ایلون مسک اور دنیا کی ترقی کا اگلا مرحلہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ان چاروں شخصیات کی پیش بینی کے مطابق اب ایک ایسی دنیا قائم ہو گی جس میں انسان ایک نئی اور جدید ترین تہذیب میں داخل ہو گا جس میں انسان پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے دور میں کسی انسان کے نظریات جتنے زیادہ جدید اور ترقی یافتہ ہوں گے وہ زندگی میں اتنا ہی زیادہ کامیاب ہو سکے گا۔
ایلون مسک اپنی کمپنی نیورولنک کے ذریعے برین کمپیوٹر انٹرفیس بنا کر اسمارٹ فونز کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایپل کا نیا آئی فون ایسا اسمارٹ فون ہو گا جسے اب تک کسی نے نہیں دیکھا یے۔ دنیا کا سب سے پتلا اسمارٹ فون کونسے فیچرز سے لیس ہو گا؟ منفرد جیکٹ جو سولر پاور کی مدد سے آپ کے اسمارٹ فون کو چارج کرے گی۔ یہ ٹیکنالوجی صارفین کو صرف اپنے خیالات کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت دے گی جس میں نہ کوئی اسکرین ہو گی نہ انگلیوں کا استعمال ہو گا اور نہ ہی کوئی جسمانی ان پٹ ہو گا۔
اب تک دو انسان اس سبجیکٹ کو پہلے ہی اپنے دماغ میں امپلانٹ کروا چکے ہیں جس سے اس تصور کی ابتدائی فزیبلٹی ظاہر ہوتی ہے۔بل گیٹس کیئوٹک مون اور اس کے الیکٹرانک ٹیٹوز کی حمایت کرتے ہوئے ایک مختلف سمت تلاش کر رہے ہیں، جو نینو سینسر سے بھرے ٹیٹو ڈیٹا اکٹھا کرنے، بھیجنے اور وصول کرنے کے قابل ہیں۔ ان کی ممکنہ حدود صحت کی نگرانی سے لے کر جی پی ایس سے باخبر رہنے اور مواصلات کو انسانی جسم ہی کے ذریعے پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔
اب سوال صرف یہ نہیں ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ کیا انسانی معاشرہ ان جرات مندانہ نئے ٹولز کو اپنی مرضی سے اپنائے گا، یا آنے والے برسوں تک اسمارٹ فون ہی کو ترجیح دے گا؟آپ کو یاد ہو گا کہ مائیکرو سافٹ کی طرف سے نوکیا کی خریداری کا اعلان کرنے کے لئے پریس کانفرنس کے دوران، نوکیا کے سی ای او سٹیو پلمر نے اپنی تقریر یہ کہہ کر ختم کی تھی کہ، “ہم نے کچھ غلط نہیں کیا، لیکن کسی نہ کسی طرح ہم ہار گئے۔”جب اس نے یہ کہا تھا تو خود سمیت نوکیا کی پوری انتظامیہ رو پڑی تھی۔ نوکیا ایک معزز کمپنی تھی۔ اس نے اپنے اعمال سے کچھ غلط نہیں کیا تھا لیکن دنیا بہت تیزی سے بدل گئی تھی اور وہ سیکھنے سے محروم ہو گئے تھے اور یوں وہ تبدیلی سے محروم ہو گئے تھے۔ ہم عام انسانوں کے لیئے بھی یہ بات بڑی سبق آموز ہے کہ جو لوگ وقت کے ساتھ نہیں چلتے ہیں یا ایک قیمتی موقع کھو دیتے وہ نوکیا کی طرح بڑا نام پیدا کرنے یا اس پر قائم رہنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ چاہے ایلون مسک ہو یا ہم غریب اور متوسط طبقے کے عام لوگ ہوں وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھ کر ترقی کرنے اور امیر بننے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔
جو انسان صرف بڑی رقم کمانے کا موقع گنوا دیتا ہے وہ پرآسائش طور پر زندہ رہنے کا موقع بھی کھو دیتا ہے۔ اگر آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے ہیں، تو آپ کو مقابلے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اگر آپ نئی چیزوں کو نہیں سیکھنا چاہتے اور آپ کے خیالات اور ذہنیت وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی تو وہ وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان تب تک کامیاب رہتا ہے جب تک وہ سیکھتا ہے اگر اسے لگتا ہے کہ اس نے سب کچھ سیکھ لیا ہے تو سمجھو اس نے اپنے آپ کو خود ہی ناکام کر لیا ہے۔ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک نے انسانوں کو دیگر سیاروں کا باسی بنانے کا عزم ظاہر کر کے انسان کو ایک نئی جست فراہم کی ہے۔چین کے ایک جریدے کے لئے تحریر کئے گئے ایک مضمون میں بھی ایلون مسک نے کہا کہ انسانی تہذیب کو دیگر سیاروں تک جانے کے قابل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر زمین رہائش کے قابل نہ رہے تو ہمیں ایک خلائی طیارے سے نئے گھر کی جانب پرواز کرنا ہو گا’۔
ایلون مسک کی نظر میں انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟ ایلون مسک کا یہ ایک اور حیرت انگیز منصوبہ ہے۔ ایلون مسک نے مزید لکھا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے پہلا قدم خلائی سفر کے اخراجات کو کم کرنا ہے اور اسی کے لئے انہوں نے اسپیس ایکس کی بنیاد رکھی۔دنیا کے امیر ترین شخص مسک کا کہنا تھا کہ وہ انسانی تہذیب کو بجھتی ہوئی شمع کی طرح دیکھ رہے ہیں اور ہمیں اپنی بقا کے لئے دیگر سیاروں کا رخ کرنے کی ضرورت ہے۔ایلون مسک نے اپنے مضمون میں کہا کہ ان کی انسانوں کے لئے سب سے بڑی توقع یہ ہے کہ وہ مریخ میں ایک مستحکم شہر کو تعمیر کر سکیں۔ایلون مسک برسوں سے مریخ میں انسانوں کے بسانے کے منصوبوں کی بات کرتے آ رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ کم از کم ایک ہزار اسٹار شپس تیار کر کے اس شہر کو تعمیر کرنے کے لیئے وہاں بھیجنا چاہتے ہیں۔یہ مضمون چینی زبان میں تحریر کیا گیا تھا اور ایلون مسک کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ اسپیس ایکس کے بانی نے اسے لکھا تھا۔ انہوں نے مضمون میں ’’ہم خیال چینی شراکت داروں‘‘ کو مستقبل میں خلائی کھوج کا حصہ بننے کی دعوت بھی دی تھی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایلون مسک نے اسمارٹ فون رہے ہیں کے ساتھ وقت کے کے لئے
پڑھیں:
عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں، عبرانی میڈیا دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف اقتصادی، سائنسی اور فنی پابندیوں کی لہر کے بارے میں بہت زیادہ رپورٹنگ کر رہا ہے، اور اس عمل کو "سیاسی سونامی" سے تشبیہ دے رہا ہے جو اسرائیل کی برآمدی منڈیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ اشاریے اور اعداد و شمار بین الاقوامی منڈیوں اور نمائشوں میں صیہونی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے ردّ اور تنہائی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی تجارتی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
بچوں کی قاتل سفاک صیہونی رجیم کو روکنے میں دنیا کی حکومتوں اور سیاسی نظاموں کی کوتاہیوں اور ناکامی کی تلافی یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کے مخلتف ملکوں کے عام لوگوں، یونیورسٹیوں، اداکاروں اور فلمی ستاروں اور کھلاڑیوں نے کی ہے۔ ایک طرح سے عوام اور بعض حکومتوں کی طرف سے پابندیوں کے دباو نے اس حکومت کو بری حالت میں دھکیل دیا ہے۔ غزہ میں 710 دنوں سے جاری مسلسل جرائم اور اس پٹی میں رہنے والے 680،000 فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے بنیادی وجہ حکومتوں، تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی ہے اور اس خاموشی اور پیچیدگی کی سب سے بڑی وجہ امریکہ اور مغربی اور عرب ممالک کے رہنماؤں کی ملی بھگت ہے۔ تاہم، اس عظیم غداری اور جرم نے پوری دنیا کے لوگوں، کھلاڑیوں، فلم اور ٹیلی ویژن کے اداکاروں اور ماہرین تعلیم کے ضمیروں کو بیدار کیا، وہ بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی رجیم کے خلاف مظاہروں، بائیکاٹ، آڈیو، ویڈیو اور سائبر اسپیس میں تحریری پیغامات کے ساتھ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس جدوجہد میں موثر ثابت ہو رہے ہیں۔
عالمی سنیما انڈسٹری میں بائیکاٹ کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ:
اعداد و شمار کے مطابق کچھ عرصہ قبل فلم انڈسٹری کے ہدایت کاروں اور کارکنوں نے ایک بیان پر دستخط کیے تھے، جس میں اسرائیلی فلم انڈسٹری کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں اس کارروائی میں نمایاں طور پر توسیع ہوئی ہے، دستخط کرنے والوں کی تعداد میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اب اس بیان پر دستخط کرنے والوں کی تعداد 4000 فلم سازوں سے تجاوز کر گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم تہواروں، تھیٹروں، براڈکاسٹ نیٹ ورکس، اور پروڈکشن کمپنیوں سمیت جو فلسطینی عوام کے خلاف جرائم اور نسل پرستی میں ملوث ہیں، اسکریننگ، تقریبات میں شرکت، یا اسرائیلی فلمی اداروں کے ساتھ کسی بھی تعاون میں شرکت نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
سینما انڈسٹری کے معروف نام، جیسے جوکین فینکس، ایما ڈارسی، رونی مارا، ایرک آندرے، ایلیٹ پیج، اور گائے پیئرس نے حال ہی میں دستخط کرنے والوں کے گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے، جوش او کونر، لینا ہیڈی، ٹلڈا سوئنٹن، جیویئر بارڈیم، اولیویا کولمین، برائن کاکس اور مارک روفالو جیسے ستارے ابتدائی 1300 دستخط کنندگان میں شامل تھے۔ فلم جوکر کے لیے آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار اور ہالی ووڈ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک، جوکوئن فینکس ہمیشہ اپنی سماجی اور ماحولیاتی سرگرمی کے لیے جانے جاتے ہیں، انہوں نے انصاف اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے بارہا عالمی پلیٹ فارمز کا استعمال کیا ہے، اور ان کی اس مہم میں شمولیت نے اسے ایک خاص اخلاقی وزن دیا ہے۔ ان کے ساتھ، آسکر نامزد اداکارہ رونی مارا، فینکس کی اہلیہ، جنہوں نے سماجی تحریکوں کی حمایت کی تاریخ کے ساتھ دی گرل ود دی ڈریگن ٹیٹو جیسے کاموں میں کردار ادا کیا، ایک بار پھر یہ ظاہر کیا کہ فنکاروں کی وابستگی اسٹیج اور اسکرین سے بالاتر ہے۔
اسپین میں صیہونی ایتھلیٹس کی توہین:
اسپین میں بھی لوگوں نے فلسطین کی حمایت میں تاریخی اقدام کرتے ہوئے صہیونی سائیکلنگ ٹور روک دیا۔ ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے بھی لا بویلٹا سائیکلنگ ریس کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف پرامن مظاہروں کی تعریف کی اور تل ابیب پر بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ہسپانوی حکومت تشدد کی مذمت کرتی ہے، لیکن میڈرڈ اور دیگر شہروں میں حالیہ شہری مظاہروں نے ظاہر کیا کہ "آزاد بحث" کو مضبوط کیا جانا چاہیے اور اس کا پیغام پوری دنیا تک پہنچنا چاہیے۔ اسپین کے بادشاہ فیلیپ ششم کے جاری کردہ شاہی فرمان کے مطابق صیہونی حکومت کے ساتھ تمام تعلقات منقطع ہیں اور صیہونی رہنماؤں کا اسپین میں داخلہ بھی ممنوع ہے۔ دوسری جانب بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں نے صیہونی اشیا کا بائیکاٹ کرکے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف عالمی پابندیاں کاغذی کاروائیوں سے آگے نکل کر حکومتی ایوانوں تک پہنچ چکی ہیں۔ اب نہ تو اسرائیلی پھل برآمد ہوتے ہیں اور نہ ہی اسرائیلی دوائیاں یورپ میں دستیاب ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں، عبرانی میڈیا دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف اقتصادی، سائنسی اور فنی پابندیوں کی لہر کے بارے میں بہت زیادہ رپورٹنگ کر رہا ہے، اور اس عمل کو "سیاسی سونامی" سے تشبیہ دے رہا ہے جو اسرائیل کی برآمدی منڈیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ اشاریے اور اعداد و شمار بین الاقوامی منڈیوں اور نمائشوں میں صیہونی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے ردّ اور تنہائی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی تجارتی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہے۔
عالمی منڈیوں میں اسرائیلی برآمدات کا خاتمہ:
صیہونی حکومت کے چینل 12 نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کیا ہے کہ اسرائیل کی برآمدات کو حقیقی بحران کا سامنا ہے، کیونکہ دنیا ایسی اشیا حاصل کرنے سے سختی سے انکار کر رہی ہے جن پر "میڈ ان اسرائیل" کا لیبل موجود ہے۔ دنیا کی مختلف مارکیٹیں اب مختلف شعبوں میں اسرائیلی مصنوعات خریدنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہ پابندیوں میں غیر معمولی شدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسرائیلی مینجمنٹ کنسلٹنگ فرم این ایس جی کے ڈپٹی سی ای او نینی گولڈفین نے کہا ہے کہ اب یہ خاموش پابندیاں نہیں ہیں، اور اب یہ پابندیاں زیادہ موثر اور واضح ہو گئی ہیں۔