قبل از وقت بچے کی پیدائش: وجائنا بیمار ہے!
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
بچے کی تھیلی 7ویں مہینے میں پھٹ گئی!
بچہ 8ویں مہینے میں پیدا ہونے کے بعد 2 دن بعد چل بسا !
ساڑھے 6 مہینے کا بچہ ہے اور بچے دانی کا منہ کھل گیا ہے، کیا کریں ؟
32 ہفتے کا بچہ پیدا ہوا مگر بچ نہ سکا !
ایسے بہت سے ایسے سوالات اکثر ہم سے پوچھے جاتے ہیں۔ تشویش کے ساتھ ساتھ وجہ جاننے پر بھی اصرار ہوتا ہے۔ اگر چہ زیادہ تر لوگ ڈاکٹر کے زیر علاج ہوتے ہیں مگر کسی ایک کے پاس بھی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔
وقت سے پہلے درد زہ شروع ہونے کی یا بچے کی تھیلی وقت سے پہلے پھٹنے کی زیادہ تر کیسسز میں وجہ وجائنا کی کمزور صحت ہے۔
جی ٹھیک سنا آپ نے۔ ۔ ۔ وجائنا جسے عرف عام میں شرمگاہ کہا جاتا ہے گو ہم اس سے متفق نہیں کہ اسی شرمگاہ سے ہی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تھیلی وقت سے پہلے کیوں پھٹ گئی؟
خالق نے انسانی جسم میں بہت سے سوراخ بنائے ہیں جو اندرونی جسم کو بیرونی دنیا سے ملاتے ہیں۔ آنکھیں، ناک، کان، منہ، وجائنا، یورتھرا اور مقعد۔ ان سب سوراخوں میں ایسے بے شمار پہریدار بٹھائے گئے ہیں جو جراثیموں کی فوج کو اندرونی جسم میں داخل نہیں ہونے دیتے۔
مثال کے طور پر آنکھوں کے آنسو، کان میں پائی جانے والی ویکس، ناک کے بال، منہ کا لعاب یا تھوک ، یورتھرا اور مقعد کے تنگ پیچ ان سب اعضا کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں جراثیموں سے بچاتے ہوئے انفکشن سے روکتے ہیں۔ آشوب چشم تب ہوتا ہے جب حملہ شدید ہو اور آنکھ کمزور پڑ جائے، زکام تب ہوتا ہے جب ناک کے بال اور پانی وائرس اور بیکٹریا کو نہ روک سکیں، کان سے پیپ تب بہتا ہے جب کان کی ویکس کمزور پڑ جائے۔ پیشاب میں انفیکشن تب ہوتا ہے جب یورتھرا ڈھیلا پڑ جائے اور جراثیم مثانے میں داخل ہو جائیں اور مقعد میں پھوڑا بننے کی بھی یہی وجہ ہے۔
وجائنا کا مسئلہ کچھ گمبھیر ہے۔
1 -وجائنا کسی پیچ وغیرہ سے بند نہیں۔
2- اس میں کوئی ویکس وغیرہ نہیں پیدا ہوتی۔
3- وجائنا پیشاب پاخانے والی جگہ سے بہت نزدیک ہے سو ہر وقت جراثیم کے شدید حملے کا خطرہ رہتا ہے۔
4- وجائنا کے راستے رحم سے ماہواری کا خروج ہوتا ہے سو اس وقت بھی جراثیم حملہ کرتے ہیں۔
5- وجائنا میں جماع کے دوران بہت سے جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔
آتشک اور سوزاک کا نام آپ نے شہر کی سڑکوں کے کنارے لگے اشتہاروں میں پڑھا ہی ہوگا جہاں حکیم صاحب یہ دعوت دے رہے ہوتے ہیں کہ آتشک اور سوزاک کے شافی علاج کے لیے مطب تشریف لائیے، جملہ امور راز میں رکھیں جائیں گے۔
لیکن آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہ آتشک اور سوزاک ہیں کیا؟
صاحب یہ وہ بیماریاں ہیں جو بیویوں کو شوہر حضرات سے تحفے میں ملتی ہیں اور انہیں STD ( sexually transmitted diseases)
کہا جاتا ہے۔ ان بیماریوں کی وجہ بننے والے جراثیم وجائنا میں نہ صرف بدبو دار گاڑھی رطوبتیں، خارش اور بدبو کی وجہ بنتے ہیں بلکہ اسقاط حمل، وقت سے پہلے زچگی اور پانی کی تھیلی کا پھٹ جانا بھی ان ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وجائنا کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟
ایسا ہے کہ خالق نے اچھے بیکٹریا کی صورت میں ایسے پہرے دار بنائے تو ہیں جو اپنی جان دے کر وجائنا کی حفاظت کرتے ہیں مگر بہت سی کنڈیشنز ایسی ہوتی ہیں جن میں ان کی تعداد کم رہ جاتی ہے اور نقصان پہنچانے والے بیکٹریا زیادہ ہو جاتے ہیں، یعنی وجائنا بیمار ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال کو بیکٹریل وجینوسس BV کہتے ہیں۔
حمل، خون کی کمی، اسقاط حمل، حفظان صحت کی کمی، پیڈز کا ناکافی استعمال، ناکافی غذا اور ایسے بہت سے عوامل ہیں جو وجائنا کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔
مزید پڑھیے: امریکی ویزا، ایڈولسینس اور 14سالہ پاکستانی امریکن ٹک ٹاکر لڑکی کا قتل!
خاتون اگر موٹاپے اور ذیابیطس کی شکار ہوں تب بھی وجائنا اپنی صحت کھو دیتی ہیں۔ ان دونوں کیفیات میں فنگس وجائنا میں گھر بنا لیتا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا۔ یہ وہی فنگس ہے جو منہ میں بھی نظر آتا ہے جب کسی کی صحت کمزور ہو۔
ہمارے یہاں وجائنا کا معائنہ کرکے اندر پائی جانے والی رطوبتوں کی پہچان اور اس کے مطابق علاج تجویز کرنے کا رواج کچھ کم ہی ہے۔ عرف عام میں لوگ ایک ہی لفظ جانتے ہیں اور وہ ہے لیکوریا۔
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ لیکوریا بذات خود کوئی بیماری نہیں۔ وجائنا میں کچھ نہ کچھ رطوبتیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں جیسے آنکھ میں آنسو اور کان میں ویکس یا منہ میں تھوک۔
یہ رطوبتیں ابنارمل تب سمجھی جاتی ہیں جب ان میں انفیکشن پیدا ہو جائے اور بد بو آنے لگے، وجائنا میں خارش شروع ہو جائے یا رطوبتوں کا رنگ پیلا، سبز یا دہی کی پھٹکیوں جیسا ہو جائے۔
مزید پڑھیں: نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!
مارکیٹ میں ایسے بہت سے کیمیکلز موجود ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وجائنا میں انہیں ڈال کر دھونا چاہیے۔ اس عمل کو Douching کہتے ہیں۔ ہم اس کے حق میں نہیں۔ وجائنا کی کیمیکلز سے اندرونی صفائی بھی وجائنا کو مزید کمزور کرتی ہے کہ قدرت کا بنایا ہوا دفاعی نظام گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔
کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں محض ناک کے انفیکشن سے پالا پڑا ہے اور وہ بھی شاید اس لیے کہ ہماری ناک بہت اونچی ہے۔ بات کا دوسرا حصہ تو تفنن طبع کے لیے کہا گیا ہے مگر بات کا پہلا حصہ بالکل سچ ہے۔
کیا کرنا چاہیے؟
باقی آئندہ پڑھیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سوزاک قبل از وقت پیدائش لیکوریا وقت سے پہلے وجائنا کی کرتے ہیں ہوتا ہے پیدا ہو ہیں کہ کی وجہ بہت سے ہے اور بچے کی سے بہت ہیں جو
پڑھیں:
تجدید وتجدّْد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
3
مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔
تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)
آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔
غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔
(جاری)