی کے نظام کی اصلاح کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانے کے لئے تیار ہے۔
چینی وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں امن کی حفاظت کے درست راستے پر عمل کرنا چاہیے، امن کے نظریات کی وکالت کرنی چاہیے، امن کی بنیاد کو برقرار رکھنا چاہیے، امن اور دوستی کو ترقی دینی چاہیے، اور دنیا میں دیرپا امن کے لئے مثبت توانائی فراہم کرنی چاہیے۔موجودہ فورم کا موضوع “مشترکہ طور پر بین الاقوامی نظام کا تحفظ اور پرامن ترقی کو فروغ دینا” ہے۔ فورم میں 100 سے زائد ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں ،اسکالرز اور مبصرین سمیت 1800 سے زائد مہمان شرکت کر رہے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا اسرائیل نے غزہ سٹی میں زمینی کارروائیاں شروع کردیں ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد صیہونی جنگی جنون ختم نہ ہو سکا، یمن کے ساحلی شہر پر پھر بمباری اس سال چین-میانمار کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ ہے،چینی نائب صدرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم