تالی بجانے پر مخصوص آواز کیوں پیدا ہوتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
جب آپ تالی بجاتے ہیں تو کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آخر اسکیوجہ سے مخصوص آواز کیوں پیدا ہوتی ہے؟
جب آپ اپنے ہاتھوں کو رفتار سے ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے ہیں تو بہت سے عوامل فوری طور پر اس میں کارفرما ہوتے ہیں:
1) ہاتھوں کا ٹکراؤ
تالی میں ہاتھ ایک دوسرے کو طاقت سے مارتے ہیں جس کیوجہ سے ان کے درمیان ہوا پر دباؤ بنتا ہے۔
یہ عمل ایک شدید دباؤ کی لہر پیدا کرتا ہے، بنیادی طور پر ایک چھوٹی شاک ویو، جو ہوا کے ذریعے سفر کرتی ہے۔
2) ہوا پر دباؤ اور اس کا اخراج
جب ہوا کو تیزی سے کمپریس کیا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ باہر کی طرف اچانک نکلتی ہے اور یہی ہوا آواز کی لہروں کے طور پر حرکت کرتی ہے۔
3) جِلد کی سطح اور تناؤ
آپ کے ہاتھوں کی شکل اور سطح بھی تالی کی آواز میں کافی معنی رکھتی ہے۔ آپ کتنی زور سے تالی بجاتے ہیں اور آپ کی جلد کی لچک یہ سب تالی کے اثرات اور حجم کو متاثر کرتے ہیں۔
چپٹے ہاتھ کی تالی تیز بجتی ہے۔ یہ اسلیے ہوتا ہے کیونکہ ہوا بلکل پھنسک جاتی ہے اور زیادہ شدت سے خارج ہوتی ہے۔
طبیعیات کے لحاظ سے آپ ہر تالی پر تغیر کے ساتھ صوتی لہروں کے طول و عرض، تعدد اور گونج کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔