فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے  7رکنی بینچ نے کی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ آئین کے مطابق کورٹ مارشل کورٹس ہائیکورٹ کے ماتحت نہیں ہوتی، آئین میں کورٹ مارشل کی حمایت میں گنجائش موجود ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے بھی عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا تھا جو ان کی تفہیم کے مطابق تھا، جسٹس حسن اظہر رضوی  بولے؛ پیج 531 اور 533 بھی تھے جو سلمان اکرم راجہ کے خواب میں بھی آتے تھے، یہی پیجز نے انہوں نے بار بار پڑھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اب ہمیں بھی خواب میں ایف بی علی کی شکل نظر آتی رہتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ ثابت ہونے کی بنیاد الزام کی نوعیت پر ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ کی بنیاد دفاع پاکستان سے متعلق ہوگی، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف آرمڈ فورسز کے ارکان کے لیے ہوگا، کیونکہ اس فیصلے میں کہا گیا کہ جن پر آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی کا اطلاق ہوگا، ان پر باقی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ ایک سازش جو ابھی ہوئی نہیں، اس پر قانون کا اطلاق کیسے ہو گا، جس پر خواجہ حارث بولے؛ سازش کرنے پر بھی آرمی ایکٹ کا نفاذ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق ضابطہ فوجداری میں بھی قتل اور اقدام قتل کی الگ الگ شقیں ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہکرمنل جسٹس سسٹم کو آرٹیکل 175 کی شق 3 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہیں ایک کنفیوژن ہے جس پر ایک سوال پوچھنا چاہتی ہیں، پریس والے بیٹھے ہیں نجانے میری آبزرویشن کو کیا سے کیا بنا دیں، اپیل کا حق بھی نہیں ہے، کیا عام قانون سازی کرکے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ کیا آئینی ترمیم کرکے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا، بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف آزادانہ فورم موجود ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ویسے اپیل کی حد تک تو  اٹارنی جنرل نے عدالت میں گزارشات پیش کی تھیں، ان کی گزارشات عدالتی کارروائی کے حکمناموں میں موجود ہے، بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔

آج کی سماعت کے دوران آئینی بینچ نے کیس آئندہ دو سماعتوں پر مکمل کرنے کا عندیہ دیا، بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل کو خود عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب آرٹیکل 8 کی شق 3 اے کے تحت معاملہ عدالت آ ہی نہیں سکتا تو پھر بات ختم، پھر کیسی اپیل، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ میں کسی کو اپیل کا حق نہیں دے رہا، بین الاقوامی طور اپیل کا حق دینے کی دلیل دی گئی۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب پر دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اٹارنی جنرل ٹرائل جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر جسٹس مسرت ہلالی خواجہ حارث سلمان اکرم راجہ سویلینز وزارت دفاع.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر جسٹس مسرت ہلالی خواجہ حارث سلمان اکرم راجہ سویلینز وزارت دفاع فوجی عدالتوں میں سویلینز جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس محمد علی مظہر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ سویلینز کے خواجہ حارث آرمی ایکٹ کا اطلاق کے مطابق اپیل کا

پڑھیں:

ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔  جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • کے پی: بلدیاتی نمائندوں کو 3 سال توسیع دینے کی درخواست، وکیل کی استدعا پر سماعت ملتوی
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ دینے کی پنجاب حکومت کی استدعا مسترد
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • نو مئی مقدمات:بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • شیخ رشید کی بریت کی اپیل، پنجاب حکومت نے شواہد پیش کرنے کیلئے وقت مانگ لیا
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • کراچی ایئر پورٹ خود کش حملہ کیس، ریکارڈ کی فراہمی کیلئے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ