Daily Ausaf:
2025-11-04@04:29:15 GMT

تاریخ لکھے گی…

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

تاریخ ہمیشہ گواہ رہتی ہے۔ یہ وہ خاموش مرخ ہے جو کسی قوم کی ترقی، زوال، کردار اور بے حسی کو بغیر کسی تعصب کے قلم بند کرتی ہے۔ یہ خوشامد نہیں کرتی، صرف سچ بولتی ہے اور یہی سچ امت مسلمہ کے چہرے سے نقاب نوچ کر رکھ دے گا۔ آنے والی نسلیں جب یہ تاریخ پڑھیں گی تو وہ ہم سے سوال کریں گی۔ ’’جب غزہ جل رہا تھا، تب آپ کہاں تھے؟‘‘ تاریخ لکھے گی کہ مصر کے پاس دریائے نیل تھا۔ وہی نیل جو فرعونوں کے عہد سے مصری تمدن کی علامت رہا۔ لیکن جب فلسطین کی بیٹیاں پیاس سے تڑپ رہی تھیں، جب غزہ کے معصوم بچے گندے جوہڑوں سے پانی پینے پر مجبور تھے، تب یہی مصر اپنی سرحد بند کئے کھڑا تھا۔ رفح کراسنگ جو غزہ کا دنیا سے واحد انسانی رابطہ ہے، بند تھی۔ مصر نے اپنے مظلوم پڑوسیوں کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیلی بیانیے کو ترجیح دی۔ کیا یہی عرب اخوت ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے؟تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس تیل کے سمندر تھے، اتنی دولت کہ دنیا کی سب سے بڑی عمارات، مصنوعی جزیرے اور سونے سے مزین محلات تعمیر کئے گئے۔ لیکن اسی وقت غزہ کے ہسپتالوں میں جنریٹر بند ہو رہے تھے، آپریشن کے دوران بجلی چلی جاتی تھی، ایمبولینسوں میں ایندھن نہ ہونے کے باعث زخمی تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتے تھے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل دوسری طرف موت کی وادی۔ انسانیت کہاں تھی؟تاریخ لکھے گی کہ امت مسلمہ کے پاس پچاس لاکھ سے زائد فوجی تھے۔ پاکستان، ترکی، ایران، مصر اور دیگر ممالک جدید ہتھیاروں، میزائلوں، ٹینکوں اور ڈرونز سے لیس تھے۔ لیکن جب ایک لاکھ سے بھی کم افراد پر مشتمل غزہ کی پٹی پر دنیا کی سب سے طاقتور جنگی مشینری حملہ آور تھی تو یہ طاقتور امت صرف تماشائی بنی رہی۔ صرف بیانات، مذمتیں اور تعزیتیں۔ نہ کوئی فوجی بھیجا گیا اور نہ کسی نے حملہ روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا۔تاریخ لکھے گی کہ سعودی عرب میں اربوں ڈالر کے کنسرٹس، فیشن شوز، ناچ گانے کی محفلیں ہو رہی تھیں۔
ٹیلر سوئفٹ، بیونسے اور دیگر مغربی فنکاروں کو بلایا جا رہا تھا، مگر غزہ میں لوگ روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہے تھے۔ کیا یہی نیا اسلام ہے جسے روشن خیالی کا نام دیا جا رہا ہے؟اور تاریخ لکھے گی کہ پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا، جو ہمیشہ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا رہا مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کر سکا۔ نہ عالمی سطح پر موثر سفارتی کردار ادا کیا گیا نہ کوئی معاشی یا عسکری دبا ڈالا گیا، نہ عوامی سطح پر کوئی بڑی تحریک چلائی گئی۔ فقط قراردادیں، تقاریر اور ’’یومِ فلسطین‘‘منانے کی حد تک محدود رہے۔تاریخ لکھے گی کہ عرب صرف سفید چغے پہن کر تلواریں لہرا کر صرف تصویری شو کرتے رہے۔ ترک صرف ڈرامے بنا کر خلافت کا خواب بیچ کر خود کو ہیرو بناتے رہے۔ پاکستانی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے رہے۔ایرانی اپنے ہی گھر میں فلسطینی مجاہدوں کے عظیم لیڈر اسماعیل ہانیہ کو اسرائیلی حملے سے نہ بچا سکے۔ عمل کے میدان میں شاید ایک وفادار کتا بھی سب سے بہتر ہو، کیونکہ وہ کم از کم اخلاص اور وفا تو جانتا ہے۔ ہماری یہی خاموشی یہی اندھی عقیدت، قیامت کے دن ہمارے گلے کا پھندا بن جائے گی۔تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ ایران اور ترکی نے اسلام کا نام بہت استعمال کیا۔ ایران نے خود کو ’’مدافعینِ حرم‘‘قرار دیا، ترکی نے امت کی قیادت کا دعوی کیا، لیکن جب غزہ میں نسل کشی ہو رہی تھی، تب دونوں ممالک بھی اپنے مفادات کی سیاست میں الجھے رہے۔ ایران نے خاموشی اختیار کی اور بعض اوقات اپنے حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے حالات کو مزید بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔
دور عثمانیہ کے وارث ترکی کے حکمرانوں نے اسرائیل سے تجارت جاری رکھی، سفارتی تعلقات بہتر کیے، اور اپنے کلمہ گو بھائیوں کے لئے اسرائیل کو براہ راست کچھ بھی نہ کہا۔تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ عوام جو سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹس تو کرتے رہے، لیکن خود اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ پیپسی، کوک، سٹنگ، میکڈونلڈز، کے ایف سی، نیسلے اور دیگر مغربی برانڈز بدستور استعمال کرتے رہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کمپنیوں کی کمائی سے اسرائیل کو فنڈز ملتے ہیں مگر ہم نے اپنی عادتیں نہیں بدلیں۔ بائیکاٹ صرف نعروں تک محدود رہا۔اور حیرت انگیز طور پر تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ جب غزہ کے بچے چیخ رہے تھے تب لندن، پیرس، نیویارک، شکاگو اور دیگر مغربی شہروں میں لاکھوں لوگ اسرائیلی ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ وہ جو نہ عرب تھے، نہ مسلمان لیکن انسان ضرور تھے۔ انہوں نے غزہ کے لیے آواز بلند کی جبکہ مسلمان ممالک کے عوام صرف سوشل میڈیا پر دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہے۔تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ فلسطینی مائیں اپنے بچوں کو رب رحمان کا نام لے کر، قرآن کی تلاوت کرتے کرتے دفناتی رہیں لیکن ان کے آنکھوں میں آنسو نہیں عزم تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’ہم مر رہے ہیں، مگر سر جھکایا نہیں!‘‘
غزہ کے بچوں کے جنازے گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا لیکن باقی امت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔تاریخ لکھے گی کہ کچھ لوگ فخر سے کہتے رہے کہ ہم نے دعائیں کیں، صدقہ دیا یا پوسٹ شیئر کی، مگر وہ یہ بھول گئے کہ اسلام صرف دعا، صدقہ یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا نام نہیں ، اسلام عمل کا دین ہے، قربانی، جہد مسلسل اور غیرت ایمانی کا نام ہے۔تاریخ ہمیشہ گواہ رہتی ہے اور وہ گواہی دیتی ہے جو قوموں کے عروج و زوال ان کے کردار اور ان کی بے حسی کی داستانوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ وہ خاموش مرخ ہے جو صرف سچ بولتا ہے، اور یہ وہ سچ ہوتا ہے جو کسی بھی تاثر یا مصلحت سے آزاد ہوتا ہے اور بالآخر، تاریخ لکھے گی کہ قیامت کے دن حساب سب سے ہوگا۔ غزہ کے بچوں کا خون گواہی دے گا۔ وہ پوچھیں گے۔ ’’جب ہم مرتے رہے، تم کہاں تھے؟‘‘ تب شائد کوئی جواب نہ دے سکے۔اللھم انصر اخواننا فی غزہ وفلسطین نصرا عزیزا،اللھم اکشف کربہم، واشف جرحاھم، وارحم موتاھم، وانصرھم علی عدوک وعدوھم، آمین یا رب العالمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرتے رہے ہے تاریخ اور دیگر رہی تھی کا نام ہے اور غزہ کے

پڑھیں:

نومبر، انقلاب کا مہینہ

نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔

اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔

لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔

اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔

خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟

نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔

روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔

یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔

ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔

جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔

ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔

 نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔

یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟

شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔

آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟

شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تاریخ کی نئی سمت