UrduPoint:
2025-11-03@14:49:56 GMT

امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے ہی پارٹنر ممالک پر جوابی نوعیت کے بڑے محصولات کا اعلان کیا، جسے انہوں نے ایک نئے ''سنہری دور‘‘ کی شروعات قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی بدولت صنعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے کی ملازمتیں بڑی تعداد میں امریکہ واپس آئیں گی۔

یہ اقدام آزادتجارت اور عالمی تجارتی نظام سے ایک حیران کن انحراف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

عشروں پر محیط ان اصولوں سے رو گردانی دراصل دیگر ممالک کو بھی مجبور کر سکتی ہے کہ وہ بھی جوابی اقدامات کریں۔ یوں نہ صرف عالمی سطح پر تجارتی رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں بلکہ ٹریڈ پروٹیکشن ازم (تحفظ پسند تجارتی اقدامات) کے ایک نئے دور کا آغاز ممکن ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ کی طرف سے چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ویتنام جیسے ایشیائی ممالک پر سب سے زیادہ سخت محصولات عائد کیے جا رہے ہیں۔

کیا مکمل تجارتی جنگ شروع ہو سکتی ہے؟

صدر ٹرمپ نے چین سے درآمدات پر پہلے سے موجود 20 فیصد محصولات کے علاوہ 34 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نو اپریل سے جب یہ نئے قوانین نافذ العمل ہوں گے تو چین پر مجموعی ٹیکس کی شرح 54 فیصد ہو جائے گی۔

یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان 582.

4 ارب ڈالر کے دو طرفہ تجارتی تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

سن 2024 میں امریکہ نے چین کو 143.5 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں جبکہ چین سے 438.9 ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔

بیجنگ نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور جوابی اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ ''جیسے کو تیسا‘‘ طرز کی پالیسی سے دنیا کی دو بڑی معیشتیں گہری تجارتی جنگ میں الجھ سکتی ہیں۔ یوں عالمی سپلائی چین متاثر ہو سکتی ہے۔

چین کی یورپی یونین سے تعاون کی اپیل

چین کے یورپی یونین کے لیے چیمبر آف کامرس کے سیکریٹری جنرل فنگ ڈونگ کوئی نے کہا،''ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محصولات تجارتی تحفظ پسندی کو جنم دے سکتے ہیں اور عالمی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے امریکہ اور اس کے تجارتی شراکت داروں پر زور دیا کہ اختلافات مذاکرات سے حل کریں نہ کہ محاذ آرائی سے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین اور یورپی یونین کو کثیر الجہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے تعاون کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔

جاپان کا ردعمل: مایوسی لیکن احتیاط

صدر ٹرمپ نے جاپان پر 24 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا ہے حالانکہ جاپان کی جانب سے سفارتی کوششیں کی گئی تھیں کہ اسے محصولات سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ ٹرمپ نے جاپان پر یہ الزام بھی عائد کہ کہ ٹوکیو حکومت نے امریکی چاول کی جاپان امپورٹ پر 700 فیصد ٹیکس عائد کیا ہے۔

تاہم جاپان کے وزیر زراعت تاکو ایٹو نے ان اعداوشمار کو ''غیر منطقی‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

جاپان کے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ امریکی فیصلے سے ''انتہائی مایوس‘‘ ہوئے ہیں اور وہ ملکی صنعت کی ترقی کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔

رواں ہفتے ہی جاپانی گاڑیوں کی امریکہ درآمد پر 25 فیصد ٹیکس بھی لاگو ہو گیا ہے۔

اس وجہ سے جاپانی آٹو صنعت میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ صنعت ملکی جی ڈی پی کا تقریباً تین فیصد ہے اور آٹھ فیصد ملازمتیں بلاواسطیہ یا بالواسطہ اسی صنعت سے جڑی ہوئی ہیں۔ تاہم جاپان کی حکومت نے بدلہ لینے کے بجائے محتاط رویہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ ’ٹیرف کنگ‘ بھارت پر اثرات

ٹرمپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ''اچھا دوست‘‘ قرار دیا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بھارت ''ہم سے اچھا سلوک نہیں کر رہا۔

‘‘ انہوں نے بھارت کو''ٹیرف کنگ‘‘ اور ''تجارتی نظام کا غلط فائدہ اٹھانے والا‘‘ ملک قرار دیا ہے۔

اب امریکہ بھارت سے درآمدات پر 27 فیصد محصولات عائد کر رہا ہے، جو نو اپریل سے نافذ ہوں گے۔

2024ء میں دونوں ممالک کے درمیان 129.2 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوئی، جس میں بھارت نے 87 ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ کو برآمد کیں اور 41.8 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں، یعنی بھارت کو 45.7 ارب ڈالر کا تجارتی فائدہ حاصل ہوا۔

بھارت نے کہا ہے کہ وہ ان محصولات کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور تجارتی معاہدے کے لیے بات چیت جاری رکھے گا۔

جنوب مشرقی ایشیا کی 'چائنہ پلس ون‘ حکمت عملی خطرے میں؟

جنوب مشرقی ایشیا کے چھ ممالک پر بھی صدر ٹرمپ نے 32 سے 49 فیصد تک کے محصولات عائد کیے ہیں۔ ویتنام، تھائی لینڈ جیسے ممالک نے پچھلے کچھ سالوں میں امریکی مارکیٹ کے لیے بڑی برآمدی معیشتیں قائم کی ہیں۔

ویتنام نے گزشتہ سال امریکہ کو 142 ارب ڈالر کی برآمدات کیں، جو اس کی مجموعی معیشت کا 30 فیصد بنتی ہیں۔ اب امریکہ نے اس پر 46 فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔

ویتنامی وزیراعظم نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے ''ریپڈ ریسپانس ٹیم‘‘ بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ نائب وزیراعظم اگلے ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔

مذاکرات کو ترجیح دی جائے

انڈونیشیا پر بھی 32 فیصد ٹیکس عائد ہوا ہے، جس سے ماہرین کو معاشی بحران کا خدشہ ہو چلا ہے۔

سنگاپور پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ادھر کمبوڈیا نے 49 فیصد امریکی ٹیکس کو ''غیر معقول‘‘ قرار دے دیا ہے۔

تائیوان نے بھی نئے امریکی محصولات کو غیر منصفانہ قرار دیا ہےِ۔ تاہم یہ ٹیکس سیمی کنڈکٹرز پر لاگو نہیں ہو گا۔

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک عمومی طور پر جوابی کارروائی کے بجائے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔

تھائی وزیراعظم نے کہا، ''ہمیں مذاکرات کرنا ہیں، تفصیل میں جانا ہو گا۔ ہم اپنی جی ڈی پی کا ہدف نہیں گنوا سکتے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

اس رپورٹ کی تیاری میں ڈی ڈبلیو چائنیز سے کوئی مو، نئی دہلی سے مرلی کرشنن، ٹوکیو سے جولیئن رائل، ڈی ڈبلیو انڈونیشیا سے یوسف پامنچک اور ڈیوڈ ہٹ نے تعاون فراہم کیا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ارب ڈالر کی ٹیکس عائد فیصد ٹیکس انہوں نے قرار دیا کے لیے کیا ہے دیا ہے

پڑھیں:

اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ

وفاقی حکومت نے ٹیکس نیٹ کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے تحت نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور محصولات میں اضافے کیلئے نئے اقدامات تجویز کیے ہیں جو جلد نافذالعمل ہوسکتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق نان فائلرز سے بینک سے نقد رقم نکلوانے پر ٹیکس کی شرح 0.8 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس مجوزہ اقدام سے حکومت کو سالانہ تقریباً 30 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل ہونے کی توقع ہے، تاہم اس سے لاکھوں نان فائلرز کو ہر اے ٹی ایم یا بینک ٹرانزیکشن پر دوگنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جس سے عام شہریوں کی جیب پر اضافی بوجھ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز حکومت کے ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کیلئے پیش کی گئی ہیں، کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر اپنے محصولات کے ہدف سے پیچھے رہا۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہدف 3083 ارب روپے تھا، تاہم ایف بی آر صرف 2885 ارب روپے جمع کر سکا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نان فائلرز کے بینک سے رقوم نکلوانے پر ٹیکس کٹوتی میں اضافہ کیا گیا، یومیہ 50 ہزار سے زائد رقم نکلوانے پرٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کیا گیا، اس سے پہلے یومیہ 50 ہزار سےزائد رقم نکلوانے پر0.6 فیصد ٹیکس عائد تھا۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف بھی مان گیا کہ پاکستان میں معاشی استحکام آ گیا ہے، وزیرخزانہ
  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم، یو اے ای اور سنگاپور سرفہرست
  • افغانستان، پاکستان اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک زلزلے سے لرز اٹھے
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • لاٹری ٹکٹ گھر بھولنے والے امریکی شہری نے 5 لاکھ ڈالر کیسے جیت لیے؟