Express News:
2025-06-09@21:54:42 GMT

سلیمانی ٹوپی پہنے معاشی ترقی

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

حکومت کی طرف سے صبح وشام کہا جاتا ہے کہ ملک معاشی ترقی کی راہ پرچل پڑا ہے اورٹیک آف کرنے والا ہے یا کرچکا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے اس ملک اورقوم پرمسلط ہونے والا معاشی بحران اب ختم ہوچکا ہے اورتمام معاشی و اقتصادی اشارے مثبت سمت کی گواہی دے رہے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس بات پراطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اب پاکستان ڈیفالٹ ہوجانے کے خطروں سے باہرنکل آیا ہے۔ہمیں حکومت کے اِن دعوؤں پر شک کرناکچھ اچھا نہیںلگ رہا لیکن ہم کیا کریں کہ ہمیں سوائے چند ایک اشاروں کے کہیں بھی یہ انقلابی معاشی ترقی دکھائی نہیں دے رہی۔ عوام الناس کو آج بھی اُنکی ضرورت کی تمام اشیاء نہ صرف پرانے داموں مل رہی ہے بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوتادکھائی دے رہا ہے۔

چینی ہی کو لے لیجیے جو ایکسپورٹ کی اجازت سے پہلے عوام کو 120 یا 130روپے فی کلو مل رہی تھی وہ آج 170 یا180 میں مل رہی ہے جب کہ وزیراعظم نے اجازت اسی شرط کے ساتھ دی تھی کہ ملک کے اندر اس کی قیمت نہیں بڑھنی چاہیے اور اگر بڑھی تو برآمد کرنے کی یہ اجازت واپس لے لی جائے گی، مگر ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ اضافی چینی ایکسپورٹ ہوچکی اورعوام کواس کی سزا دے دی گئی۔ اب چینی کی قیمت 170 روپے سرکاری طور پرفکسڈ اورطے کردی گئی ۔

کوئی پوچھنے والا نہیںکہ ایسا کیوں ہوا؟ہمارے میڈیا کے پروگراموں میں ہر روز نظر آنے والے نڈر اوربے باک صحافیوں میں سے بھی کسی نے اب تک حکمرانوں سے یہ سوال نہیں کیاکہ آپ تو ایکسپورٹ کے حوالے سے جو کچھ کہاکرتے تھے اوراب کیوں خاموش ہیں۔ یہ سب کچھ عوام کو دھوکا دینے کی غرض سے تو نہیںکیاگیا۔ شوگر مافیا کیااتنی مضبوط ہے کہ حکومت بھی اس کے آگے بے بس ولاچار ہے اوروہ اپنا کام کرگئے یاپھر وہ اس کااعتراف کرلے کہ شوگر مافیا کی اکثریت ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے اوروہ ہمیشہ ہر دور میں اپنا کام کرجاتی ہے۔

اسے اپنے بزنس میں کبھی بھی نقصان نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہاجائے کہ اس وقت سب سے کم انویسٹمنٹ میںسب سے زیادہ منافع دینے والا اگر کوئی بزنس ہے تو یہ شوگر مالکان کا ہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ہرطرف اسی کے کارخانے دکھائی دیتے ہیں اوریہ کم سے کم خرچے پر بہت جلد مکمل بھی ہوجاتے اورفعال بھی۔کاشتکاروں کے خون پیسنے کی کمائی اورفصل بہت ہی سستے داموں خریدکر اپنے کارخانوں میں منتقل کرکے جب چاہتے ہیںمنہ مانگے داموں اسے فروخت بھی کردیتے ہیں۔

جب کبھی بھی نقصان کا احتمال ہونے لگتا ہے فوراً مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو پریشان اورحکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پرمجبور کردیتے ہیں،یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اورکوئی بھی ان کی گرفت کرنے والا نہیں۔

معاشی ترقی کے اوربھی کئی ایسے اشارے ہیں جن سے عوام مطمئن نہیں ہورہے ہیں، ساری دنیا میں پٹرول سستا ہونے کے باوجود انھیں صرف ایک روپیہ کا ریلیف دیا گیا۔ جب دس روپے کا ریلیف دینے کا وقت آیا تو حکومت نے اسے لیوی بڑھا کراپنے خزانے میں ڈال لیا۔ستر روپے فی لٹر لیوی یہ قوم کس جرم میں ادا کررہی ہے اسے اس جرم کا پتا ہی نہیں۔خراب معاشی حالات کی وجہ سے قوم کی تنخواہوں میں اضافہ تو نہیں کیاجاتا لیکن اپنے لوگوں اورپارلیمنٹرین کی ماہانہ تنخواہوں میں چار سوفیصد تک اضافہ کر دیا جاتا۔کیا یہ پارلیمینٹرین معاشرے کے اس غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو عوام سے زیادہ بد حال اوربے کس ومجبور ہیں۔ حکومت ابھی تک اس اضافے کو JUSTIFY بھی نہیںکرپائی ہے اورتنقید کاجواب دینے سے بھی گریزاں ہے۔

معاشی خوشحالی کے ثمرات اپنی جھولی میں ڈالتے ہوئے عوام کی حالت زار کا بھی خیال نہیںآیااورنہ IMF کی کڑی شرائط کا۔ عوام کو ایک روپیہ ریلیف دینے کے لیے IMF کی منظوری کا شور ڈالا جاتا ہے لیکن اپنی ان شاہ خرچیوں پرکوئی اجازت بھی نہیں لی جاتی۔اللہ اللہ کرکے حکومت نے ابھی اس بجلی کے نرخ کم کرنے کا اعلان مرحمت فرمایا ہے جو اسی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے عوام کو ساری دنیا میں سب سے مہنگی مل رہی ہے۔

سات روپے فی یونٹ کا اعلان بھی لگتا ہے اسی اعدادوشمار کا ہیر پھیردکھائی دیتا ہے جو ہمارے سالانہ بجٹ کے اعدادو شمار میںعام طور پرکیاجاتا ہے۔ جب اگلے ماہ بجلی کابل عوام کے ہاتھوں میں آئے گا تو اسوقت اس کا اصل پتا چلے گا کہ یہ ریلیف کتنا ہے۔حکومت کو بجلی کے بلوں میں اُن ٹیکسوں کو بھی دیکھنا ہوگا جو دس سے چودہ مختلف مدوں میں قوم پرعائد ہیں اورجس کی وجہ سے بجلی اپنی اصل قیمت سے بھی زیادہ بلکہ دگنی ہوجاتی ہے،جس طرح حکومت نے IMFکی شرط کے بغیر ہی پٹرول پر 70 فیصد لیوی لگا دی ہے اسی طرح اس نے بجلی کے بلوں کو بھی اپنے تمام اضافی اخراجات کو پورے کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔

گزشتہ ایک برس میں وزیراعظم نے بے شمار غیر ملکی دورے کیے اورہردورے کے اختتام پراُن ملکوں کے ساتھ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے کئی کئی MOUسائن بھی کیے لیکن اُن MOU پرعملدرآمد کب شرو ع ہوگا کسی کو پتا نہیں۔ یہ MOU جب تک صرف کاغذوں پرہیں اُن سے ملک کی ترقی کی آس واُمیداپنے تئیں دھوکا دینے کے مترادف ہے۔وہ جب حقیقت میں فعال ہونگے تب ہی پتا چلے گا کہ یہ کتنے مفید اورفائدہ مندہیں۔

وزیراعظم نے اس بار ادھار مانگنے کا انداز بدل ڈالا ہے اوردر در کشکول لے کر ادھار اورامداد مانگنے کے بجائے سرمایا کاری کی درخواست کا باعزت طریقہ اپنایا ہے۔کہنے کو اور دیکھنے کو تو یہ کچھ اچھا معلوم ہورہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سامنے والا پراس کا کیا اثر ہوتا ہے اوروہ حقیقت میں سرمایہ کاری کرنے پرکتنی دلچسپی دکھاتا ہے۔ فی الحال تو یہ صرف زبانی وکلامی وعدے ہی ہیں جنھیں پورا کرنے کی کوئی مدت بھی تجویز نہیں کی گئی ہے۔

 ہماری معیشت اگر حکومتی دعوؤں کے مطابق ٹیک آف کرچکی ہے اور فارن ایکسچینج بھی بڑھنے لگا ہے تو دوست ممالک سے مستعار لیے گئے آٹھ نو ارب ڈالرکیونکر واپس نہیں کردیے جاتے الٹا اُن سے ہرسال درخواست کیوں کی جاتی ہے کہ انھیںمزید ایک برس اور ہمارے خزانوں میں رہنے دیاجائے ۔پتا نہیں اس طرح یہ کام کب تک چلتا رہے گا۔حکومت اگر سارے ڈالریکمشت واپس نہیں کرسکتی ہے تو کم از کم قسطوں ہی میں انھیں واپس کردیاجائے۔مگر نہیں اس طرح ہماری مستحکم معیشت کاساراپول کھل کرواضح ہوجائے گا۔ معاشی استحکام کے لیے جہاں سیاسی استحکام ضروری ہوتا وہاں امن وامان بھی ضروری ہوتا ہے۔

کیا ہمارے یہاں اس وقت یہ دونوں استحکام موجود ہیں۔ ملک کے دوبہت اہم صوبے اس وقت سخت عدم استحکام سے دوچار ہیں۔دہشت گردی کی وجہ سے جب ہمارے اپنے لوگ ہی وہاں محفوظ نہیں ہیںتو کسی غیر ملکی سرمایہ کارکی حفاظت کیسے ممکن ہوپائے گی۔ چینی کارندوں کی ناگہانی ہلاکت کی وجہ ہم برادر دوست ملک کے سامنے شرمندہ ہوتے رہے ہیں اور جس کی وجہ سے اس ملک کا اعتماد بھی مجروح ہوا ہے ۔ہم ابھی تک وہ اعتماد بحال نہیں کرپائے ہیں تو پھر ایسے میں کوئی دوسرا ملک کیسے یہاں سرمایاکاری پرراضی اوررضامند ہوپائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی وجہ سے عوام کو مل رہی رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا : ماہر معاشی امور

کراچی  (ڈیلی پاکستان آن لائن)ماہر معاشی امور خاقان نجیب کا کہنا ہے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہماری معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا ہے۔
 نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق  کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف صنعتکار عارف حبیب کا کہنا تھا  کہ ہم زراعت اور لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں اہداف حاصل نہ کرسکے، اس وجہ سے مجموعی جی ڈی پی کا ہدف حاصل نہ ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال کسانوں کی معیشت بری طرح متاثر رہی، زرعی اجناس کی قیمتوں میں بہت کمی آئی ہے، حکومت کو کسانوں کو زیادہ پیدا وار کے لیے راضی کرنا ہوگا، زراعت میں ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور پیدا وار بڑھائی جائے، زرعی پیداوار بڑھانے کیلیے کاسٹ آف پروڈکشن کو کم کیا جائے۔
عارف حبیب کا کہنا تھا  کہ آئی ایم ایف پروگرام زرعی اجناس کے لیے سپورٹ پرائسز کی اجازت نہیں دیتا، ایسی پالیسی بننی چاہییں کہ کسانوں اور حکومت دونوں کے لیے ون ون کنڈیشن ہو، پچھلے سالوں میں منہگائی بہت زیادہ بڑھی، منہگائی کی وجہ سے انڈسٹریز اپنی صلاحیت کے لحاظ سےکم کام کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انڈسٹریز کے ٹیکس ریٹ میں تبدیلی ہوئی، انرجی کاسٹ بھی بڑھی، تعمیراتی سامان بنانے والی انڈسٹریز بھی اپنی پیداواری صلاحیت سے کم پر چل رہی ہیں، مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی جس وجہ سے ڈیمانڈ میں کمی ہوئی، ایسی پالیسیز بنائی جائیں کہ پروڈکٹس کی مانگ میں اضافہ ہو، انڈسٹریز کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اقدامات کی ضرورت نہیں، صنعت نے اپنی پیداواری صلاحیت کو طلب سے مطابقت دی۔
عارف حبیب کا کہنا تھا پچھلے سال زراعت میں پیچھے رہے، اسی لیے معاشی گروتھ کا ہدف حاصل نہ ہوسکا، پچھلے سال گندم کی قیمت گری جس کی وجہ سے کسان کے پاس اگلی فصل کے لیے سرمایہ کاری کم رہی، پیداواری لاگت کم ہوگی تو کسان کے لیے مواقع بڑھے گی، کسان کو فصل کے لیے فنانسنگ اور اچھے بیج کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، ملکی صنعتیں اپنی صلاحیت سے کم پیداوار کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کم ہوئی ہے،کنسٹرکشن کے لیے وزیراعظم نے ٹاسک فورس بنا دی ہے، نئے سال میں گروتھ کا مناسب سا ہدف رکھا گیا ہے، بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی کی باتیں ہورہی ہیں، شرح سود میں مزید کمی کی ضرورت ہے، پاکستان میں ٹیکس ریٹ سب سے زیادہ ہے، سپر ٹیکس میں کمی جائے۔
عارف حبیب کا کہنا ہے کہ حکومت کا کام گندم کی قیمت طے کرنا نہیں، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کرنا ہے، چاول کی قیمت کا حکومت تعین نہیں کرتی، چاول اوپن مارکیٹ کے اصول پر دستیاب ہوتا ہے۔
معروف صنعتکار کا کہنا تھا  کہ تعمیراتی شعبے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، مارگیج فنانسنگ کو سپورٹ کیا جائے، پاکستان میں مارگیج فنانسنگ کا رجحان کافی کم ہے، مجھے مارگیج فنانسنگ میں کافی سکوپ نظر آتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر مارگیج فنانسنگ پر توجہ دی گئی تو مثبت نتائج آئیں گے۔
ماہر معاشی امور خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ10 مئی کو جو آپ نے کیا اس کے بعد آپ کے پاس انٹرنیشنل کریڈیبیلیٹی ہے، حکومت کو ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے انہیں پرکشش مواقع دینے چاہئیں، حکومت کی موجودہ پالیسی ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کو سزا دینے کی ہے۔
ان کا کہنا تھا  کہ آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا ہے، کپاس کی پیدا وار مشکل سے 6 سے 7 ملین بیلز ہے، بھارت کپاس کی پیدار دو گنا کر چکا ہے، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ وفاقی اور صوبائی سطح پر کمزور ہے، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کرنا حکومت کاکام ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال چاول کی ایکسپورٹس بہت زیادہ رہیں، ریسرچ بتاتی ہیں کہ چاول کی پیداوار بہت بہتر ہے، بجٹ میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے آر اینڈ ڈی کے لیے رقم مختص کرنا ہوگی، کپاس امپورٹ کرنے سے امپورٹ بل دو سے تین فیصد بڑھ جائےگا۔
خاقان نجیب کا کہنا تھا تیل کی قیمت دنیا بھر میں کم ہے، بجلی کی قیمت کم ہوئی، شرح سود میں کمی ہوئی، پاکستان کی اکنامی گروتھ کے لیے اچھی نہیں ہے، ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے لوگوں کو ترغیب دی جائے، 78 روپےکی پیٹرولیم لیوی سے بچنےکے لیے پمپس پر کارڈ سے پےمنٹ لی جائے۔

قومی اقتصادی سروے پیش؛وزیر خزانہ کی نگران حکومت کے اقدامات کی تعریف

مزید :

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف نے معاشی ترقی کے اعدادوشمار کو ’فارم 47‘ کی مانند قرار دے دیا
  • یہ گروتھ بھی فارم 47 کی طرح کی دکھا رہے ہیں: شیخ وقاص
  • آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا : ماہر معاشی امور
  • معاشی اصلاحات اور ترقی کا عمل فوری طور پر مکمل نہیں ہو سکتا، وفاقی وزیر خزانہ
  • قومی اقتصادی سروے آج پیش کیا جائے گا، حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل میں ناکام
  • سمعتا افضال سید کا عظمیٰ بخاری کو زمینی حقائق دیکھ کر بیان دینے کا مشورہ
  • سمعتا افضال کا عظمیٰ بخاری کو زمینی حقائق دیکھ کر بیان دینے کا مشورہ
  • قومی اقتصادی سروے کل پیش کیا جائے گا، معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہ ہو سکا
  • عوام کی خوشحالی اور صوبے کی ترقی اولین ترجیح ہے:وزیراعلیٰ بلوچستان
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا