تالی بجانے پر مخصوص آواز کیوں پیدا ہوتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
جب آپ تالی بجاتے ہیں تو کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آخر اسکیوجہ سے مخصوص آواز کیوں پیدا ہوتی ہے؟
جب آپ اپنے ہاتھوں کو رفتار سے ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے ہیں تو بہت سے عوامل فوری طور پر اس میں کارفرما ہوتے ہیں:
1) ہاتھوں کا ٹکراؤ
تالی میں ہاتھ ایک دوسرے کو طاقت سے مارتے ہیں جس کیوجہ سے ان کے درمیان ہوا پر دباؤ بنتا ہے۔
یہ عمل ایک شدید دباؤ کی لہر پیدا کرتا ہے، بنیادی طور پر ایک چھوٹی شاک ویو، جو ہوا کے ذریعے سفر کرتی ہے۔
2) ہوا پر دباؤ اور اس کا اخراج
جب ہوا کو تیزی سے کمپریس کیا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ باہر کی طرف اچانک نکلتی ہے اور یہی ہوا آواز کی لہروں کے طور پر حرکت کرتی ہے۔
3) جِلد کی سطح اور تناؤ
آپ کے ہاتھوں کی شکل اور سطح بھی تالی کی آواز میں کافی معنی رکھتی ہے۔ آپ کتنی زور سے تالی بجاتے ہیں اور آپ کی جلد کی لچک یہ سب تالی کے اثرات اور حجم کو متاثر کرتے ہیں۔
چپٹے ہاتھ کی تالی تیز بجتی ہے۔ یہ اسلیے ہوتا ہے کیونکہ ہوا بلکل پھنسک جاتی ہے اور زیادہ شدت سے خارج ہوتی ہے۔
طبیعیات کے لحاظ سے آپ ہر تالی پر تغیر کے ساتھ صوتی لہروں کے طول و عرض، تعدد اور گونج کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
نامعلوم افراد کے ہاتھوں شیر علی گولاٹو کا قتل قابل مذمت ہے، علامہ مقصود ڈومکی
جیکب آباد میں لواحقین سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔ خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں عوام خود کو مکمل طور پر غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں گوٹھ گلاٹو کے باعزت شہری شیر علی گولاٹو کو دن دہاڑے بے دردی سے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے گوٹھ گولاٹو پہنچ کر شہید شیر علی گولاٹو کی نماز جنازہ پڑھائی اور سوگوار خاندان سے تعزیت کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین شیر علی گولاٹو کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔ خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں عوام خود کو مکمل طور پر غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ بے گناہ شہریوں کا قتل معمول بن چکا ہے۔ جیکب آباد شہر کے وسط میں، مین روڈ پر ہجوم کے بیچوں بیچ ایک معصوم شہری کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔
علامہ مقصود ڈومکی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام شہروں میں سیف سٹی پروجیکٹ پر فی الفور عملدرآمد کیا جائے۔ اہم مقامات پر جدید سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں، تاکہ مجرموں کی شناخت اور گرفتاری ممکن ہو۔ اور پولیس فورس کو لاوارث نہ چھوڑا جائے، ان کے وسائل، تحفظ اور حوصلے بحال کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ایک ڈاکو کے مارے جانے پر ایک نام نہاد قبائلی سردار نے پولیس اہلکار پر 40 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا، جو انصاف کا خون اور قانون کی توہین ہے۔ مگر اس ظلم پر تمام ریاستی ادارے اور عدلیہ مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اور ریاستی ادارے سیاسی مخالفین کا پیچھا کرنے اور سیاسی انتقام سے فارغ ہو چکے ہیں، تو اب انہیں چاہئے کہ ڈاکوؤں، چوروں، لٹیروں، منشیات فروشوں اور سماج دشمن عناصر کا تعاقب کریں، تاکہ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہو سکے۔ کیونکہ اس وقت پورا ملک بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔