سول ایوارڈز تنقید کا نشانہ کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
ہر سال کی طرح اس سال بھی 23 مارچ کو سول ایوارڈز کی تقریب ایوان صدر اسلام آباد میں ہوئی۔ مجھے بھی اس تقریب کے دوران ’’تمغہ امتیاز‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ پاکستان میں سول ایوارڈز کی نامزدگی ایک ایسا عمل ہے جس پر ہر سال بحث اور تنقید قومی روایت کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ روایت اصولی طور پر ایک اچھا عمل ہے۔ ہر سال ان ایوارڈز کے حوالے سے ایک بات تواتر سے کہی جاتی ہے کہ ایوارڈ کے لیے نامزدگی اور اسے تفویض کرنے کے عمل میں پوری طرح شفافیت اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے ہیں۔ ہر حکومت اپنے چاہنے والوں کو اس اعزاز سے نوازتی ہے۔ اگر ہم ایوارڈز کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کریں تو یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت اپنے چاہنے والوں کو بھی ایوارڈ دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے افراد کو بھی اس اعزاز سے نوازا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی خدمت کے لیے یقینی اعتبار سے بہت کچھ کیا ہوتا ہے۔
یہ بات کہ ان میں کون لوگ ایسے ہیں جن کو حکومت کی حاشیہ برداری کی وجہ سے ایوارڈ دیا گیا ہے اور کون ایسے ہیں جنھیں میرٹ پر ایوارڈ دیا گیا ہے ، یہ ایک تحقیق طلب امر ہے لیکن پھر بھی بادی النظر میں اس بات کا تعین کرنا مشکل نہیں کہ کن لوگوں کو اہلیت کی بنیاد پر ایوارڈ دیے گئے ہیں اور کون ایسے ہیں جنھیں ’’سرکاری سچ‘‘ کو پھیلانے اور حکومتی مخالفین کو زیر کرنے کے عمل پر اس اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے پاکستان میں سول ایوارڈز کا نظام باضابطہ طور پر 19 مارچ 1957 کو ’’ڈیکوریشنز ایکٹ1957‘‘ کے ذریعے متعارف کروایا گیا۔ تاہم، اس کا موجودہ ڈھانچہ 1975 میں ’’پاکستان سول ایوارڈز رولز‘‘ کے تحت منظم کیا گیا۔ ان ایوارڈز کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا جو کارکردگی اور خدمات کے مطابق دیے جاتے ہیں۔ مختلف کیٹیگریز کہ ایوارڈز کہ ٹائٹل اس طرح ہیں، ’’پاکستان‘‘، ’’امتیاز‘‘، ’’قائد اعظم‘‘، ’’شجاعت‘‘، ’’خدمت‘‘۔ ہر کیٹیگری کے لیے شْعبے یا field کا عمْومی تعیّن کچھ یوں ہے، مثلاً ’’پاکستان‘‘ کیٹیگری کے ایوارڈ مملکت پاکستان کے لیے نمایاں خدمات پر، ’’امتیاز‘‘ کے ایوارڈ قومی زندگی کے کسی بھی شْعبے (مثلاً ادب، شاعری، صحافت، تعلیم و تدریس، سیاست، سائنس، ٹیکنالوجی، فنون لطیفہ، معاشی سرگرمیوں، کھیلوں) میں نمایاں کارکردگی پر، ’’قائد اعظم‘‘ عوامی خدمت (مثلاً پولیس وغیرہ) پر۔
’’شجاعت‘‘ غیر فوجی کاموں میں بہادری (مثلاً اپنی جان پر کھیل کر حادثے کے شکار لوگوں کو بچانے) پر۔ ’’خدمت‘‘ سماجی خدمات یا سوشل سروس پر دیا جاتا ہے۔
ہر کیٹیگری میں اعلٰی ترین ایوارڈ ’’نشان‘‘ ہے۔ مجموعی طور پہ ’’نشانِ پاکستان‘‘ اعلٰی ترین سول ایوارڈ ہے۔ یہ اعزاز غیر ملکی شخصیات یا پاکستان کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دینے والے افراد کو دیا جاتا ہے۔ ہلالِ پاکستان-مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ ستارہِ پاکستان- نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔تمغہ پاکستان- امتیازی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ آرڈر آف ایکسیلنس (نشان، ہلال، ستارہ، تمغہ)ستارہِ امتیاز اورتمغہِ امتیاز، نمایاں خدمات کے لیے دیا جانے والا ایوارڈ۔ نشانِ شجاعت، سولینز کے لیے سب سے اعلیٰ بہادری کا ایوارڈ ہے۔
نشانِ خدمت- غیر معمولی عوامی خدمات کے لیے دیا جاتا ہے۔ ہلالِ خدمت،ستارہِ خدمت۔ تمغہِ خدمت‘صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی یعنی ’’Pride of Performance‘‘ ایک الگ اعزاز ہے جو فنکاروں، ادیبوں اور دیگر نمایاں شخصیات کو دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ خصوصی ایوارڈز بھی ہیں، وہ یہ ہیں۔ تمغہِ قائدِاعظم، قومی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ تمغہِ قائدِاعظم (بعد از وفات) نمایاں خدمات پر بعد از وفات دیا جانے والا اعزاز۔ ستارہِ قائدِاعظم، عوامی خدمت کے شعبے میں دیا جاتا ہے۔ ماضی میں جن نامور شخصیات کو پاکستان کے سول ایوارڈز سے نوازا گیا ہے ان میں نمایاں نام یہ ہیں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان (سائنس و ٹیکنالوجی)عبد الستار ایدھی (سماجی خدمات)ملالہ یوسف زئی (تعلیم و انسانی حقوق) علامہ محمد اقبال (بعد از وفات) (ادب و فلسفہ)فیض احمد فیض (ادب و شاعری)۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نشان پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا۔ پاکستان کے سول ایوارڈز ان افراد کے لیے قومی سطح پر پہچان اور عزت کا نشان ہیں جو اپنے شعبوں میں اعلیٰ خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ اعزازات ان شاندار کارکردگی کو تسلیم کرنے اور سراہنے کے لیے دیے جاتے ہیں جو پاکستان کی تعمیر و ترقی اور وطن کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نمایاں خدمات سول ایوارڈز دیا جاتا ہے پاکستان کے سول ایوارڈ خدمات کے سے نوازا گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
پی ڈی پی کی خاتون لیڈر نے کہا کہ بھارت کی واحد اور سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر ہم کشمیریوں کو عبادت کا حق حاصل ہے، بنیادی ڈھانچے سے زیادہ ہمیں عزت اور جان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی حکام نے آج تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز عید ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکام نے مسجد کے دروازے بند کر دئے گئے اور باہر پولیس اہلکار تعینات کر دئے گئے۔ میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا "افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج نہ عیدگاہ میں نماز کی اجازت ملی اور نہ ہی جامع مسجد کھولی گئی، یہ مسلسل ساتواں سال ہے کہ مجھے بھی میرے گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ درایں اثنا درگاہ حضرت بل سرینگر میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی کے خاتون لیڈر التجا مفتی نے جامع مسجد میں نماز عید کی ادائیگی پر پابندی اور میرواعظ عمر فاروق کو گھر میں نظربند کرنے پر حکومت پر کڑی تنقید کی۔محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہم نے فلسطین کے لوگوں کی بھلائی کے لئے دعا کی، ہم دعا کرتے ہیں کہ فلسطین جلد اسرائیل کے مظالم سے آزاد ہو"۔
اس دوران التجا مفتی نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت نے اس مقدس دن میں جامع مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور میر واعظ عمر فاروق کو نظربند کر دیا گیا۔ التجا مفتی نے کہا "میں ریاستی حکومت کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہوں جو صرف سب کچھ دیکھ رہی ہے اور کچھ نہیں کر رہی"۔ پی ڈی پی کی خاتون لیڈر التجا مفتی نے کہا "میں نیشنل کانفرنس کی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب آپ سب کچھ نارمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو میرواعظ کو ابھی تک نظر بند کیوں رکھا گیا ہے"۔ التجا مفتی نے مزید کہا کہ "بھارت کی واحد اور سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر ہم کشمیریوں کو عبادت کا حق حاصل ہے، بنیادی ڈھانچے سے زیادہ ہمیں عزت اور جان کی حفاظت کی ضرورت ہے"۔