ٹرمپ ٹیرف وار: کینیڈا نے امریکی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیرف لگادیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی نے کینیڈا سمیت دنیا کے ان تمام ممالک کو شدید ردعمل پر مجبور کردیا ہے جو امریکا سے دو طرفہ تجارت کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض ممالک نے امریکی ٹیرف کے جواب میں نسبتاً زیادہ سخت ٹیرف لگانے کا اعلان کردیا ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے چھیڑی گئی عالمی جنگ عالمی معیشت کو تباہ کردے گی۔ آئی ایم ایف نے بھی ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی کو عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیدیا۔ اور کہا کہ امریکا شرح نمو کے وقت عالمی معیشت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات سے گریز کرے۔
دوسری طرف یورپی یونین نے امریکی ٹیرف کو عالمی معیشت کے لیے بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے جوابی تیاریوں کا اعلان کردیا ہے۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ یورپ کے ساتھ مل کر ٹرمپ ٹیرف کا جواب دیں گے۔
چین نے کہا ہے کہ امریکا نیا ٹیرف منسوخ کرے۔ جاپانی وزیراعظم شیگرو ایشیبا کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا اقدام غیر منصفانہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے انٹارکٹیکا کے پینگوئنز بھی ٹرمپ ٹیرف متاثرین میں شامل
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں داخل ہونے والی تمام غیر ملکی مصنوعات پر کم از کم 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ جبکہ پاکستان پر29 فیصد عائد کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں خطاب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اتحادی 30 سال سے مراعات لے رہے ہیں۔امریکی مصنوعات پر ڈیوٹیز لگانے والوں کو اب جواب ملے گا۔ اب میں آپ کو بتادوں کہ وہ دن گنے جاچکے ہیں، درآمدات پرٹیرف لگے گا۔ جوابی ٹیرف کا نفاذ امریکا کے لیے اچھا ہوگا۔ امریکا تمام درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بیرون ملک گاڑیوں کی درآمد 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا چین پر 34 فیصد اور یورپی یونین پر 20 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کردیا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان ہم 58 فیصد ٹیرف وصول کرتا ہے۔ہم پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں ٹرمپ ٹیرف وار: عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گر گئیں
امریکی صدر نے بھارت پر 26 فیصد، بنگلہ دیش پر 37 فیصد، برطانیہ پر 10 فیصد، یورپ پر 20 فیصد، چین پر 34 فیصد، جاپان پر 24 فیصد، ویت نام پر 46 فیصد، تائیوان پر32 فیصد، جنوبی کوریا پر 25 فیصد، تھائی لینڈ پر 36 فیصد، سوئٹزر لینڈ پر31 فیصد، انڈونیشیا پر 32 فیصد، ملائشیا پر 24 فیصدکمبوڈیا پر 49 فیصد، جنوبی افریقہ پر 30 فیصد، برازیل اور سنگاپور پر 10 فیصد، اسرائیل اور فلپائن پر 17 فیصد، چلی اور آسٹریلیا پر 10 فیصد، ترکیہ پر 10 فیصد، سری لنکا پر 44 فیصد، کولمبیا پر 10 فیصد جوابی ٹیرف لگا دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹرمپ ٹیرف وار چین عالمی ردعمل کینیڈا یورپی یونین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹرمپ ٹیرف وار چین عالمی ردعمل کینیڈا یورپی یونین عالمی معیشت امریکی صدر ٹرمپ ٹیرف پر 10 فیصد کا اعلان کے لیے
پڑھیں:
فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-7
امیر محمد کلوڑ
فلم میں ننھا کیوین (Kevin) نیویارک کے ایک شاندار ہوٹل (Plaza Hotel) میں داخل ہوتا ہے وہ ایک شخص سے راستہ پوچھتا ہے وہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہوتا ہے، ٹرمپ فخریہ انداز میں گردن سیدھی رکھ کر، غرور سے مسکرا کر کہتا ہے: ’’Down the hall and to the left‘‘ یہ سین چند سیکنڈ کا ہے مگر اس میں ہی ٹرمپ کا غرور، خود اعتمادی اور طاقت کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ’’ریئل لائف پالیسی‘‘ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ سیاست میں بھی ’’ہوٹل پلازہ‘‘ والا رویہ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ نے برقرار رکھا، ہمیشہ خود کو مرکز ِ توجہ رکھا۔ جیسے فلم میں ہوٹل ان کا تھا، ویسے ہی صدر کے طور پر وہ اکثر ملک کو اپنی ذاتی سلطنت سمجھتے ہیں ان کے فیصلے اور انداز کچھ اس طرح کے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں: ’’یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے Home Alone 2 کے صرف چند سیکنڈز درحقیقت ان کی پوری شخصیت کا ٹریلر ہیں ایک خوداعتماد، خودپسند، طاقتور، اور ڈرامائی انسان۔ وہ چاہے بزنس ہو، ٹی وی ہو یا سیاست ہر جگہ وہ ہیرو اور اسٹیج کے مالک بن کر رہتے ہیں۔
آئیے ان کا موازنہ موجودہ دور میں کرتے ہیں یعنی ان کی سیاست (2025) میں بھی وہ ’’فلمی اسکرپٹ‘‘ والا انداز استعمال کر رہے ہیں؟ یعنی ان کی ریلیاں اور بیانات بھی کسی ’’شو‘‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے جلسے روایتی سیاست نہیں، بلکہ ڈرامائی تقریبات ہوتے ہیں۔ روشنیوں، موسیقی، اور بڑے بڑے اسکرینوں کے ساتھ وہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کی تقریریں پہلے سے طے شدہ ’’مکالموں‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ ہر جملے پر سامعین سے ’’ریہرسل شدہ‘‘ نعرے لگتے ہیں: ’’USA! USA! یا Build the wall‘‘ وہ اکثر ہاتھ کے اشارے، چہرے کے تاثرات، اور وقفوں کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے ایک اداکار سامعین کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ان کے جلسوں کو ’’Trump Show‘‘ کہتا ہے۔
حال ہی میں کولا لمپور ائرپورٹ پر ٹرمپ کو ملائیشین روایتی رقاص گروپ کے ساتھ دیکھا گیا جہاں انہوں نے ڈھول کی تھاپ پر ہلچل بھری حرکات کیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی، جہاں لوگوں نے اس کو ’’توانائی کا مظاہرہ‘‘ کہا تو کچھ نے اسے ’’ذاتی زیاد اعتماد (over confidence)‘‘ کا اظہار قرار دیا۔ ایک ملائیشیا نیوز پورٹل نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ رویہ ’’صدر کے وقار‘‘ کے مطابق نہیں تھا۔ یعنی وہ خود کو نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ پرفارمنر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ ہمیشہ میڈیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن (Villain) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: ’’Fake News Media!‘‘ ہر سوال کو ذاتی حملہ بنا کر ڈرامائی ردعمل دیتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج، لہجہ اور غصہ فلم کے سین جیسا لگتا ہے جس کا ٹریلر آپ نے وہائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے: (ٹرمپ میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ان کے لیے ’’پرفارم‘‘ کرتے ہیں۔) 2024-2025 میں ٹرمپ پر کئی مقدمات چلے، مگر انہوں نے ان سب کو سیاسی مظلومیت کے ڈرامے میں بدل دیا۔ ارمانی اور بربری کے کپڑے اور ایریزونا کے جوتے (اپنے برانڈ کے) ٹرمپ مارک کے گالف شوز اور ’’ٹرمپ سگنیچر‘‘ ان کا اپنا برانڈ کولون پرفیوم استعمال اور رولیکس اور پاٹیک فلپ گھڑیوں کے شوقین 79 سالہ ٹرمپ جنہوں نے تین شادیاں کیں جن سے ان کو پانچ بچے ہیں اور اس وقت صدر ٹرمپ ذاتی طور پر 2.5 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔
یہ تو ہوا اس کا فلمی کردار اور اب آتے ہیں کہ وہ کس طرح امریکا کو زوال کی جانب لے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’’America First‘‘ کا نعرہ دے کر کئی بین الاقوامی معاہدوں سے علٰیحدگی اختیار کی، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ، ایران نیوکلیئر ڈیل، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے فنڈز روکنا۔ اس سے امریکا کی ’’عالمی قیادت‘‘ والی ساکھ کمزور ہوئی، اور چین و یورپ نے خلا پْر کرنا شروع کیا۔ اور اس کے علاؤہ صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک سے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور ناٹو ممالک سے کہا کہ ’’زیادہ پیسہ دو ورنہ ہم دفاع نہیں کریں گے‘‘ اس سے اتحادی ممالک (جرمنی، فرانس وغیرہ) ناراض ہوئے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح چین پر بھی ٹیکس اور ٹیرف لگانے سے امریکی کمپنیوں کی لاگت بڑھی۔ کئی امریکی کسانوں اور صنعتوں کو نقصان ہوا۔ ان کی سیاست نے ملک کو اندرونی طور پر بھی نقصان پہچایا اور نسلی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ منقسم کیا۔
’’کیپٹل ہل حملہ (2021)‘‘ کو بہت سے سیاسی ماہرین ’’جمہوری اداروں پر حملہ‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اس وقت انتہائی منقسم ہے۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان شہری اور دیہی علاقوں میں سفید فام اور غیر سفید فام آبادی کے درمیان۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا میں کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے مفادات کے خلاف گئی تو وہ ’’الگ ملک‘‘ بننے کی مہم شروع کریں گے۔ سول نافرمانی اور تشدد کے ایک تازہ سروے میں تقریباً 58 فی صد امریکیوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ’’کسی نہ کسی درجے کی خانہ جنگی‘‘ ہو سکتی ہے۔ لیکن ماہرین جیسے Prof. Francis Fukuyama اور Thomas Friedman کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا اداروں کا ملک ہے۔ اتنی آسانی سے ٹوٹ نہیں سکتا، مگر اندرونی کمزوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے‘‘۔ دنیا کے مؤقر جریدوں نے ان حالات پر مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں۔
دی اکنامسٹ (2025)؛ ٹرمپ کا دور ’’جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا امتحان‘‘ ہے، مگر ٹوٹنے کا امکان نہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن؛ ’’اگر ادارے (عدلیہ، کانگریس، میڈیا) اپنی آزادی برقرار رکھیں، تو امریکا متحد رہے گا۔ ’’الجزیرہ انگلش‘‘ امریکا میں سماجی بگاڑ بڑھ رہا ہے، مگر ملک کے ٹوٹنے سے زیادہ خانہ جنگی جیسے تنازعات کا خطرہ ہے‘‘۔