غزہ لہولہو،پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیر اہتمام اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج WhatsAppFacebookTwitter 0 7 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز )پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیراہتمام غزہ لہو لہو مہم کے تحت مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا گیا، لاہور،کراچی،اسلام آباد، پشاو،کوئٹہ ملتان، فیصل آباد، سکھر،حیدرآباد ،قصور،گوجرانوالہ ،شیخوپورہ ،نواب شاہ، مٹیاری،ہالا،گولارچی سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے،مظاہروں میں نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں سمیت تمام مکاتب فکر کے ہزاروں افراد شریک ہوئے، شرکا نے اسرائیلی کھلی دہشت گردی پر اقوام متحدہ، او آئی سی، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔لاہور پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ شرکا نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے پلے کارڈز، بینرز اٹھا رکھے تھے.

لاہورپریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کے شرکا سے مرکزی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل سیف اللہ قصوری، مرکزی مسلم لیگ کے نائب صدر حافظ طلحہ سعید،سیکرٹری جنرل لاہور مزمل اقبال ہاشمی،شیخ نعیم بادشاہ،تابش قیوم و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت کا ہے۔

مسلم ممالک فوری طور پر اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کریں،اسلامی ممالک پر مشتمل دفاعی بلاک تشکیل دیا جائے جو نہ صرف فلسطین بلکہ ہر مظلوم مسلم ملک کا محافظ ہو،عالمی سطح پر اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی مہم چلائی جائے۔ سیف اللہ قصور ی کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو یاد رکھو تمہارے ظلم کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔آج غزہ کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔اگر اسرائیل کیخلاف کھڑا ہونا چاہتے ہو تو مسلم ممالک کو اپنی صفوں کو اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔اپنی عوام کو پیغام دیتا ہوں کہ اپنی حکومت کیخلاف کھڑا ہونا کسی صورت ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کی عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہے، سب کو کھڑا کریں گے، لوگوں کو شعور،بیداری کی لہر پیدا کریں گے، غزہ کی سسکتی انسانیت کا درد ہر پاکستانی کے دل میں ہے۔مرکزی مسلم لیگ کا غزہ لہو لہو مہم کے تحت ہفتہ یکجتہی فلسطین مہم کے تحت کل منگل کو بھی احتجاجی مظاہرے ہوں گے،بدھ ،جمعرات کو سیمینار و کانفرنسز،جمعہ کو ملک گیر احتجاج ہو گا

نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاجی مظاہرے سے صدر مرکزی مسلم لیگ خالد مسعوسسندھو و دیگر نے خطاب میں کہا کہ آج دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ میں ظلم کا جو بازار گرم ہے، وہ انسانی ضمیر، عالمی اداروں اور مسلم حکمرانوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، اسرائیل نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں بلکہ انسانیت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے،معصوم بچوں کی چیخیں، ماں کی آہیں، اور شہیدوں کے جنازے گواہ ہیں کہ اسرائیل ایک دہشتگرد ریاست، جو زمین سے نیست و نابود کیے جانے کے قابل ہو چکی ہے،ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اب مذمتوں اور قراردادوں کا وقت نہیں ،عملی اقدام اٹھائے جائیں.

کراچی میں مرکزی مسلم لیگ سندھ کے صدر فیصل ندیم، کراچی کے صدر احمد ندیم اعوان،شیر بہادر،شہباز عبدالجبار،اشرف علی، قاضی احمد نورانی،قیس منصور شیخ،صابر ابو مریم و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مہذب نہیں قاتل ریاست ہے۔اقوام متحدہ میں جس ملک کی سب سے زیادہ مذمت کی گئی ہے وہ اسرائیل ہے۔کسی بھی ظالم کا وجود دنیا میں برقرار نہیں رہتا۔اسرائیل اور امریکا اپنے ظلم کی وجہ سے مٹ جائیں گے۔غزہ کے شہریوں نے مزاحمت کی تاریخ رقم کر دی۔کراچی کے تاجروں کو داد دیتا ہوں جنہوں نے آج اظہار یکجہتی کے لیے ہڑتال کی۔ہم اپنی مارکیٹوں میں جائیں اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائیں،غزہ کے قتل عام میں اسرائیل کے مدد گار نہ بنیں۔جس دکان میں اسرائیلی مصنوعات ہوں گی اس کا بائیکاٹ کریں گے۔

پشاور میں بھی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور فلسطینی شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ،خیبرپختونخواجنوبی زون کے صدر یاور آفتاب، صدر پشاور انعام اللہ و دیگر کہنا تھا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی، درندگی اور انسانیت کی تذلیل ہے۔ اسرائیل نے جنگی جرائم کی ہر حد پار کر دی ہے، اور امریکہ اس ظلم کا سب سے بڑا سرپرست ہے،صہیونی ریاست کی خون آشام پالیسیاں عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکی ہیں، اسرائیل انسانیت کا چہرہ مسخ کر رہا ہے۔ آج اگر دنیا خاموش رہی، تو کل کوئی محفوظ نہیں رہے گا.

کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کیشر کا سے صوبائی صدر حافظ محمد امجد و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی محض مردہ جسم بن چکی ہے، جو صرف تعزیتی بیانات تک محدود ہے۔او آئی سی کی خاموشی فلسطینیوں کے خون میں شامل ہو چکی ہے، اب اگر تم نہیں جاگو گے، تو تاریخ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی،بلوچستان کے باسی، پاکستانی قوم دل سے فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔

فیصل آباد،ملتان، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، قصور، بہاولنگر ،چیچہ وطنی، حیدرآباد ،پاکپتن،نواب شاہ ،گولارچی و دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہروں سے مرکزی مسلم لیگ کے رہنماں حافظ عبدالرف، حافظ ابو الحسن، حافظ محمد اشفاق،ابو طارق ، مفتی زبیر ، حافظ عبدالمنان و دیگرنے خطابات میں کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز، غاصب اور قاتل ریاست ہے جو غزہ میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ آج غزہ کی گلیوں میں بچوں کی لاشیں ہیں، ماں کی چیخیں ہیں، اور دنیا کا ضمیر بے حس ہو چکا ہے،ہر گرتا ہوا فلسطینی بچہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے سوال کر رہا ہے، کیا میرا خون سستا ہے؟،امریکہ، تم اسرائیل کو اسلحہ دیتے ہو، سفارتی تحفظ دیتے ہو، اور پھر انسانی حقوق کی بات کرتے ہو، تم دراصل اس بربریت کے اصل مجرم ہو، تمہاری منافقت اب بینقاب ہو چکی ہے،پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے گولارچی پریس کلب کے سامنے بھی فلسطین پر اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاکستان مرکزی مسلم لیگ مرکزی مسلم لیگ کے

پڑھیں:

اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور

پاکستان نے دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاری کے وزارتی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان پیش کردیا۔ سات نکاتی پلان میں اسرائیل کا احتساب، جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنا، رکن ممالک کی طرف سے تعزیری اقدامات کا نفاذ، غزہ میں بلا روک ٹوک انسانی رسائی کو یقینی بنانا، دو ریاستی حل کے لیے حقیقی سیاسی عمل کو زندہ کرنا اور عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

 درحقیقت، یہ واقعہ ایک چیلنج ہے کہ عالمی قوانین، ریاستوں کی خود مختاری اور سفارتی عزت و وقارکی حفاظت کے لیے ہم کس قدر متحد ہو سکتے ہیں۔ قطر پر اسرائیلی فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشورکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مڈل ایسٹ کی تمام ریاستوں کی سالمیت خطرے میں ہے، حتیٰ کہ وہ ثالثی اور امن مذاکرات کی میزبانی ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔

 پاکستان کی حکمتِ عملی، خاص طور پر نائب وزیر اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا سات نکاتی پلان، اس پسِ منظر میں نہایت اہم ہے۔ یہ منصوبہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک مرکزی سیاسی عزم ہے کہ غیر قانونی حملوں کے خلاف مسلم دنیا نہ صرف بیانیہ تشکیل دے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے۔ احتساب، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی، جنگی جرائم پر مقدمات ، یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو فلسطینی مظلومیت کے تناظر میں مسلم ریاستوں کی اخلاقی اور سیاسی ذمے داری کا حصہ ہیں۔ عملی امکانات کا جائزہ لیا جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں، متحدہ ردعمل کہاں تک ممکن ہے؟ کون سی ریاستیں اپنے قومی مفادات کو عبور کر کے مسلم اتحاد کا حصہ بنیں گی؟ اقتصادی پابندیاں لگانا، سفارتی تعلقات محدود کرنا، یا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا، یہ تمام اقدامات چیلنجز کے حامل ہیں۔ قوت عمل کی کمی، علاقائی اختلافات، حصول مفاداتِ طاقت، یہ عوامل اکثر ایسے اقدامات کو کمزور یا متزلزل بنا دیتے ہیں۔

غزہ میں انسانی رسائی یقینی بنانا ایک فوری ضرورت ہے۔ انسانیت کو تحفظ کی ضرورت ہے، بنیادی امداد، طبی سہولیات، پناہ گزینوں کا تحفظ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں چشمِ تصور سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن یہ رسائی کیسے ممکن بنے گی؟ انسانی تنظیموں، اقوام متحدہ اور علاقائی ریاستوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ رکاوٹیں دور ہوں، راستے کھلیں اور امدادی کام محفوظ اور بلاخوف جاری رہیں۔دو ریاستی حل کا اعادہ کرنا، اور اسے حقیقی سیاسی سطح پر زندہ کرنا، ایمنسٹریٹیو اور سفارتی محاذوں پر ایک مستقل عزم درکار ہے۔ یہ حل صرف میز پر قراردادیں نہیں بلکہ زمین پر اقدامات، مذاکرات، ریاستی حدود، القدس کی حیثیت اور فلسطینی ریاست کا تسلیم شدہ جغرافیہ ہونے چاہیے۔ بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے، جس میں غیر جانبدار ممالک کا کردار ہو، اقوام متحدہ کا دائرہ کار ہو اور عرب دنیا سمیت اسلامی تعاون تنظیم کا تعاون ہو۔

عرب اسلامی ٹاسک فورس کا تصور اہم ہے، مگر اس کی افادیت کا انحصار اس کی تشکیل، اختیارات، مستحکم رہنمائی اور مشترکہ سیاسی عزم پر ہو گا۔ کیا یہ فورس صرف قانونی و سفارتی رد عمل کا مرکز ہوگی یا اس کے پاس کوئی عملی صلاحیت ہو گی جیسے مخصوص پابندیاں نافذ کرنا، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا یا حتیٰ کہ عالمی فورمز پر اسرائیل کی کارکردگی کو شہری قانون کے دائرے میں لانا؟ یہ فیصلہ اورکام کرنے کی صلاحیت ہونا چاہیے، تاکہ اس کا وجود محض علامتی نہ ہو۔

 پاکستان کے لیے یہ صورتحال موقع بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ پاکستان عملی سطح پر ایک مخلص، موثر اور متوازن کردار ادا کرے۔ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بین الاقوامی قانونی و سفارتی محاذ تشکیل دے، انسانی امداد فراہم کرنے والوں کے کردار میں تعاون کرے اور عالمی برادری کے سامنے یہ موقف پیش کرے کہ امن اور انصاف کے اصول غیر متزلزل ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کی ترجمانی داخلی استحکام کے ساتھ کرے۔

عوامی رائے کی توقعات کو پورا کرنا ہو گا، میڈیا اور دانشورانہ حلقوں میں بحث و مباحثہ ہو، تاکہ حکومتی اقدامات مستحکم ہوں۔ داخلی اقتصادی مشکلات، خارجہ دباؤ اور علاقائی سیاست کے تقاضے حکومت کو محتاط بنا سکتے ہیں، مگر یہ وقت پسپائی کا نہیں، بلکہ عزمِ عملی کا ہے۔اب اقوام متحدہ کے امن مشن کی سالمیت خطرے میں ہے، سفارتکاری کی روشنی مدھم ہو رہی ہے اور انسانی المیے کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، اگر اسلامی دنیا متحد ہو، مسلم قیادت عزم دکھائے، اگر عالمی قوانین کا اطلاق ہو، اگر انسانی حق اور ریاستِ فلسطین کا مطالبہ واضح اور مسلسل ہو، تو یہ لمحہ تاریخ میں ایک تبدیلی کا نکتہ بن سکتا ہے۔

آج قطر پر حملہ، ایک خود مختار ریاست کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ لمحہ ہے کہ شعور، اتحاد اور اخلاقی طاقت اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ یہ عملی عزم کا وقت ہے، ایسی پالیسیاں جن کی بنیاد عدالت، انصاف اور انسانیت ہو۔ ایسی پالیسی جس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حق کا تحفظ ہو، بلکہ بین الاقوامی امن وپائیداری کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے۔چین کے مندوب نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے جاری سفارت کاری کو متاثر کیا ہے۔ خصوصاً جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جسے اسرائیل نے قبول کیا۔ محض دو دن بعد اس تجویز پر بات چیت کرنے والی حماس کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بد نیتی، غیر ذمے داری اور دانستہ طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔پاکستان کا سات نکاتی منصوبہ اگر ایک عملی منشور بن جائے تو مسلم امن کی راہ میں نئے دریچے کھل سکتے ہیں۔

وہ دن اگرچہ دور نہیں کہ عالمی طاقتیں بھی جان لیں گی کہ ریاستوں کے وقار، قانونِ بین الاقوامی کی حکمرانی اور انسانیت کی آواز کوئی مفاہمت نہیں کرتی،کوئی سودے بازی نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کی اسرائیل کے ساتھ ترجیحی و جانبدارانہ پالیسی نے خطے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے دوست ممالک کو ناراض کیا ہے۔ دوحہ میں موجود حماس کے رہنماء غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کا جائزہ لے رہے تھے، اسی دوران صیہونی رجیم نے تمام سفارتی قوانین کو روندتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا۔

اب مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اب تک امریکا سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین فوجی سازوسامان خریدا ہے اور امریکا کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کیے ہیں جن کا واحد مقصد ان کی قومی سلامتی کی حفاظت اور دفاع کرنا تھا لیکن حالیہ اسرائیلی حملے میں نہ تو امریکا اور نہ ہی برطانیہ نے ان کا ساتھ دیا اور نہ اسرائیل کو روکا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ قطر میں امریکا کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم سویا رہا اور اسرائیلی میزائل دارالحکومت دوحہ پر گرتے رہے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم حکمران خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور دوست اور دشمن کی حقیقی پہچان حاصل کریں۔

اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کیا کہا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر مسلم دنیا واقعی اسرائیلی جارحیت سے تنگ آ چکی ہے اور وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانا چاہتی ہے، اگر وہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، تو اب وقت ہے کہ بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات، اقوام متحدہ میں قراردادیں، انسانی امداد کی ترسیل، یہ سب کام کرنے کے ہیں اور یہ سب ایک دن میں نہیں ہوں گے، اس کے لیے مستقل مزاجی، اتفاق رائے، اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

 اس وقت اسرائیل کی جارحیت صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر آج قطر جیسے پرامن اور سفارتی کردار ادا کرنے والے ملک کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو کل کوئی اور ملک بھی اس فہرست میں ہو سکتا ہے۔ یہی آج کا سوال ہے کہ اب اگلا نشانہ کون سا اسلامی ملک ہو گا۔اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک اس حملے کو ایک سنگین خطرہ سمجھیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔

یہ موقع ہے کہ مسلم دنیا عملی اقدامات کر کے دنیا کو دکھائے کہ ظلم کے خلاف ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پاکستان نے پہل کر دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی دنیا، خصوصاً مسلم ممالک، اس پہل کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ اگر آج ہم متحد ہو گئے، تو کل فلسطین آزاد ہو گا۔ لیکن اگر آج بھی ہم صرف مذمتی قراردادیں منظور کر کے، بیانات دے کر اور کانفرنسیں منعقد کر کے مطمئن ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

متعلقہ مضامین

  • سیاف کی اپیل پر میرٹ کی پامالی کیخلاف احتجاجی کیمپ قائم
  • ٹرمپ کیخلاف وسطی لندن میں احتجاجی مظاہرہ، غزہ میں جنگ رُکوانے کا مطالبہ
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • لیاقت آباد،فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں کا لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاج،مرکزی شاہراہ بند
  • اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور
  • قطر پر اسرائیلی حملے کیخلاف مسلم دنیا متحد، جوابی اقدامات کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی
  • عرب اسلامی سربراہی اجلاس،قطر پر اسرائیلی حملے کا جواب واضح اور فیصلہ کن ہونا چاہیے، مسلم ممالک کی تجویز
  • اسرائیل کا تقاریر سے کچھ نہیں بگڑے گا، مسلم ممالک مشترکہ آپریشن روم بنائیں: ایران